2
0
Sunday 10 Feb 2013 20:48

11فروری، مغرب زدہ ایوانوں پر انقلابی دستک

11فروری، مغرب زدہ ایوانوں پر انقلابی دستک
تحریر: عمران خان

امریکہ و مغرب کے لیے عشرت کدہ رہنے والا ایران انقلاب کے بعد سامراج کے لیے ایک معمہ بن چکا ہے۔
امریکی فوج میں خودکشی کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، صرف 2012ء میں آن دی ریکارڈ تین سو سے زائد امریکی فوجیوں نے خودکشی کی۔
امریکن ریسرج میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق عراق سے واپس آنے والے امریکی فوجی پراسرار قسم کی ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کا شکار تھے۔
 
11فروری 1979ء سے قبل کون سوچ سکتا تھا کہ ایران اور امریکہ یا مغرب کے درمیان کوئی نظریاتی، ثقافتی، دفاعی یا معاشی اختلاف بھی جنم لے گا۔ ایک ایسا ملک جو امریکہ و مغرب کے عشرت کدے کا روپ دھار چکا تھا۔ مغربی تہذیب و ثقافت کی یلغار نقطہ عروج کو چھو رہی تھی۔ شاہِ ایران، ایک ڈکٹیٹر ایشیاء میں امریکہ و مغرب کے مفادات کی نگہبانی کر رہا تھا اور ایران کی سرزمین بیرونی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔ اس وقت کے ایران سے مغرب بہت مطمئن تھا۔ امریکہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کے زیرتسلط ایران کو غیر روایتی ہتھیاروں کی فراہمی اور ایٹمی پروگرام میں معاونت کی خوشنما پیش کش کر رہا تھا۔ ترقی پذیر دنیا میں بالعموم اور اسلامی دنیا میں بالخصوص یہ فکر رائج ہو رہی تھی کہ وجود کو برقرار رکھنے کے لیے طاقت کے دو ایوانوں روس و امریکہ میں سے کسی ایک کی سرپرستی حاصل ہونا ضروری ہے، لیکن آنے والے وقت نے نہ صرف اس رائج سوچ کی نفی کی بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ اپنی سلامتی، خودمختاری اور قومی غیرت و حمیت کو سربلند رکھ کے بھی ترقی کی منازل طے کی جا سکتی ہیں۔1977ء میں شاہِ ایران کے خلاف اسلامی تحریک کا آغاز ہوا جس کی بنیادی وجہ شاہِ ایران کی جانب سے نافذ کردہ غیراسلامی قوانین بنے جن کے تحت حجاب کی حوصلہ شکنی، بے راہروی کی حوصلہ افزائی، دینی محافل، مدارس، رسومات، لٹریچر پر پابندیاں شامل تھیں۔ 

طاقت و اختیارات پر نازاں پادشاہ اور ان کے بیرونی سرپرست تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ایرانی قوم کو اسلام پسندی سے دور نہ کر سکے۔ چنانچہ امام خمینی (رہ) کی رہبری میں جب عوام سراپا احتجاج بنے تو شاہِ ایران کا مغرب ذدہ نظام اور بیرونی مفادات خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔ 11فروری 1979ء کا سورج طلوع ہوا تو ایشیا میں امریکہ اور اس کے سامراجی ایجنڈے کو گرہن لگ چکا تھا۔ ایران میں اسلام قوتوں کی کامیابی پوری دنیا کی عوامی تحریکوں کے لیے مثالی نمونہ بنی۔ ملک گیر ریفرنڈم کے ذریعے ایران میں اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں آیا۔ فکری بیداری، اتحاد بین المسلمین اور اسلامی ثقافت کے فروغ سے باقی اسلامی دنیا بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جمہوریت اور حقوق انسانی کے علمبردار عوام کے ذریعے آنے والے اس انقلاب کو کھلے دل سے تسلیم کرتے اور جمہوری قوتوں کے ساتھ تعاون کرتے مگر امریکہ و مغرب نے نہ ہی اس جمہوری و عوامی انقلاب اور نظام حکومت کو تسلیم کیا اور نہ ہی اس کے مثبت اور آفاقی ثمرات پر غور کرنے کی زحمت گوارا کی بلکہ شاہ دور میں ایران کے بیرون ملک جتنے بھی اثاثے تھے وہ منجمد کرکے اسے مختلف پابندیوں کا شکار کر دیا اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عراق کے ذریعے ایرانی قوم پر ایک طویل اور اعصاب شکن جنگ بھی مسلط کر دی، مگر امریکی و مغربی ایجنڈا یہاں بھی ناکامی سے دوچار ہوا اور ایرانی قوم اپنے نظام اور نظریہ کی حفاظت کی خاطر ہر قسم کے مصائب، آلام کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتی رہی۔ 

ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ مغرب زدہ ایران (انقلاب سے قبل)میں تعلیم و ترقی کی شرح اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں نہایت کم رہی ۔ تمام تر کوششوں اور روکاٹوں کے باوجود آج کا ترقی پذیر ایران جس مقام پر کھڑا ہے اہل مغرب کے لیے یقیناً کسی معمے سے کم نہیں۔ اسلامی تناظر میں اس انقلاب کا موجودہ دور میں جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ حج و عمر ہ کرنیوالوں میں زیادہ تعداد ایرانی مسلمانو ں کی ہے۔ اسی طرح کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ قرآن مجید کے قاری کی تعداد میں بھی اسلامی جمہوریہ ایر ان سرفہرست ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ قرآنی خطاطی اور قرآت کے مقابلے بھی ایران میں ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر مقابلہ قرآت کے انعامات حاصل کرنیوالا ملک بھی ایران ہے۔ انقلاب نے زندگی کے ہر شعبے میں وسیع تر ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی خودمختاری و خودانحصاری میں بھی کمال عروج حاصل کیا ہے۔ فروری 1979ء سے تاحال انقلاب اپنی خود مختاری، اسلام پسندی، آزاد خارجہ پالیسی، عدلیہ کی آزادی اور پارلیمنٹ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی اپنے ہمسائیہ ممالک سے اچھے تعلقات پر کسی دباؤ کو اثر انداز ہونے دیا۔ 

انقلاب اسلامی کے بعد تشکیل پانے والے عدالتی نظام کو اتنا جامع بنایا اور آزاد بنایا گیا کہ مقدمات کو زیادہ عرصہ زیر التوا نہیں کیا جاتا اور فوری فیصلے سنائے جاتے ہیں دہشت گردی کی سزا فوری پھانسی ہے۔ اداروں کی خودمختاری کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی دہشت گرد کسی سفارت خانے کی سفارش پر رہا نہیں کیا جاتا۔ عورتوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جس کی اسلام اجازت دیتا ہے اور خواتین میں اسلام پسندی کا یہ عالم ہے کہ ان کے اخراجات میک اپ اور جیولری کی بجائے احادیث و قرآن اور اسلامی کتب پر ہوتے ہیں۔ پورے ملک میں قیام امن اور ہر شخص کو تحفظ حاصل ہے۔ حقیقی جمہوری ملک ہے جہاں آج تک فوج نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا بلکہ فوج جمہوریت اور نظام کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ طب کے میدان میں ایران نے اتنی ترقی کی ہے کہ آج کوئی بھی ایرانی علاج کی خاطر بیرون ملک نہیں جاتا۔ آئی ٹی کو اتنا فروغ حاصل ہے کہ 90 فیصد عوام کمپیوٹر اور اس کے استعمال سے واقف ہے۔ زراعت کے میدان میں معیاری کھاد اور معیاری بیجوں کے استعمال کی وجہ سے زراعت نے انتہائی ترقی کی ہے۔ اخلاقی اور معیاری ڈرامے و فلمز نے دنیا میں اول انعام حاصل کئے ہیں۔ 

حکومت نے اپنی اصلاحات کر کے بجلی، گیس، پٹرول پر دی جانیوالی سبسڈی ختم کرکے یہ رقم غربت کے خاتمے پر صرف کی جس کے نتیجے میں آج ایک بھی بھکاری سڑکوں پر نہیں ملتا۔ ملکی سلامتی اور خودمختاری پر کوئی بھی سمجھوتہ کئے بغیر کسی بھی بلیک واٹر یا زی جیسی غیر ملکی ایجنسی کو ملک میں داخلے کی اجازت نہیں۔ انقلاب نے ملک کے عوام میں حوصلے و ہمت کی نئی روح پھونکی ہے۔ ایران نے اب تک دفاعی حوالے سے جدید ٹیکنالوجی کے کئی کامیاب تجربے کئے ہیں جو تمام کامیاب رہے میزائل پروگرام، جنگی کشتیاں، ڈرون ٹیکنالوجی، اینٹی میزائل سسٹم، انٹی ڈرون و دیگر شامل ہیں۔ ٹریفک کے بہترین نظام اور سڑکوں و شاہراؤں کی اچھی تعمیر کی وجہ سے حادثات بہت کم ہوتے ہیں اور چالان نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اشیائے خوردنی، سفر کے کرایہ جات، اندرون ملک و بیرون ملک آمدورفت کے اخراجات میں آئے روز اضافہ نہیں ہوتا۔ بجٹ کے سالانہ جائزہ کے بعد ہر شے کی قیمت میں سال بھر استحکام رہتا ہے۔ تعلیمی نصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی سطح تک کی تمام درسی کتب سستی ترین ہیں۔ معیاری ادویات اور جدید طریقہ علاج میں ایران نے اتنی ترقی کی ہے کہ آج کے ایران میں ایک بھی غیر ملکی ڈاکٹر موجود نہیں کیونکہ ایران نے طب کے میدان میں اتنی ترقی کی ہے کہ دوسرے ممالک میں ایرانی ڈاکٹرز کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ 

انقلاب کے بعد ایران میں یوم ولادت رسول ؐ پاک اور آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عیدین اور ماہ رمضان کو سرکاری سطح پر انتہائی پرشکوہ طریقہ سے منایا جاتا ہے۔ محسن اسلام حضرت محمد ؐ کے یوم ولادت کی تقریبات ایک ہفتہ 12ربیع الاول تا 17ربیع الاول ہفتہ وحدت کے طور پر شان و شوکت سے منائی جاتی ہیں۔ امریکہ و مغرب اور ایران کے درمیان جاری کشمکش کو خیر و شر کی جنگ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے انقلاب مخالفت میں جتنا آگے بڑھ رہے ہیں دنیا میں انقلاب کی اتنی پذیرائی ہو رہی ہے۔ جس کی مثال عرب سپرنگ ہے۔ اپنے مذموم مفادات کو پروان چڑھانے کے لیے امریکہ صرف اسلامی دنیا کو آگ و خون میں غلطاں نہیں کئے ہوئے بلکہ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس جبر و استبداد کا شکا رہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کو دی جانیوالی دھمکیوں کے تناظر میں دونوں کے عوامی اور فوجی مورال پر نظر ڈالیں تو ہوشربا انکشافات ہوتے ہیں۔ امریکی فوج میں خودکشی کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف 2012ء میں آن دی ریکارڈ تین سو سے زائد امریکی فوجیوں نے خودکشی کی۔ جن کو حادثاتی قرار دیکر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی، جبکہ دوران جنگ کئی امریکی فوجی اپنی ہی گولیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ جن کو منظر عام پر نہیں لایا جا رہا۔ 

اسی طرح عراق سے انخلاء کرنیوالے امریکی فوجیوں میں ذہنی بیماریوں کے متعلق امریکن ریسرج میڈیکل انسٹی ٹیوٹ نے ایک رپورٹ میں تصدیق کی فوجیوں میں پراسرار ذہنی و نفسیاتی بیماریوں نے جنم لے لیا ہے۔ جن میں زیادہ تعداد ان فوجیوں کی ہے کہ جو عراق میں ابوغریب جیل میں ڈیوٹی دیتے رہے۔ گذشتہ دنوں امریکی دفاعی اور سکیورٹی اداروں کی طرف ایک غیرانسانی قانون پر مبنی پیپر بھی سامنے آئے ہیں۔ جن کے مطابق سکیورٹی اداروں کو ایسے افراد کے قتل کا حق حاصل ہے جو امریکی ریاست یا مفادات کے لیے خطرہ بن رہے ہوں۔ ان کاغذات کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکی عدالت انصاف نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین نہیں ہو رہا کہ یہ کاغذات ایسی حکومت کے زیرکنٹرول اداروں کے تیارکردہ ہیں جو خود کو جمہوری اور انسانی حقوق کی محافظ قرار دیتی ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کے مورال کا اندازہ نیٹو سپلائی کی بندش کے دوران پمپرز کی بڑھتی ہوئی مانگ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان سے امریکہ جانیوالے تابوتوں کی حقیقی تعداد تاحال پوشیدہ رکھی جا رہی ہے۔ 

دوسری جانب اسلامی دنیا اور ایران کے عوام اور فوج کے مورال پر نظر ڈالیں تو آ ٹھ سالہ جنگ میں ایران عراق جنگ میں معذور ہونے والے سپاہی بھی تاحال ملک و ملت کی ترقی کے مختلف شعبوں میں ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ بیرونی طاقتوں نے عالمی سطح پر ایران کے خلاف منفی پروپیگنڈہ، اقتصادی پابندیاں، ایرانی پارلیمنٹ پر حملے کی سازشیں، ایران کی خبررساں ایجنسیوں پر پابندیاں، ایرانی طلباء پر سائنسی تعلیم کے دروازے بند کرنے کی سازشیں، ایران میں ہونے والے شفاف انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کے حربے آزمائے مگر ہمیشہ رسوا کن ہزیمت ان کا مقدر بنی۔ پرامن ایٹمی پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے حکومت و عوام ایک ہی موقف پر ڈٹے نظر آتے ہیں۔ اس ایٹمی پروگرام کے خلاف مغربی و صیہونی میڈیا نے الزامات و پروپیگنڈہ کا ایک طوفان کھڑا کیا ہوا ہے حالانکہ ایران کے تمام ایٹمی پلانٹ کا بین الاقوامی اسلحہ انسپکٹر کئی مرتبہ دورہ بھی کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ طاقتیں ایٹمی ایران برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ اسرائیل نے ایٹمی تنصیبات پر حملے کی دھمکی دی تو سرحدی علاقوں کے ہزاروں لوگ رضاکارانہ طور پر اسرائیل سے مقابلہ کے لیے سامنے آئے۔ ایران کی آبی حدود سے امریکی ڈرون ایران نے ڈی کوڈ کرکے اپنے قبضہ میں لے لیا تو امریکی صدر کی جانب سے طیارہ واپس کرنے کی فرمائش کی گئی جس کے جواب میں ایران کی ایک کھلونا ساز کمپنی نے کھلونا ڈرون امریکی صدر کو بطور تحفتاً بھیجا۔ یہ ایک زندہ قوم کی علامتیں ہیں جو اپنی خودمختاری اور قومی غیرت پر کسی قسم کی سودے بازی کرنے پر رضامند نہیں۔ جس کا مکمل کریڈٹ 10فروری کو وقوع پذیر ہونے والے اس انقلاب کو جاتا ہے جو ایرانی قوم نے ان گنت قربانیاں پیش کرکے برپا کیا ۔ 1979ء کی انقلابی دستک مغرب زدہ ایوانوں پر آج بھی جاری ہے اور یکے بعد دیگرے امریکہ کے ماتحت پادشاہ اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس انقلابی دستک کو محسوس کرکے دنیا اسلام کے حکمران اپنی پالیسیوں کو عوامی خواہشات کے سانچے میں ڈھالیں نہ کہ بیرونی ڈکٹیشن پر کار حکومت سرانجام دیں۔
خبر کا کوڈ : 238635
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ عمران صاحب، بہت اچھی کوشش ہے۔
Iran, Islamic Republic of
very good...jazaak allah: امریکی فوج میں خودکشی کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، صرف 2012ء میں آن دی ریکارڈ تین سو سے زائد امریکی فوجیوں نے خودکشی کی۔
ہماری پیشکش