1
0
Friday 2 Aug 2013 11:11

جمعۃ الوداع، یوم القدس، یوم اسلام

جمعۃ الوداع، یوم القدس، یوم اسلام
تحریر: مریم گیلانی

عصر حاضر میں دنیا کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو چند حیرت انگیز چیزوں کا شدت سے ادراک ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں بالعموم اور اسلامی دنیا میں بالخصوص بین المذاہب ہم آہنگی اپنے پورے لوازمات کے ساتھ پائی جاتی ہے مگر دوسری طرف اسی دنیا میں بالعموم اور اسلامی دنیا میں بالخصوص اتحاد بین المسلمین کا شدید ترین فقدان دیکھنے کو ملتاہے۔ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جو ایک طرف دیگر مذاہب ہندو، عیسائی، یہودی، سکھ، بدھ مت کے لوگوں کو تو برداشت کرتی ہیں لیکن شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، سلفی خانقاہی کو ایک دوسرے کے سامنے ہتھیار بند کھڑا کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ بحیثیت مسلمان جب دیگر مذاہب کے خلاف ہمارے دل میں کدورت باقی نہیں رہتی تو اپنے ہی کلمہ گو اسلامی بھائیوں کے لیے یہ نفرت کہاں سے امڈ کر آ جاتی ہے۔ جو نہ ہی خودکش حملوں، ٹارگٹ کلنگ، بےگناہ مسافروں کے چھلنی سینوں اور خواتین کی عصمت دری سے ختم ہوتی ہے اور نہ ہی مقامات مقدسہ کی توہین، واجب القتل اور کفر کے تند و تیز فتوئوں سے کم ہوتی ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ اسلامی معاشرے تاحال فرقہ واریت کے عفریت سے جان نہیں چھڑا سکے اور فرقوں کے درمیان پائے جانیوالے مشترکات کی بنیاد پر کیوں متحد نہیں ہوسکے۔ میکڈونلڈ، پیپسی، ریڈ بل پینے پر کسی مسجد سے کوئی اعتراض نہیں اٹھتا لیکن داتا، قلندر، بری امام، غوث اعظم کا لنگر اور نذر و نیاز کھانے کے خلاف میناروں کے سپیکرز سے گولہ باری شروع ہوجاتی ہے، حالانکہ اتحاد بین المسلمین کا فروغ نہ صرف حکم خدا و رسول ص ہے بلکہ موجودہ وقت کی اہم ضرورت اور ہماری مجبوری بھی ہے کیونکہ معاشرتی اور عوامی سطح پر کسی کے پاس بھی اپنا ہمسایہ تبدیل کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہی۔ باقی اسلامی دنیا کو چھوڑ کر اگر صرف وطن عزیز پاکستان کے اندرونی حالات پر بھی نظر دوڑائی جائے تو بھائی بھائی کا گلہ ثواب سمجھ کر کاٹنے میں مصروف نظر آتا ہے۔

حالانکہ ماضی قریب میں ماحول اتنا پراگندہ نہیں تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے دانت نکوستے ہوئے یہ جملے ادا ہوئے تھے کہ سرخ خطرہ (روس) مٹ چکا ہے مگر سبز خطرہ (اسلام) ابھی باقی ہے۔ سوویت یونین سے نام نہاد جہاد کے دوران امریکہ افغانستان میں نہ صرف اپنا گرائونڈ ورک پورا کر چکا تھا بلکہ خطے سے متعلق اپنی آئندہ پچاس سالہ پالیسی (سلوپوائزن) بھی ترتیب دے چکا تھا۔ واضح رہے کہ یہی وہ وقت تھا جب انقلاب اسلامی ایران اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا پر واضح ہوچکا تھا جس نے ایک طرف اسرائیل کو عالمی قوانین کے منافی اور ناجائز ریاست قرار دیکر اس کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کیا اور دوسری طرف اتحاد بین المسلمین کے نعرے کے ذریعے امت واحدہ کے تصور کو بھی دنیا پر آشکارا کیا۔ جس کے جواب میں صلیب و ٹمپل کے بڑے دماغوں نے کافی سوچ بچار کے بعد کروسیڈ وار (صلیبی جنگیں) کو اسلامی دنیا پر قائم رکھنے کی تجاویز کا پلندہ پالیسی سازوں تک پہنچایا۔


عالمی سامراج پہلے ہی وطن عزیز پاکستان میں ہونیوالی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس سے شدید خار کھائے بیٹھا تھا اور اس کانفرنس میں شریک تمام اسلامی سربراہوں کے ناموں پر سرخ دائرے کی دستاویز بھی تیار ہوچکی تھی۔ لیکن اس وقت امریکہ یا مغرب سمیت یورپ کا کوئی بھی ملک اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ صلیب و ٹمپل کی تجاویز کی روشنی میں کروسیڈ وار کے نعرے سے جنگ چھیڑتا کیونکہ تمام ممالک معاشی ترقی و اصلاحات کے نئے دور سے گزر رہے تھی۔ دوسری طرف معاشی جنگ کے اس دور میں امریکہ کا ایک بڑا انحصار اپنی ہتھیار انڈسٹری پر تھا۔چنانچہ اپنی ہتھیاروں کی صنعت اور سبز خطرہ سے نمٹنے کے لیے نہایت سادہ سا کلیہ اپنایا گیا۔ جس کے تحت اسلامی دنیا کے ہر ملک و ریاست کو اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار کیا جائے۔

بیرونی خطرات میں اسلامی ریاستوں کے درمیان معاملات انتہائی سنگین سطح تک لائے جائیں اور اندرونی خطرات میں فرقہ واریت کا وائرس ریاست میں داخل کیا جائے۔ یہاں یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ سلامتی کونسل نے بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ کی اس پالیسی کا مکمل ساتھ دیا کسی بھی غیراسلامی ریاست کا معاملہ سلامتی کونسل میں پہنچا وہ مذاکرات کے ذریعے حل ہوا مگر اسلامی ملکوں کے مسائل کو اتنا پیچیدہ کیا گیا کہ بالاخر اس کا نتیجہ جنگوں کی یا ریاستوں کے بٹواروں کی صورت میں سامنے آیا۔ جو مسلم رہنماء اسلامی سربراہی کانفرنس میں شریک تھے وہ سب کے سب غیر طبعی موت کا شکار ہوئے۔ جن میں سے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو انتہائی متنازعہ کردار جنرل ضیاء نے پھانسی پر چڑھایا۔ جس صدام کے ذریعے امریکہ نے ایران پر ایک طویل جنگ مسلط رکھی اسی صدام کے خاتمے کے لیے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔ جن طالبان کے ذریعے سوویت یونین کو شکست و ریخت سے دوچار کیا انہی طالبان کو ختم کرنے کے بہانے افغانستا ن میں اپنے فوجی بوٹ مضبوطی سے جمائے۔

القصہ صلیب و ٹمپل سے ملنے والی تجاویز پر امریکہ نے عمل کیامگر اس کو کرو سیڈ وار کا نام دینے سے گریز کیا ۔ کیونکہ یہ نام دینے سے نہ صرف پوری دنیاکے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کی فضا پیدا ہونے کا اندیشہ تھا بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے دیگر مذاہب جن میں یہودی اور عیسائی سرفہرست کو بھی نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ تھا۔ اسلامی دنیا میں اسلحہ و گولہ بارود کی بندر بانٹ کرنے کے بعد ان کو آپس میں مصروف رکھنے کے لیے کوئی فتنہ یا ٹاسک دینا بھی ضروری تھا۔ کیونکہ ٹارگٹ کی غیر موجودگی میں اس امر کا بھی احتمال تھا کہ یہی اسلحہ اسلام کے حق میں اور سامراج کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ 

دنیا کے ہر پلیٹ فارم سے ملت اسلامیہ کے بچے بچے کو یہ باور کرانے کی ہر تہی کوشش کی گئی کہ مسلمان اور یہودی کے درمیان کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کے لیے جنگ ضروری ہو بس نظریاتی اختلاف ہے جو جیو اور جینے دو کی بنیاد پر ختم ہوتا ہے البتہ شیعہ اور سنی، بریلوی اور دیوبندی کے درمیان اختلاف کسی بھی صورت میں جنگ و جدل کے بناء ختم نہیں ہوسکتا۔ جو جیت گیا اسے ہی زندہ رہنے کا حق ہے۔ اسی طرح اسلام اور عیسائیت کے درمیان بھی کوئی ٹکرائو والا معاملہ نہیں ہے لیکن اسلام کے اندر سلفی اور خانقاہی نظام دونوں ایکدوسرے کی ضد ہیں جو قتل و غارت کے بناء ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرسکتے ۔

اللہ تعالیٰ ان نام نہاد مذہبی رہنمائوں کو بھی اس دنیا میں نشان عبرت بنائے جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل کی اس مکروہ سوچ کو اسلامی معاشروں میں نافذ کیا۔ رفتہ رفتہ یہ سوچ ان نو عمر ذہنوں میں الٹ دی گئی جو ریاست اور معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں۔ آج حالات یہ ہیں کہ مسلم رہنماء آپس میں دست و گریباں ہیں ۔اسلامی افواج آمنے سامنے کھڑی نظر آتیں ہیں۔ برما میں ہونیوالے مظالم کے خلاف یا شام میں ہونیوالی دہشت گردی کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی مگر فرقہ ورانہ دنگے فساد کی کال پر ہزاروں لوگ انسانیت کے چولے اتار کے میدان میں کود پڑتے ہیں۔ ایک گمنام سی کال پر سینکڑوں لوگ طرح طرح کے انسانیت کش ہتھیار لے کے بےگناہ مسافروں کے ٹکڑے کر دیتے ہیں۔ پورے پورے گائوں، قبیلے برسوں محاصرہ میں رکھنے کے بعد جلا کر خاک کردیئے جاتے ہیں۔ 

ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ صرف سامراجی منصوبہ بندی، ڈالرز اور امریکی اسلحہ نے ہی ملت کے اتحاد کا حشر نہیں کیا بلکہ کچھ مسلم ممالک بھی براہ راست اس امریکی منصوبہ بندی کا باقاعدہ حصہ بنے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امت مسلمہ جب تفریق کا شکار ہورہی تھی تو عرب ممالک جو دنیا میں امریکہ کے بعد سب سے بڑے ڈونرز ہیں ان کو آگے آکر حالات کو سنبھالنا چاہیے تھا مگر اس کے برعکس عربوں کی جانب سے ایک مخصوص سوچ کی ترویج کے لیے وسائل خرچ کئے گئے جس کے نتیجے میں اس مکتب فکر کے بکتر بند رکھنے والے جیالے تو پیدا ہوگئے مگر افسوس کہ وہ جانے انجانے میں سامراج کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے۔

عالمی سطح پر جب دو ملکوں نے آپس میں تعلقات بہتر کرنے ہوتے ہیں تو وہ آپس میں وفود کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں نظریات کے حوالے سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان وفود کے تبادلے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ حج کے موقع پر ایرانی حجاج جوق در جوق سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں تو ایران میں زیارات مقدسہ کے لیے سعودی زائرین ایران کا سفر کرتے ہیں۔ ایسے دو برادراسلامی ملک جن کے درمیان عوامی آمدورفت بھی دیگر کی نسبت زیادہ ہو اپنے تعلقات انہی وفود کی بنیاد پر بھی بہتر کرکے اتحاد کی کوششوں کو ثمرآور بنا سکتے ہیں۔

کرہ ارض پر ایک آواز اتحاد بین المسلمین کے لیے بلند ہوئی جو اتنی طاقتور و جامعیت سے بھرپور تھی کہ اس نے سامراجی و مغربی پالیسیوں کو شکست سے دوچار کیا، وہ آواز بلند پایہ مرد مومن امام خمینی رہ کی تھی جنہوں نے مکتب، زبان، قومیت و رنگت سے بالاتر ہوکر بحیثیت مسلمان فکری بیداری کا اہتمام کیا۔ انھوں نے ملت کے اجتماعی مسائل کے حل کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک چھتری تلے یکجان کیا۔ ان کے نمایاں کارناموں میں سے ایک شاہکار جمعۃ الوداع یوم القدس ہے۔

امام خمینی نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دیکر آج سے کئی برس قبل پوری ملت کو وہ ایک نکاتی ایجنڈا بھی پیش کردیا جس پر دنیا بھر کے مسلمان فرقہ زبان و مکان کے چنگل سے آزاد ہوکر اکھٹے ہو سکیں۔ یہ ان کی مستقبل شناسی دور اندیشی کا اعجاز ہے کہ سامراج و مغرب کے تمام حربوں کے باوجود بیت المقدس، مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے تمام مسلمان ایک ہی موقف رکھتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مشترکہ موقف کو متفقہ حکمت عملی سے کامیاب کیا جائے۔


اگر اسلامی ممالک کے حکمران ذاتی مفادات اور سامراجی خوشنودی سے بالاتر ہوکر بیت المقدس کی آزادی کے لیے لائحہ عمل پیش کریں تو کوئی شک نہیں کہ نہ صرف دنیائے اسلام میں ان کی عزت و پذیرائی میں اضافہ ہوگا بلکہ اللہ و اس کے رسول کی بارگاہ میں سرخرو ہونگے۔ اتحاد بین المسلمین کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ علماء، خطباء اپنی شرعی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا کریں اور ملت کو قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کے زمانی و مکانی اثرات کی تشریح بتائیں جس میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ "یہود و نصاریٰ تمارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے"۔ اسلامی دنیا کی پوری تاریخ اسی آیت مبارکہ کی تشریخ کرتی نظر آتی ہی۔


لہذا ضروری ہے کہ جمعۃ الوداع کے مبارک موقع پر پوری ملت اسلامیہ بلارنگ و نسل یکجان و یک زبان ہوکر قبلہ اول بیت المقدس فلسطین کی آزادی کا نعرہ بلند کرے ۔ اس مبارک اسلامی دن یوم القدس کو یوم اسلام کے طور پر منائے اور ذات و فکر کے فرق سے نکل کر اس ملت کے تصور کی تصویر بنے جس کے متعلق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ "مسلمان تو ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک حصہ میں تکلیف ہوگی تو دوسر ا بھی بے چین ہوگا"۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قول قرار سے مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 186716
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
آپ کے اس سوال کا جواب بہت واضح ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ اسلامی معاشرے تاحال فرقہ واریت کے عفریت سے جان نہیں چھڑا سکے٫؟
ہم منافقین اور یزیدیوں کو بھی مسلمان سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ ملکر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں اس وجہ سے فرقہ واریت ختم نہین ہوتی۔ اگر ہم منافقین کو اور یزیدیوں کو الگ کر دیں تو پھر کوئی ایسی بات ہی نہیں کہ فرقہ واریت ختم نہ ہو۔
ہماری پیشکش