0
Friday 19 Jul 2013 16:27

فتح مکہ

10 رمضان المبارک کو فتح مکہ کی مناسبت سے ایک تحقیقی مضمون
فتح مکہ
 تحریر: ثاقب اکبر
 
6 ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی۔ اس کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ ہر قبیلہ آزاد ہے کہ وہ طرفین شرائط میں سے کسی کا بھی حلیف بن جائے۔ اس کے نتیجے میں بنی بکر قریش کے حلیف بن گئے اور قبیلہ خزاعہ نبی کریمؐ کے ہم پیمان ہوگئے۔ ان دونوں قبیلوں کے مابین پرانی دشمنی تھی۔ اس دوران میں بنی بکر اور خزاعہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ صلح حدیبیہ کی شرائط کے مطابق قریش پابند تھے کہ خزاعہ کے خلاف بنی بکر کی مدد نہ کریں، لیکن انھوں نے نہ صرف اسلحے سے ان کی مدد کی بلکہ عکرمہ بن ابو جہل اور سہیل بن عمرو وغیرہ نے رات کو چھپ کر بنی بکر کی جنگ میں عملی مدد بھی کی۔ عمرو بن سالم خزاعی اس کی شکایت لے کر مدینے آپہنچا۔ اس نے صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں مسجد نبوی میں پیغمبر اکرمؐ سے قریش کی شکایت کی۔ 

اس موقع پر اس نے جو اشعار پڑھے ان کا مفہوم یہ ہے:
یااللہ گواہ رہنا کہ میں نے محمد ؐ کو خبر دے دی ہے اور ان سے مدد طلب کی ہے۔ میں نے انہیں اس عہد کا واسطہ دیا ہے، جسے اُن کے اور ہمارے بزرگ مقدس جانتے تھے۔ میں نے انہیں بتایا ہے کہ قریش نے آپؐ سے کئے گئے عہد کی خلاف ورزی کی ہے اور آپؐ سے کیا گیا مضبوط پیمان توڑ دیا ہے اور انہوں نے رکوع و سجود کی حالت میں ہمیں قتل کیا ہے۔
آنحضرت ؐ نے اُسے تسلی دی۔ اس کے بعد ایسی ہی شکایت لے کر خزاعہ کے ایک گروہ کے ساتھ بدیل بن ورقا بھی آپہنچا۔ قریش صلح حدیبیہ کا پیمان توڑ چکے تھے۔ دس سالہ صلح کا عہد انہوں نے بہت جلد پامال کر دیا تھا۔ آنحضرت ؐ نے مکہ کا قصد کر لیا تھا۔ اُدھر قریش کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ اِدھر صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کو خیبر کی فتح حاصل ہوئی اور دیگر پیش قدمیاں بھی ان کے سامنے تھیں۔ انہیں مسلمانوں کی روزافزوں طاقت کا اندازہ تھا۔ انہوں نے باہم مشاورت سے فیصلہ کیا کہ اپنے سپہ سالار ابوسفیان کو نبی اکرم ؐکی خدمت میں معاہدے کی تجدید کے لیے بھجوائیں۔ 

ابو سفیان آپؐ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی:
یامحمد! اپنی قوم اور اپنے قریبیوں کے خون کی حفاظت کریں اور قریش کو پناہ دیں اور معاہدے کی مدت بڑھا دیں۔
رسول اللہؐ نے فرمایا:
کیا تم نے مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش کی ہے، کوئی فریب دیا ہے اور عہد توڑ دیا ہے۔؟
ابو سفیان بولا: نہیں
آ پ ؐ نے فرمایا:
اگر تم نے عہد نہیں توڑا تو ہم بھی اپنے عہد پر قائم ہیں۔
ابوسفیان کو آنحضرت ؐ سے گفتگو کرکے اندازہ ہوگیا کہ آپؐ قریش کی عہد شکنی سے نہ فقط واقف ہیں بلکہ ان پر برہم بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے مشروط بات کی ہے۔ وہ وہاں سے اُٹھ کر حضرت ابوبکرؓ کے پاس آیا کہ وہ کوئی مدد کریں لیکن وہاں بھی مایوسی ہوئی۔ پھر حضرت عمرؓ کے پاس گیا وہ تو اور بھی غصیلے تھے، وہاں سے بھی نامراد ہوا۔ پھر حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ سے مدد چاہی، لیکن رسول اللہ ؐ کے عزم کو جاننے والی یہ شخصیات آپ ؐ کے مقابلے میں ابو سفیان اور قریش کو کیونکر پناہ دینے کا اعلان کرسکتی تھیں۔

ابوسفیان کی پریشانی اور اضطراب کی یہ حالت تھی کہ اس نے رسول کریمؐ کی دختر گرامی حضرت فاطمہؓ سے درخواست کی کہ اپنے فرزند حسنؓ سے کہہ دیں کہ وہ ہمیں پناہ دینے کا اعلان کریں۔ بہرحال اسے مدینے میں نامرادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا، بلکہ وہاں پر ایک ایسا واقعہ بھی رونما ہوا، جس نے ابوسفیان کو اندر سے اور بھی شکستہ کر دیا۔ ہوا یوں کہ وہ اپنی بیٹی ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کے پاس آیا۔ وہاں نبی کریم ؐ کا بستر بچھا تھا۔ وہ اس پر بیٹھنے لگا تو حضرت ام حبیبہؓ نے اسے سمیٹ دیا۔ ابوسفیان نے پوچھا کہ بیٹی! تو نے بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا یا مجھے اس بستر کے لائق نہیں جانا۔ ام المومنینؓ جن کے رگ و ریشہ میں توحید پرستی جلوہ افروز تھی فرمانے لگیں: یہ رسول اللہ کا بستر ہے اور تو مشرک ہونے کی وجہ سے نجس ہے، تو اس لائق نہیں کہ اس بستر پر بیٹھ سکے۔
 
اس کیفیت میں ابوسفیان مکہ کی طرف لوٹ گیا۔ آنحضرت ؐ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اہل مکہ سے جنگ کی تیاری کریں۔ اس موقع پر آپؐ نے دعا کی کہ: بارِالہٰا! قریش کی آنکھیں ہمیں دیکھ نہ پائیں اور ان کے کان ہمارے بارے میں سن نہ پائیں اور تو ہماری خبریں اُن تک پہنچنے سے بچا، تاکہ ہم اچانک ان کے سر پر جا پہنچیں۔ 
10 رمضان المبارک 10 ہجری کو آپؐ نے مکہ کی طرف کوچ فرمایا۔ حضرت ابوذر غفاری کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا۔ آپؐ دس ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ روانہ ہوئے۔ مہاجرین و انصار میں سے ایک شخص بھی مدینے میں باقی نہ رہا۔ راستے میں آنحضرتؐ کے چچا عباسؓ بن عبدالمطلب آپؐ کی خدمت میں پہنچے۔ انہیں آپ ؐ نے آخری مہاجر قرار دیا۔
 
آنحضرتؐ نے اس سفر کے حوالے سے متعدد اقدامات فرمائے تھے، تاکہ پہلے سے اس کی خبر قریش تک نہ پہنچے۔ سفر جاری رہا، یہاں تک کہ آپؐ نے مکہ سے کچھ فاصلے پر مرالظہران، وادی فاطمہ، پہنچ کر پڑاؤ ڈالا۔ رات ہوگئی تھی۔ پیغمبر اکرمؐ کے حکم پر سب نے اپنے اپنے چولہوں میں آگ روشن کی۔ پوری وادی روشنی سے جگمگا اٹھی۔ُ دورُ دور تک اس کی روشنی لشکر کی عظمت کا پیغام دے رہی تھی۔ ابو سفیان مدینے سے جس عالم میں آیا تھا، اسے راتوں کو کہاں چین آتا تھا۔ اُدھر وہ چند ساتھیوں کے ساتھ مدینہ کے رُخ پر نکلا کہ خبروں کا پتہ لگائے۔ اِدھر رسول کریمؐ کے چچا عباسؓ آپ ؐ کے سفید خچر پر سوار ہو کر نکلے۔ حضرت عباسؓ کا خیال تھا کہ بہتر ہے اہل مکہ آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر امان طلب کریں، ورنہ مسلمانوں کا لشکر جرار انہیں تباہ و برباد کر دے گا۔ اچانک انہوں نے کچھ آوازیں سنیں۔
 
ابوسفیان کہہ رہا تھا: خدا کی قسم! میں نے آج رات ایسی آگ کبھی نہیں دیکھی اور ایسا عظیم لشکر تو کبھی نظر نہیں پڑا۔
اس کے ساتھ بدیل بن ورقہ تھا کہنے لگا: واللہ یہ بنو خزاعہ ہیں جنہیں جنگ نے ادھیڑ رکھا ہے۔
ابو سفیان بولا: خزاعہ اس سے کمتر اور ذلیل ہیں کہ ان کے لشکر کا الاؤ اتنا عظیم ہو۔
عباسؓ نے آواز پہچان لی اور پکارے: ابا حنظلہ!
اس پکار کو پہچان کر ابو سفیان نے بھی حضرت عباسؓ کی کنیت پکاری :اے ابو الفضل !یہ تم ہو؟
عباسؓ بولے: ہاں
ابوسفیان نے کہا: میرے ماں باپ تجھ پہ قربان، کیا خبر لائے ہو؟ 
عباسؓ نے کہا: اس وقت رسول اللہ ایک ایسے لشکر کے ساتھ آن پہنچے ہیں کہ جس کے مقابلے کی تم میں طاقت نہیں، دس ہزار مسلمان آپؐ کے ہم رکاب ہیں۔
ابوسفیان نے پوچھا: پھر تم کیا کہتے ہو۔
حضرت عباسؓ نے کہا: میرے ساتھ سوار ہوجاؤ میں تمھیں آنحضرتؐ کے پاس لے چلتا ہوں اور آپؐ سے تمھارے لیے امان طلب کرتا ہوں، وگرنہ اللہ کی قسم تم اُن کے قابو میں آگئے تو تمھاری گردن مار دیں گے۔
 
ابوسفیان کو اپنے پیچھے سوار کرکے عباسؓ آنحضرت ؐ کے پاس لے چلے۔ جہاں سے گزرتے لوگ رسولؐ اللہ کے چچا اور آپؐ کے سفید شتر کو دیکھ کر جانے دیتے۔ حضرت عمرؓ ابن خطاب کی نظر پڑی تو پکارے: اے ابوسفیان! اس اللہ کی حمد ہے کہ جس نے تجھ پر ہمیں اس وقت قابو دیا ہے، جب ہمارے اور تیرے درمیان کوئی عہدوپیمان نہیں۔ حضرت عمرؓ بھی بھاگ کر نبی اکرمؐ کے پاس پہنچ گئے۔ کہنے لگے: یارسول اللہ! یہ ابو سفیان ہے، مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن مار دوں۔
عباسؓ نے کہا: یارسول اللہ! میں نے اسے پناہ دی ہے۔
وہاں کچھ گفتگو رہی۔ آخر میں نبی کریمؐ نے حضرت عباسؓ سے فرمایا: عباس! اسے اپنے ڈیرے میں لے جاؤ۔ صبح میرے پاس لے آنا۔ اگلے روز صبح عباسؓ نے ابو سفیان کو آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر کیا تو آپؐ نے ابوسفیان سے فرمایا: ابوسفیان! تم پر افسوس! کیا اب بھی تمھارے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ تم جان سکو کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں؟
 
ابوسفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ بڑے حلیم و کریم اور قرابت داری کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔ میں اچھی طرح جان چکا ہوں اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں، کوئی اور ہوتا تو کچھ تو میرے کام آتا۔
آپؐ نے فرمایا: ابو سفیان! تم پر افسوس! کیا تمھارے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم جان سکو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟
ابو سفیان بولا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کتنے حلیم و کریم اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ اس بات کے متعلق ابھی میرے دل میں کچھ شک ہے۔
عباسؓ کہتے ہیں: میں نے اس موقع پر ابو سفیان سے کہا: ارے! اس سے پہلے کہ تمھاری گردن اڑا دی جائے، اسلام قبول کر لو اور یہ اقرار کرلو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔
اس پر ابوسفیان نے اسلام قبول کیا۔
 
عباسؓ نے آنحضورؐ کی خدمت میں عرض کی: یارسول اللہ ابو سفیان بہت جاہ طلب ہے۔ اسے کوئی اعزاز عنایت کر دیں۔
آپؐ نے فرمایا: جو ابوسفیان کے گھر میں جائے اسے امان ہے، جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے اُسے امان ہے اور جو مسجدِ حرام میں داخل ہوجائے اسے امان ہے۔ اس طرح اپنی جان کے سب سے بڑے دشمن کو نہ فقط معاف کر دیا بلکہ اُسے ایک اعزاز بھی عطا فرمایا۔ یہ واقعہ آنحضرتؐ کی کریم النفسی اور وسعتِ قلبی کا ایک ایسا مظہر ہے جس کی مثال تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔
اس موقع پر رسول اللہؐ نے فرمایا: عباس! چلے جاؤ اور اسے وادی کوہ کے تنگنائے پر کھڑا کر دو، تاکہ یہ اللہ تعالٰی کی قدرت کا نظارہ کرے۔
ابو سفیان وہاں حضرت عباسؓ کے ساتھ کھڑا تھا۔ جو قبیلہ بھی گزرتا اس کے بارے میں حضرت عباسؓ سے پوچھتا کہ یہ کون ہیں۔ یہاں تک کہ رسول ؐاللہ مہاجرین و انصار پر مشتمل اپنے سبز دستے کے ساتھ نمودار ہوئے۔ وہ سب یوں غرق آہن تھے کہ اُن کی فقط آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اُن کی عظمت آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی تھی۔
 
ابو سفیان نے پوچھا یہ کون ہیں؟
حضرت عباسؓ نے کہا: یہ رسولؐ اللہ ہیں، انصار و مہاجرین کے جلو میں۔ ابو سفیان کہنے لگا: اے ابوالفضل! تمھارے بھتیجے کی بادشاہت بڑی زبردست ہوگئی ہے۔
حضرت عباسؓ نے ٹوکا: ابوسفیان! یہ نبوت ہے بادشاہت نہیں۔
ابوسفیان کہنے لگا: ہاں، اب تو یہی کہنا ہوگا۔
رسول اللہ گزر چکے تو حضرت عباس نے ابو سفیان کو مکہ میں بھیج دیا۔ وہ تیزی سے اپنی قوم کے پاس پہنچا اور پکارا! اے قریش کے لوگو! یہ محمد ہیں جو تمھاری طرف اتنا بڑا لشکر لے کر آئے ہیں کہ جس کے مقابلے کی تم میں طاقت نہیں۔
قریش نے پوچھا پھر کیا کیا جائے۔
ابوسفیان نے کہا: جو میرے گھر آجائے گا وہ مامون ہے۔
قریش نے کہا: آخر تمھارے گھر میں کتنے لوگ آسکتے ہیں؟
ابوسفیان نے کہا: جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے اسے بھی امان ہے اور جو مسجد حرام میں داخل ہوجائے اسے بھی امان ہے۔
مکہ میں داخل ہونے سے پہلے آپؐ نے زبیرؓ بن العوام کو مہاجرین کے سواروں کے دستے کی کمان سونپی، رسولؐ اللہ کا پھریرا انہی کے ہمراہ تھا۔ انھیں حکم دیا کہ مکہ کے بلند ترین مقام حجون پر اپنا علم گاڑیں اور فرمایا کہ میرے وہاں پہنچنے سے پہلے وہاں سے حرکت نہ کرنا۔ 

جب آپؐ مکہ میں پہنچے تو ججوں کے مقام پر ہی اپنا خیمہ نصب فرمایا۔ سعدؓ بن عبادہ کو انصار کی کمان سپرد کی، جو مقدمہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ بعدازاں یہ کمان سعدؓ کے فرزند قیسؓ بن سعدؓ کے حوالے کر دی گئی۔ خالدؓ بن ولید کو قضاعہ اور بنی سلیم کے گروہوں کے ساتھ مکہ کے نچلی طرف روانہ کیا اور حکم دیا کہ گھروں سے کچھ پہلے پہنچ کر اپنا پرچم نصب کریں۔
آنحضرتؐ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ کسی سے تعرض نہ رکھیں اور جب تک کوئی دوسرا جنگ کی ابتدا نہ کرے، کسی سے جنگ نہ کریں۔
تاہم چند افراد کے بارے میں حکم دیا کہ وہ خانہ کعبہ کے پردے سے بھی چمٹیں ہوں تو انھیں قتل کر دیا جائے۔ ان میں عبداللہ بن سعد بن ابی سرح، حویرث بن نفیل، ابن خطل اور مقبس بن ضبابہ شامل تھے۔ ان کے علاوہ بھی دو افراد کے قتل کا حکم صادر ہوا، جو آنحضرتؐ کی ہجو کہا کرتے تھے۔ اس فرمان کے مطابق حضرت علیؓ نے حویرث بن نفیل کو اور ہجو گو افراد میں سے ایک کو قتل کر دیا۔ دوسرا بھاگ گیا۔ مقبس بن ضبابہ کو بھی حضرت علیؓ نے بازار میں قتل کر دیا۔ ابن خطل کو سعیدؓ بن حریث اور عمارؓ ابن یاسرؓ نے آلیا، وہ خانہ کعبہ کا پردہ پکڑے کھڑا تھا۔ سعیدؓ نے سبقت کی اور اسے قتل کردیا۔ باقی افراد کو آنحضرتؐ کی خدمت میں سفارش کرکے بچا لیا گیا۔
 
تمام دستے بغیر کسی مڈبھیڑ کے مکہ میں داخل ہوگئے، البتہ خالدؓ بن ولید کے مقابلے میں چند اوباش نکلے۔ ان میں سے بارہ مارے گئے۔ جو مسلمان لشکر سے بچھڑ گئے تھے شہید ہوگئے۔
آٹھ برس بعد رسول اکرمؐ اسی شہر میں بڑی شان کے ساتھ داخل ہو رہے تھے، جس میں سے رات کے اندھیرے میں اس عالم میں نکلے کہ دشمن تلواریں ہاتھوں میں سونتے آپؐ کو قتل کرنے کے منتظر تھے۔ بستر پر اپنے ابن عم علیؓ کو سلایا اور خود باہر منتظر حضرت ابو بکرؓ کے ہمراہ غار ثور میں جاچھپے۔ یہ وہی شہر تھا جس نے آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو اذیتیں دیں اور اسی پر بس نہیں کی بلکہ آپؐ کے شہرِ ہجرت مدینہ پر بھی بار بار چڑھائی کی۔ آپؐ کے خون کا پیاسا شہر آج سرنگوں تھا۔ عظیم لشکر آپؐ کے ہمراہ تھا لیکن آپ نے اپنا سر اپنے اللہ کی بارگاہ میں جھکا لیا۔ اونٹنی کے اوپر سر جھکایا ہوا تھا۔ آپؐ نے پیشانی اونٹنی کے اوپر لکڑی پر رکھ دی اور سجدہ شکر بجا لائے۔
 
مقام حُجون پر پہنچے۔ یہیں پر آپؐ کے جانثار محافظ چچا ابو طالب اور دل و جان فدا کرنے والی شریک حیات حضرت خدیجہؓ کی قبور تھیں۔ یہاں پر آپؐ نے غسل فرمایا۔ لباس رزم زیب تن کیا۔ اسلحہ لگایا اور مرکب پر سوار ہوئے۔ سورہ فتح کی تلاوت فرماتے ہوئے آنحضرتؐ مسجد الحرام میں داخل ہوئے اور تکبیر بلند کی۔ جواب میں سپاہ اسلام نے تکبیر بلند کی۔ تکبیر کی صدا سے کوہ و دمن گونج اٹھے۔
اکابر قریش آج ڈرے اور سہمے ہوئے تھے۔ انھیں ایک ایک کرکے اپنے وہ مظالم یاد آرہے تھے جو انھوں نے نبی کریمؐ پر روا رکھے تھے۔ شاید انھیں یقین نہ تھا کہ آج اُن کی جان بچ پائے گی۔ آنحضرتؐ اپنی سواری سے اترے۔ خانہ کعبہ کے پاس پہنچے، جس میں تین سو ساٹھ بت موجود تھے۔ آپؐ ایک ایک بت کو ضرب لگا کر گرا رہے تھے اور فرما رہے تھے۔
جاءالحق وزھق الباطل
ان الباطل کان زھوقا

حق آپہنچا اور باطل نابود ہوگیا۔ یقیناً باطل ہے ہی نابود ہوجانے والا۔
 
چند بڑے بت کعبہ کے اوپر نصب تھے، جہاں آنحضرتؐ کا ہاتھ نہ پہنچتا تھا۔ آپؐ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ آپؐ کے دوش مبارک پر چڑھ کر ان بتوں کو گرا دیں۔ انھوں نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر آپ نے خانہ کعبہ کی کلید لی۔ اس کا دروازہ کھولا اور اس کی درو دیوار پر انبیاء کی جو تصویریں بنی ہوئی تھیں انھیں مٹا ڈالا۔
بتوں کے پجاری یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اپنے انجام کے منتظر تھے۔ آپؐ نے کعبہ کے اندر نماز ادا کی۔ قریش سامنے صف در صف بیٹھے تھے۔ تکبیر و توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے آپ ؐباہر نکلے۔ دروازے کے دونوں پٹ آپؐ نے پکڑ لیے۔ قریش نیچے بیٹھے تھے۔ اُن کی طرف رخ کرکے آنحضورؐ یوں گھویا ہوئے۔
لا الہ الااللہ، وحدہ وحدہ
انجز وعدہ، ونصرعبدہ
وھزم الاحزاب وحدہ

کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے، وہ اکیلا ہے، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اُس نے اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا تمام جماعتوں کو شکست دی۔
 
پھر فرمایا:
سنو! بیت اللہ کی کلید برداری اور حاجیوں کو پانی پلانے کے سوا ہر اعزاز یا کمال یا خون میرے ان دونوں قدموں کے نیچے ہے۔ یاد رکھو قتل خطا شبہ عمد میں، جو کوڑے اور ڈنڈے سے ہو، مغلظ دیت ہے، یعنی سو اونٹ جن میں چالیس اونٹیوں کے شکم میں ان کے بچے ہوں۔
اے قریش کے لوگو! اللہ نے تم سے جاہلیت کے غرور اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کر دیا۔ سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے۔
اس کے بعد آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
یٰٓا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍوَّ اُنْثیٰ وَجَعَلْنٰکُمْ شَعُوْ باً وَّ قَبَاءِلَ لِتَعَارَ فُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌo
اے لوگو! یقیناً ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھارے شعوب و قبائل بنائے، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔ یقیناً اللہ بڑے علم والا بڑا با خبر ہے۔
اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: قریش کے لوگو! تمھارا کیا گمان ہے کہ میں تمھارے بارے میں کیا فیصلہ کروں گا۔
انھوں نے عرض کی: ہم آپ سے خیر اور نیکی کے علاوہ کسی چیز کی امید نہیں رکھتے۔ آپ ایک کریم بھائی ہیں اور ایک کریم بھائی کے بیٹے ہیں اور آج قدرت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور آواز رندھ گئی۔ اہل مکہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: میں تمھارے بارے میں وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف ؑ نے کہا تھا:
لا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ
آج تم پر کوئی سرزنش نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔
اس مقالے کے لیے تاریخ طبری، تاریخ یعقوبی، الرحیق المختوم (مولانا صفی الرحمن مبارکپوری) تفسیر المیزان (علامہ طبا طبائی ) وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 284726
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش