0
Wednesday 16 Jan 2013 15:28

تشکیل معاشرے میں وحدت کا کردار

تشکیل معاشرے میں وحدت کا کردار
تحریر: مہر فرحت حسین
hussainfarhat604@gmail.com

تاریخ بشریت پر اگر غور و فکر کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائیگی کہ آغاز تاریخ سے ہی دو طرح کی سیاست وجود میں آئی ایک سیاست الٰہی دوسری سیاست طاغوتی، سیاست الٰہی پایۂ توحید پر استوار تھی کہ جس کی رہبریت کی ذمہ داری انبیاء و آئمہ معصومین علیہم السلام کے دوش پر تھی لیکن سیاست طاغوتی کی عمارت پایۂ شرک و تفرقہ و جدائی و اختلاف کے بل بوتے پر ٹکی ہوئی تھی، کہ جسکی باگ ڈور طاغوتی و شیطانی ہاتھوں میں تھی۔ اگر حکومت اسلامی کی بقاء و حیات توحید سے انسلاک بشریت کی بنا پر ہے، تو پھر طاغوتی و استعماری حکومت کی بقاء و حیات بشریت کے درمیان تفرقہ و جدائی سے وابستہ ہے چاہے وہ زمانہ ماضی کا ہو یا حال کا قرآ ن مجید بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے فرماتا ہے:
ان فرعون علا فی الارض وجعل اھلھا شیعاً یستضعف طائفة منھم یذبح ابنائھم و یستحی نسائھم انہ کان من المفسدین (قصص ٤)
بیشک فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اور اس نے اہل زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا کہ ایک گروہ نے دوسرے کو بالکل کمزور بنا دیا، وہ لڑکوں کو تہہ تیغ کر تا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھتا تھا، وہ یقینا مفسدین میں سے تھا۔

لیکن سیاست الٰہی کے رہبروں کی سعی تھی کہ لوگوں کو توحید کی دعوت دیں اور اتحاد و اتفاق کے راستے پر گامزن رکھیں لہٰذا فرمایا: الحمد للّٰہ رب العالمین، ساری تعریف عالمین کے پروردگار کیلئے ہیں یہ آیت فقط خدا کی خالقیت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہے بلکہ منشاء وحدت کو بھی بیان کر رہی ہے کہ سارے جہان کے افراد ایک خدا سے وابستہ ہیں اور ایک امت سے متصل ہیں، کہ جسکا مبداء و محور مذہب و ملت نہیں بلکہ خدا و آخرت پر ایمان اور انجام عمل صالح ہے۔
قرآن میں وحدت کی دعوت دی گئی ہے۔ قرآن کریم نے متعدد طریقوں سے مسلمانوں کو وحدت کی دعوت دی ہے ارشاد ہوتا ہے :
و انّ ھذہ امتکم امة واحدة و انا ربکم فاتقون (مومنون ٥٢)
بیشک تمہاری امت کا دین ایک دین ہے اور میں تمہار ا پروردگار ہوں لہذا مجھ سے ڈرو۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
انماالمومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم (الحجرات۱۰)
تمام اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہذا تم لوگ اپنے بھائیوں کے درمیان صلح و صلاح برقرار کرو ،قرآن مجید نے ایجاد وحدت کے لئے جو روش اختیار کی ہے کہ اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح قائم کرو، اسکی تاثیر جامعہ اسلام میں مثبت ہے، قبائل عرب جو ہمیشہ آپس میں جنگ و جدال میں مشغول رہا کرتے تھے اور اختلاف و افتراق انکا شعار بن چکا تھا، ظہور اسلام کے بعد قرآن نے ان سے بھی وحدت کا کلمہ پڑھوا لیا اور یہ وحدت کی طاقت تھی کہ جنگ بدر میں تین سو تیرہ افراد ہزار پر غالب ہو گئے، اگر عالم اسلام اس دور میں اصلاح اخوت کو اپنا فریضہ سمجھ کر وحدت کے راستے پر گامزن ہو جائے تو نہ صرف ظلم و بربریت کے سیلاب سے اپنے کو نجات دے سکتا ہے بلکہ اس کے مقابل ایک مستحکم و پائیدار چٹان کے مانند ہو گا۔ پیغمبر اسلام کی یہی کوشش تھی کہ مسلمان
ایک قوت و طاقت کے حامل ہو جائیں، لہذا انکے درمیان میں برادری کو برقرار کیا اور پھر علی علیہ السلام کو اپنا بھائی کہہ کر وحدت کے راستے کو ہموار کر دیا۔

قرآن مجید میں مفہوم وحدت کو اچھی طرح بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کی نظر میں وحدت کا مفہوم کیا ہے کہ وحدت اتحاد و اتفاق کا نام ہے، اخوت و محبت کا نام ہے یا کوئی اور شیٔ ہے، قرآن مجید آواز دیتا ہے
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا (عمران ١٥٣)
تم سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبو طی کے ساتھ پکڑ لو اور متفرق نہ ہو ۔
یہ آیت صریحا لوگوں کے اتحاد کی دعوت دے رہی اور ہر طرح کے تفرقہ سے روک رہی ہے، مفسرین نے حبل اللہ سے جو مراد لیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر طرح کا وسیلہ اور ارتباط خدا کی ذات اقدس سے منسلک ہے، چاہے یہ وسیلہ اسلام ہے یا قرآن یا پیغمبر و اہلبیت علیھم السلام ۔ اس آیت کے پہلے جملہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امت مسلمہ متحد ہے اور وحدت مسلمین برقرار ہے، کیونکہ ظاہراً ساری امت اس ایک پلیٹ فارم پرجمع ہے، اور ہر فرقہ واعتصمو ابحبل اللہ کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن جب دوسرے جملہ پر نظر پڑتی ہے تو مفہوم وحدت ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ یہ امت تفرقہ کے شکنجہ میں گرفتار ہے۔ لہذا جب تک تفرقہ کو دور نہ کرو گے مفہوم وحدت سمجھ میں نہ آئیگا ، اور جس دن تفرقہ کو دور کرکے ریسمان الٰہی سے متمسک ہو کر معاشرے کو وحدت کا لباس پہنا دیا تو پھر اسلام کے سامنے کفر کی بڑی سے بڑی طاقت بھی گھٹنے ٹیک دے گی، کیونکہ اس وحدت میں اتنا عظم و استحکام پایا جاتا ہے کہ انسان اقلیت کے باوجود بھی دشمن کے سامنے "کَانَّھُم بُنیَان مرَصُوص" کا مصداق ہوتا ہے، اور فتح اسکے قدم چومتی ہے اور اسی اتحاد کا نتیجہ تھا کہ ابتداء اسلام میں مسلمانوں کی اقلیت ہونے کے باوجود فتح کامرانی کا تاج انکے سر رہا، اس بات کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے:
واذکروا اذ انتم قلیل مستضعفون فی الارض تخافون ان یتخطّفکم الناس فاواکم و ایدکم بنصرہ و رزقکم من الطیبات لعلکم تشکرون (انفال٢٦)
مسلمانوں اس وقت کو یاد کرو کہ جب تم قلیل تعداد میں اور کمزور تھے تمھیں ہر وقت اس بات کا خوف تھا کہ لوگ تمہیں اچک لیجائینگے لیکن خدا نے تمہیں پناہ دی اور اپنی مدد سے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا کیا کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو۔

وحدت ایک ایسا کلمہ ہے کہ جسکی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان محبت و شفقت پیدا ہوتی ہے، قرآن مجید نے اصحاب پیغمبر کے بارے میں فرمایا: محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم (فتح٢٩) محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھی کفار کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مشفق و مہربان ہیں، پس مفہوم وحدت فقط یہ نہیں کہ تمام مسلمان آپس میں دوستی و محبت کو برقرار رکھیں، بلکہ عملی طور پر متحد ہو کر قرآن و اسلام اور اسکے اصول سے دفاع کی خاطر دشمن اسلام کے سامنے شمشیر بکف ہو جائیں۔ قرآن و حدیث کے مطابق مفہوم وحدت بہت وسیع ہے وحدت نام ہے امت واحدہ کا، وحدت نام ہے اخوت مسلمین کا،
وحدت نام ہے حبل اللہ کی گرفت کا، وحدت نام ہے ولاتفرقوا فی الدین کا، وحدت نام ہے ولا تکونوا من المشرکین کا، وحدت نام ہے فالف قلوبکم کا، وحدت نام ہے کان من الذین آمنوا کا، وحدت نام ہے واحبب لہ ما تحب لنفسک کا، وحدت نام ہے دین الٰہی سے تمسک کا، وحدت نام ہے اصول و فروع کی حفاظت کا، پس اگر وحدت اسلامی، اخلاقی و قرآنی و ہمکاری کی بنیاد پر مملکت اسلامی میں مسلمانوں کے درمیان ایجاد ہو جائے تو پھر وہ ملک کبھی بھی غلامی کے طوق میں نہیں جکڑ سکتا ، اس لئے کہ لطف الٰہی ہر لحاظ سے اسکے شامل حال ہو گا، اور ساتھ ہی ساتھ دشمن کا کلیجہ وحشت و ترس سے دہل اٹھے گا۔

وحدت اسلامی کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے کہ:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاکِ کاشغر
کی صدا صدیوں سے آرہی ہے لیکن مسلمان اس کی حقیقت کا یا تو ادراک ہی نہیں کرتے یا ادراک کر چکے ہیں تو اپنے اس ادراک پر یقین نہیں رکھتے، قرآن مجید نے یہاں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا ہے کیونکہ قرآن مبالغہ آمیز گفتگو سے پاک، ایک حقیقت گو کتاب ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم قرآن کی اس حقیقت پر یقین پیدا کریں اور قرآن کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے وحدت اسلامی کے لئے قدم بڑھائیں، اس کے لئے ہمیں تینوں قوتوں (آنکھ ،کان اور دل)کی توجہ کو مبذول کرتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ قرآن مجید جو کبھی عمومِ مسلمین کے درمیانی رشتے کو اخوت سے تعبیر کر رہا ہے،کبھی مسلمانوں کو ” واعتصموا بحبل اللّہ جمیعاً ولا تفرقوا“ کے عنوان سے ایک واجب عینی اجتماعی کی تعلیم دے رہا ہے اور کبھی ”وَلاَتَنَازَعُوا فَتَفشَلُوا وَتَذہَبَ رِیحُکُم“ کے ذریعے اس واجب اجتماعی کی مخالفت کے عواقب اور آثار شوم سے ڈرا رہا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یقینا یہ ایک ایسا امر ضرور ہے جس پر کامل توجہ دینی چاہیئے اور اس کے بارے میں قرآن کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیئے۔

وحدت اسلامی کی ضرورت :
سابق الذکر آیات سے تقریبا ً وحدت کی ضرورت کا مفہوم واضح ہو چکا ہے جس میں بیان کیا گیا کہ اتحاد اور اتفاق کو پارہ پارہ کرنے کے نتیجے میں کیا کیا سزائیں مکافات عمل کے طور پر بھگتنا پڑتی ہیں۔ وحدت سے ہی کوئی قوم اپنی کھوئی ہوئی آزادی کو پا سکتی ہے، وحدت سے ہی کوئی اپنے دشمن پر غالب آ سکتا ہے، وحدت سے ہی شمشیر پر خون کو فتح حاصل ہو سکتی ہے اور وحدت سے ہی منافع کا حصول اور نقصانات سے حفاظت ممکن ہے تو کیوں یہ مسلمان اقوام آپس میں دست و گریبان ہیں جبکہ ان کے منافع و نقصانات سب ایک ہیں جیسے کہ اس مطلب کو شاعر حکیم علامہ محمد اقبال نے جواب شکوہ میں ایک درد انگیز نوحے کی صورت میں یوں بیان کیا ہے : منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، ایمان بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں


دنیا میں ہمیشہ ہر قوم کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے
کی بہت ضرورت ہے مگر مسلمان اقوام کی صفوں میں اتحاد کی ضرورت اور اہمیت روز بہ روز بیشتر ہوتی جا رہی ہے جس کا احساس ہر مسلمان کو ہونا چاہیئے، اور اس حقیقت سے کوئی بھی عاقل انسان انکار نہیں کر سکتا، اس ضروری اور اہم امر کا حصول آیات اور روایات کی روشنی میں ہر مسلمان پر ایک فریضہ الٰہی اجتماعی ہے اور تاریخ میں جس جس کو اپنے اس فریضہ کا علم تھا اور اس پر عمل کرنے کی فکر میں رہتا تھا ،اس نے اپنی بساط کے مطابق اس فریضہ کی ادائیگی کی کوشش کی، خصوصاً سلطنت عثمانی کے خاتمہ کے بعد مسلمان مفکرین میں اتحاد و وحدت اسلامی کی ضرورت کا احساس زیادہ ہونے لگا تو دنیا کے مختلف گوشوں سے وحدت اسلامی کی آواز سنائی دینے لگی۔ کبھی قید خانے کی دیواروں سے ”حسن البنا “ کی ”یا ایہا المسلمون اتحدوا اتحدوا “ کی آواز آتی تھی، تو کبھی فلسطین کی گلیوں میں اسرائیل کی سفاکی کا شکار بوڑھا شیخ احمد یاسین وہیل چیئر پر سوار دشمن سے جہاد کرتے ہوئے ”یا للمسلمین “کی صدا بلند کرتا تھا ۔کبھی تختہ دار سے ”سید قطب “ اور” شہید مدرس “ کو مسلمانوں کے درد میں نوحہ کناں دیکھتے ہیں تو کبھی اقبال کو دیار غربت میں مسلمانوں کی زیور گم گشتہ کی تلاش میں مرثیہ خواں پاتے ہیں۔ کبھی برصغیر کے دشت و بیابان سے ”مودودی “ کی صدائے اتحاد سنائی دیتی ہے تو کبھی افغانستان کے پہاڑوں سے اٹھنے والا” سید جمال الدین “ اتحاد کی خاطر مسلمان حکمرانوں کو دستک دیتے ہوئے نظر آتا ہے۔ کبھی بعثیوں کے شکنجے میں” شہید باقر الصدر “ اپنی ہمشیرہ کے ساتھ امت اسلامی کے نام اپنے خون سے پیغام وحدت لکھتے ہیں تو کبھی ”امام موسیٰ صدر “ اور ”ڈاکٹر چمران “ لبنان کی سنگلاخ وادیوں میں اتحاد کے بیج بوتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔

ان تمام کاوشوں اور کوششوں کی جتنی بھی قدر دانی ہو کم ہے، لیکن ان تمام آوازوں میں ایک طاقت کی کمی تھی جس کی وجہ سے یہ آواز اتنی پر اثر نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہیئے تھی اور وہ طاقت ولایت کی طاقت تھی یعنی یہ دعوت ولایت فقیہ کی طاقت اور قوت سے خالی تھی جس کی وجہ سے اپنی تمام تر اہمیتوں کے باوجود زیادہ وسیع انداز میں بار آور نہیں ہو سکی۔ اگرچہ ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان افکار اور شخصیات کا نظام ولایت ِ فقیہ کے قیام میں کسی نہ کسی طرح حصہ ضرور شامل ہے لیکن جیسے ہی اس دعوت کی پشت پر ایک ولی فقیہ آ کر کھڑا ہو گیا تو اس آواز نے قوت پکڑ لی اور دنیا کے درودیوار میں لرزہ طاری کر دیا اور اتحاد و وحدت اسلامی میں وہ کردار ادا کیا جس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اب اس ولایت کے سائے میں جو بھی اتحاد کی بات کرتا ہے تو وہ اثر رکھتی ہے، اس ولایت کے سائے میں اتحاد کی آواز لگاتے ہوئے ”عارف حسینی“ افغان مجاہدین کا ساتھ دیتا ہے تو روسی افواج کی پیش قدمی رک جاتی ہے، اسی اتحاد کی صدا کو اب وہی اسی سالہ بوڑھا ” شیخ احمد یاسین “ بلند کرتا ہے تو اسرائیل کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں، اور اسی ولایت کے پرتو
میں ”سید حسن نصراللہ“ پرچم وحدت لیکر فلسطینی مستضعفین کی مدد کو نکلتا ہے تو اسرائیل کو اپنی جگہ چھوڑنا پڑتی ہے لہٰذا آپ کو وحدت اسلامی کی اہمیت اور ضرورت کا اندا زہ ہوچکا ہوگا۔

ولایت فقیہ نے اسلامی وحدت میں وہ کردار ادا کیا ہے جو غیبت امام زمانہ کے بعد سے اب تک کسی شخصیت یا اسلامی تحریک نے ادا نہیں کیا ہے ہم اپنے کالم کی محدودیت اور موضوع کی وسعت دونوں کو مدنظر رکھ کر یہاں پر فہرست وار ”مشتے از خروارے “کی مثال چند کردار کو بیان کرنے پر اکتفاء کریں گے۔

علامہ عارف حسین الحسینی:
نے ہفتہ وحدت کی مناسبت سے فرمایا ''ہفتہ وحدت کی مناسبت سے میں مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ قرآن پاک اور اسلام کی عظیم تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پرچم توحید کے سائے تلے دشمنان اسلام کے مقابلے کے لئے متحد ہو جائیں۔ ہر قسم کے علاقائی، نسلی اور فرقہ وارانہ امتیازات و تعصبات سے بالاتر ہو کر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ آج اسلام و کفر کا مسئلہ درپیش ہے۔ کفر اور سنی یا کفر اور شیعہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہر وہ آواز یا تحریر جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف و بدگمانی پیدا کرے وہ شیطانی آواز تصور کی جائے گی کیونکہ اختلاف شیطان کے جنود (لشکروں) میں سے ہے اور اتحاد رحمان کے جنود (لشکروں )میں سے ہے۔

امام خمینی فرماتے ہیں:
”مقدس مقامات پر موجود مسلمان، چاہے کسی بھی ملت یا مکتب سے تعلق رکھتے ہوں انہیں بخوبی جاننا چاہیئے کہ اسلام، قرآن کریم اور پیغمبر عظیم الشان کے حقیقی دشمن بڑی طاقتیں بالخصوص امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل ہے کہ جنہوں نے نگاہ ِ ہوس اسلامی ممالک پر جما رکھی ہے، اور ان ممالک کے زیر زمین اور بالائے زمین ذخائر کو لوٹ لینے کے لئے وہ کسی بھی جارحیت اور سازش سے ہاتھ اٹھانے والے نہیں “ ایک اور جگہ امام خمینی اسلام و مسلمین کے اصلی دشمنوں کی مزید نقاب کشائی کرنے کے ساتھ فخر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اسلامی قوموں یعنی دنیا کے مستضعفین کے لئے یہ فخر ہے کہ ان کے دشمن ستم پیشہ چکر باز ہیں۔ امام نے نہ فقط یہاں پر اکتفاء کیا بلکہ آگے بھی اپنے آخری ایام تک اور پھر آخری پیغام (وصیت) میں بھی وحدت کا پیغام دے کر دنیا سے خدا حافظی کر لی، اپنے الٰہی وصیت نامے میں وحدت اسلامی کی یوں تاکید فرماتے ہیں: ”حال و مستقبل میں ایرانی عوام اور دنیا کے مسلمانوں کو جو چیزیں درپیش ہیں اور ہمیشہ اس کی اہمیت کو مدنظر رکھنا چاہیئے وہ خانہ برانداز (تباہ کن ) تفرقہ انگیز افواہیں ہیں، جن کو ناکام بنانا چاہیئے، تمام مسلمانوں خاص کر ایرانیوں اور بالخصوص عصر حاضر کے لئے میری وصیت یہ ہے کہ ان سازشوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، ہر ممکن طریقے سے اپنا اتحاد و اتفاق برقرار رکھیں اور اپنے اتحاد سے کافروں نیز منافقوں کو مایوس کر دیں “۔

اس طرح امام راحل اپنی پوری زندگی درس وحدت دیتے رہے اور لوگوں کو اسلامی اتحاد کی طرف بلاتے رہے اور آخری سانسیں بھی اسلامی اتحاد کی بقاء کی فکر
میں لیتے ہوئے ہمیں داغ ِ مفارقت دے گئے امام کے بعد آپ کا نائب صالح ہر دلعزیز شخصیت رہبر معظم حضرت آیة اللہ سید علی خامنہ ای (دامت برکاتہ الیٰ قیام القائم) نے بھی امام کی پیروی میں مسلمانوں کو اتحاد کی تلقین کرنا شروع کیا تو آپ نے اتحاد اسلامی کے لئے وہ کارنامے انجام دئیے جس کی وجہ سے آج خود آپ کی شخصیت رمز وحدت کے طور پر دنیا میں ابھر کر سامنے آئی ہے ،آپ کی گفتگو جہاں ٹوٹتے دلوں کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہاں آپ فرقہ واریت کے آتش فشاں سے چشمہ وحدت جاری کرنے کا گُر بھی جانتے ہیں، جس طرح آپ کی مسحور کن شخصیت دشمن کی آنکھوں کو خیرہ کر سکتی ہے اسی طرح آپ امت اسلامی کو تسنیم وحدت کا جام پلا کر مہر و محبت کے چمنستان میں نغمہ توحید کا دلدادہ بنانے کا ہنر بھی رکھتے ہیں، آپ جہاں دیار کفر و شرک اور سرزمین استکبار و استعمارکی شادابی کو ولایت کی باد خزاں سے جاڑ کر پھول کے کانٹوں کو خاک مذلّت کا لبادہ اوڑھا کر نابود کرنے کا فن جانتے ہیں وہاں امت واحدہ کے روضہ جنان میں مرجھائے ہوئے توحید پرست پھولوں کو آب ِخودی سے سیراب کر کے بلبل کو ترانہ وحدت گانے پر مجبور کرنے کا سحر بھی رکھتے ہیں۔

آپ ہی ایک جگہ پر اپنے ایک بیان میں وحدت کی ضرورت کو معاشرے کے لئے ایک لازمی عنصر کے طور پر پیش کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں: ”آج بھی تیس سال پہلے کی طرح ایرانی قوم ان تین عناصر کی طرف محتاج ہے ،اتحاد ،حضور در صحنہ اور آگاہی و شعور“ کوئی رہبر معظم کے اس فرمان کو ایرانی قوم کے ساتھ مختص سمجھ کر اپنا شانہ خالی نہیں کرسکتا ہے کیونکہ یہ بات کسی قوم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ عمومی ایسے اصول ہیں جس پر ہر آزادی طلب اور عزت طلب قوم کو عمل کرنا ضروری ہے، اور پھر الٰہی رہبران کے ارشادات میں مخاطب فقط سامنے والا نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر آنے والے کو اپنا مخاطب قرار دیتا ہے۔

انٹرنیشنل وحدت اسلامی کانفرنس کا انعقاد:
رہبر معظم کے مشوروں پر ہی اس کانفرنس کو فعال اور عالمی کیا گیا اور ساتھ ہی آپ شروع سے اب تک اس کانفرنس میں مسلمان مفکرین کو اپنا پیغام بلواسطہ یا بلاواسطہ پہنچا رہے ہیں یہ کانفرنس اسلامی دنیا کے مسائل، مشکلات، تخاصمات اور ان کے حل کے بارے میں بحث کرتی ہے اور اس بارے میں اسلامی دنیا کے بڑے بڑے مفکرین اور علماء کی آراء و نظریات سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس کانفرنس نے اسلامی معاشروں کے اندر وحدت اسلامی کے لئے اور تقریب مذاہب میں کتنے مثبت کارنامے انجام دئیے ہیں اور اس کانفرنس کا کتنا کردار اسلامی اتحاد کے قیام اور برقرار رکھنے میں ہے یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پر بحث سے ہم معذور ہیں لیکن یہ بات سب کو ذہن نشین رکھنا چاہیئے کہ اس کانفرنس کا اسلامی اتحاد میں جتنا بھی کردار ہو گا اس میں ایک بڑا حصہ اور کردار ولایت فقیہ کا ہو گا کیونکہ اس کانفرنس پر سایہ ولایت فقیہ کا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں یکجہتی اور اتحاد کی خاص اہمیت ہے کیونکہ تشکیل معاشرے میں وحدت کا کردار خاص اہمیت رکھتا ہے
خبر کا کوڈ : 231813
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش