2
Thursday 9 Oct 2014 17:56

شام کیخلاف سازشوں کی تاریخ (3)

شام کیخلاف سازشوں کی تاریخ (3)
تحریر: عرفان علی 

1966ء میں جب شام میں صہیونی غاصب و ناجائز ریاست اسرائیل سے جنگ کے ذریعے عرب علاقے آزاد کرانے کا قائل گروہ غالب آگیا تو میشل عفلق لبنان چلا گیا۔ عفلق اس گروہ کا سربراہ تھا جو پین عرب ازم یعنی عرب ممالک میں جہاں بھی اس کی شاخیں تھیں سب کی قیادت نیشنل کمانڈ اس کے ہاتھ میں تھی۔ 1968ء میں جب عراق کی بعث پارٹی نے کامیاب فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا تو وہ عراق جاکر اس کی قیادت کرنے لگا۔ ستمبر 1970ء میں بیروت چلا گیا۔ بہانہ بنایا کہ عراق نے اردن میں فلسطینی کمانڈوز کی مدد نہیں کی۔ 1974ء تک وہ دوبارہ عراق آنے تک چار سال لاتعلق رہا، اس دوران شام اور عرب دوبارہ جنگ ہار چکے تھے۔ عراق ہی میں 1989ء میں اس کی موت واقع ہوئی۔ ایران عراق جنگ میں بھی وہ صدام کی بعثی حکومت کا نظریاتی سربراہ تھا لیکن بظاہر حکومت میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا۔ نظریاتی اعتبار سے وہ بائیں بازو کی سیاست کا قائل تھا لیکن عربوں کے اتحاد کے لئے وہ پہلے مرحلے میں انقلابی، سوشلسٹ عرب قوم پرستی کی حمایت کرتا تھا۔ مسلمانوں کی خانہ جنگی یا ایک دوسرے سے جنگ والے معاملات میں وہ فعال اور متحرک نظر آیا، لیکن صہیونی دشمنی و دیگر سامراجی ممالک کے خلاف عملی طور پر وہ کہیں بھی قیادت کرتا دکھائی نہیں دیا۔
 
صلاح الدین البیطار 1954ء میں رکنِ اسمبلی 1956-57ء میں شام کے وزیرِ خارجہ تھے۔ متحدہ عرب جمہوریہ یعنی شام و مصر کے الحاق کے زبردست حامی تھے۔ اس جمہوریہ میں وہ وزیر برائے قومی رہنمائی بنے۔ لیکن جب عبدالناصر نے 1959ء میں عرب بعث سوشلسٹ پارٹی کو تحلیل کر دیا تو بیطار نے استعفٰی دے دیا۔ بعثی گروہ نے مارچ 1963ء میں بغاوت کرکے اقتدار سنبھالا تو وہ وزیرِاعظم بنائے گئے۔ لیکن بعث پارٹی کی نیشنل کمانڈ میں ان کی جو رکنیت تھی، اس کا الیکشن وہ ہارگئے تھے۔ جب بعثی ملٹری ونگ نے اقتدار پر گرفت مضبوط کی تب وہ سویلین ونگ کے ساتھ تھے۔ فروری 1966ء تک صدر امین حفیظ ان کی وزارتِ عظمٰی میں مداخلت کرتے رہے تھے اور بالآخر ان کا گروہ مکمل طور پر اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ وہ لبنان فرار کرگئے، دمشق میں ان کی غیر موجودگی میں ان کے لئے سزائے موت کا اعلان کر دیا گیا۔
 
نومبر1970ء میں حافظ الاسد اقتدار میں آئے تو انہوں نے البیطار سمیت کئی دیگر اہم و معروف شخصیات کے لئے معافی کا اعلان کر دیا۔ بیروت میں جلاوطنی کے دوران البیطار نے عفلق کی بعثی نیشنل کمانڈ جس کے عراق کے ساتھ روابط تھے، سے دوری اختیار کی۔ بیروت سے وہ پیرس گئے جہاں سے جنوری 1978ء میں حافظ الاسد کی دعوت پر دمشق بلائے گئے۔ مذاکرات میں دونوں رہنماؤں میں اتفاق نہ ہوا۔ پیرس واپسی کے بعد الاحیاء العربی نامی جریدہ شائع کرنے لگے جو حکومت مخالف گروہوں کی توجہ کا مرکز رہا۔ اگرچہ وہ اہم عہدوں پر فائز رہے لیکن شام و عرب کے دشمن اسرائیل کے خلاف جنگ کے وقت وہ بہرحال کہیں بھی فعال و متحرک نہیں تھے اور ان کی عرب قومیت پرستی بھی دوستوں کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوئی۔ شام کے ان حکمرانوں کے فرقوں کے بارے میں امریکی اتحادی نہیں بولتے اور ان کے دور حکومت میں کیا کیا ہوا، یہ بھی عوام کو جاننے کا حق نہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ شام کی تاریخ حافظ الاسد سے شروع نہیں ہوتی۔
 
امین حفیظ حلب کے سنی پولیس اہلکار کے بیٹے تھے۔ امین حفیظ دوسری جنگِ عظیم میں فرانسیسی شامی اسپیشل فورسز میں نان کمشنڈ افسر بنے تھے۔ 1947ء میں وہ حمص کی ملٹری اکیڈمی میں تعلیم و تربیت مکمل کرکے گریجویٹ ہوئے۔ 1954ء میں ادیب شش کلی نے فوجی بغاوت کی تھی وہ اس میں شریک تھے۔ اپریل 1964ء میں دمشق کی مسجد سلطان پر شیلنگ کے وقت امین حفیظ صدر اور وزیرِاعظم تھے، انہی کے حکم پر یہ کارروائی کی گئی تھی۔ بعث پارٹی کی ملٹری کمیٹی کی داخلی سیاست میں وقتاً فوقتاً بھونچال آتا رہتا تھا۔ اس کی زد میں امین حفیظ بھی آگئے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد انہوں نے مشعل عفلق اور صلاح الدین البیطار (جب وہ متحد و متفق تھے) کے گروہ میں شمولیت اختیار کرکے بعثی ملٹری کمیٹی کے صلاح جدید کو اگست 1965ء میں چیف آف اسٹاف کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔
 
فروری 1966ء میں اس کا گروہ ہار گیا تھا۔ امین حفیظ بھی عفلق کے ہمراہ بعث عراقی حکومت کے دامن میں پناہ گزین ہوئے۔ ان کے لئے اور عفلق کے لئے بھی سزائے موت کا اعلان کیا گیا تھا لیکن حافظ الاسد نے آکر اس سزا کو تبدیل کر دیا تھا۔ امین حفیظ عفلقی ٹولے کے ساتھ ہی رہا۔
یہاں ایک اور نکتہ بھی توجہ کا طالب ہے کہ شام سمیت عرب دنیا میں ایک طرف پین عرب ازم یعنی عرب اتحاد کے لئے بعث پارٹی سمیت دیگر تجربات کئے گئے۔ عربوں میں جغرافیائی حدود کے اندر نیشن اسٹیٹ والی سوچ بھی رہی، جیسا کہ شام و لبنان کے اندر ایسے افراد فعال تھے۔ پین عرب ازم پر یقین رکھنے والے دیگر معروف چہرے فلسطین، لبنان اور مصر سے تعلق رکھتے تھے۔ یاسر عرفات البتہ عرب کے ساتھ ساتھ فلسطین کے لئے خالص فلسطینی تھے۔ اسی طرح دوسری طرف پین اسلام ازم کی اصطلاح بھی امریکی و یورپی ذرائع ابلاغ استعمال کرتے رہے ہیں۔ ہم اسے اتحاد عالمِ اسلام یا عالمی اسلامی اتحاد کہتے ہیں۔ اصلاحی تحریکیں بھی 20ویں صدی میں عرب خطے میں جاری رہیں۔ لیکن بعد ازاں پین اسلام ازم کے حوالے سے مشہور ہونے والی بعض شخصیات بھی مشترکہ دشمنوں کے بجائے اپنا اور اپنوں کا نقصان کرتی نظر آئیں۔ اسلاف کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے ایسے افراد کے عملی پیروکار رہے جو اتحاد کے بجائے اختلافات اور مذہبی تنگ نظری کے شدت سے قائل تھے۔ وہ تحریک جو جمال الدین افغانی اور حسن البناء جیسے مصلحوں کی تحریک تھی، وہ بتدریج رشید رضا جیسے افراد کے ہاتھوں ہائی جیک ہوگئی۔ کئی اور منحرف گروہ اس میں شامل رہے ہیں۔ 

شام کے خلاف دشمنوں کی پروپیگنڈا جنگ میں’’نوزائیدہ‘‘ دردمند مسلمان جو پہلی مرتبہ فریب کھا رہے ہیں، ان کے بزرگان یا سینیئرز بھی ماضی میں اسی طرح کے ’’درد مند‘‘ دکھائی دیا کرتے تھے۔ کھل کر بات کی جائے تو صدام کی مثال سامنے ہے۔ عیسائی عرب بعثی عفلقی گروہ سے تعلق رکھنے والے عراق کے نائب صدر طارق عزیز نے 1990ء میں بتایا تھا کہ 1980-88ء عراق جنگ میں ایران کے خلاف صدام کے عراق نے 102 بلین ڈالر کا اسلحہ و ہتھیار دیگر ممالک سے خریدے تھے۔ 1980ء تا 1988ء لبنان اور مقبوضہ فلسطین اسرائیل کی جنگوں اور مزید قبضوں کی زد پر تھے لیکن مشعل عفلق، امین حفیظ سمیت کئی شامی شخصیات عراق میں صدام کے ساتھ ایران کے خلاف جنگ میں مصروف تھے۔ جنگ بعثی صدام حکومت نے شروع کی تھی نہ کہ ایران نے۔ 

پین اسلام ازم کی اصطلاح کے تحت مشرقِ وسطٰی کی سب سے زیادہ مشہور ہونے والی تنظیم اخوان المسلمون کے گروہ اور شخصیات بھی عرب ممالک تک ہی محدود تھے۔ وہ بھی عربوں اور عالمِ اسلام کے مشترکہ دشمنوں اور مشرقِ وسطٰی کی واحد عرب دشمن غاصب و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف کسی واضح اور ٹھوس حکمتِ عملی سے محروم تھے اور طول تاریخ میں ان کی سرگرمیوں کی ٹائمنگ سے صہونی دشمن کے خلاف لڑنے والے مصر اور شام کو نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ حتیٰ کہ ماضی میں اردن میں رہ کر شام حکومت کے خلاف کارروائی کے لئے بھی تیاریاں کیں۔ اردن اور سعودی عرب میں موروثی بادشاہت کے ساتھ وہ زیادہ تر سیدھے رہے اور آج تک یہ سیدھا پن برقرار ہے، جیسے کہ یہی صراط مستقیم ہو۔ شام میں بھی وہ ایک ’’پراکسی وار‘‘ یعنی دوسروں کی جنگ کے آلہ کار دکھائی دیئے۔ 

شام کی اسلامی تاریخ میں ویسے بھی سجدہ شبیری اور ضرب یداللہی کے دشمن اور ابوالاعلی مودودی اور ابوالکلام آزاد کے الفاظ میں ملوکیت کی حکمرانی رہی ہے۔ کیا اقبال کے شاہینوں کو معلوم ہے کہ اسلام کے دامن میں صرف یہ دو چیزیں ہیں اور ان دو چیزوں کی دشمن بنو امیہ کی حکومت تھی۔ اس زاویے سے دیکھیں تب بھی بشار الاسد یا ان کے والد کم از کم اموی ملوکیت سے لاکھ درجہ بہتر ہی نظر آئیں گے۔ جدید شام کی تاریخ میں بھی اور جس پڑوس میں شام واقع ہے، اس سے موازنہ کیا جائے تو بشار الاسدکے شام کا کردار نسبتاٌ بہتر رہا ہے۔
 
شام کے بارے میں فکر مند رہنے والے میشل عفلق، امین حفیظ، ادیب شش کلی، سامی حلمی حناوی، شکری قوتلی، انطون سعادۃ اور ان جیسے دیگر افراد کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟ جہاں تک نسلی برتری پر مبنی نیشنل ازم کا تعلق ہے تو عجمی مسلمان ملکوں میں ترکی میں یورپی سامراج نے 19ویں میں یہ شجر خبیثہ لگایا تھا۔ نیپولیئن بونا پارٹ کی قیادت میں فرانس سامراج نے اسلام کو یورپ زدہ یا دیگر الفاظ میں ’’غرب زدہ‘‘ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سامراجی ممالک کو جب بھی کہیں قبضہ کرنا ہوتا ہے تو اس قسم کے نظریات اور شخصیات آناٌ فاناٌ عوام الناس میں مثبت یا منفی حوالے سے مشہور ہوجاتے ہیں۔ ان کے ’’متاثرین‘‘ کی زد میں کئی دیگر اقوام بھی آجاتی ہیں۔ تین یہودیوں نے ترکی میں جدید نسلی نیشنل ازم کے شجرہ خبیثہ کی آبیاری کی تھی۔ مشرقِ وسطٰی کے امور کے ایک ماہر یہودی اور امریکہ میں مشہور ترین اسکالر برنارڈ لے وس کے مطابق آرتھر لملے ڈیوڈ برطانوی دانشور نے ترک قوم پرستی یا نسلی برتری ثابت کرنے کے لئے تمہیدی بحث پر مبنی ’’ Preliminary Discourse‘‘ نامی کتاب لکھی۔ 

ڈیوڈ لیؤن کوہن نامی فرانسیسی یہودی دانشور نے فرانسیسی زبان میں ایک کتاب لکھی۔ ہنگری کے ایک یہودی مذہبی رہنما کے بیٹے آر مینیئس ویمبیری نے ان دونوں سے بھی زیادہ ترک و عرب قوم پرستی کی عظمت کو بڑھانے چڑھانے کے لئے کئی کتابیں لکھیں۔ اول الذکر پہلی شخصیت 19ویں صدی کے دوسرے اور تیسرے عشرے میں ترکی میں فعال تھی۔ کوہن نے 1899ء میں جو کتاب لکھی اس کے بارے میں برنارڈلے وس جیسے یہودی دانشور یقین رکھتے ہیں کہ 1908ء کے ینگ ترک کے انقلاب اور پین ترک ازم پرکوہن کی تصنیف زیادہ اثر انداز ہوئی تھی۔ ویمبیری بیسویں صدی کے آغاز تک مصروف عمل رہا تھا۔ برطانوی اور فرانسیسی سامراجی حکومتیں ہی نہیں ان کے یہ مصنفین اور دانشور بھی اس میں شامل رہے ہیں۔ اس کے پیچھے مذہبی شخصیات بھی کردار ادا کرتی رہیں ہیں۔
 
عرب قوم پرستی کے لئے عیسائی مشنری کو بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ (برطانیہ اور دیگر نے مصر کے بعد شام، لبنان اور اردن کو استعمال کیا)۔ ماضی میں ڈاکٹر علی محمد نقوی صاحب کا اس موضوع پر تحقیقی کام ’’اسلام اور نیشنل ازم‘‘ کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے، تفصیل کے لئے مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اس میں اتحادِ عالمِ اسلام کے تین دردمند اور مخلص شخصیات کے اقوال درج ہیں۔ امام خمینیؒ، جمال الدین افغانی ؒ اور علامہ اقبالؒ کے بیانات میں یکسانیت پائی جاتی ہے یعنی یہ کہ مسلمانوں کے لئے اسلام مرکزیت رکھتا ہے، ہماری منزل اسلام ہے اور ہمارے دل ملکوں کے لئے نہیں بلکہ اسلام کے لئے دھڑکتے ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 413178
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش