0
Wednesday 17 Dec 2014 20:30

سانحہ پشاور، فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں۔۔۔

سانحہ پشاور، فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں۔۔۔
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

بے دینوں کو دین اسلام سے سخت خطرہ ہے۔ بے دین جانتے ہیں کہ اگر دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچ گیا اور دنیا نے اسلام کی حقیقی شکل دیکھ لی تو پھر، جنسی جہاد، اسلام کے نام پر غنڈہ گردی، رشوت، لوٹ مار، فحاشی و عریانی، بے ایمانی اور فراڈ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ شیاطینِ دہر اپنی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے لئے دنیا میں ہر روز بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں لیکن ہر روز ایک نیا سورج یہ پیغام لے کر طلوع کرتا ہے کہ ظلم کی رات چاہے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو سویرا ضرور ہوتا ہے۔ ظلم کے خلاف ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی چہلم امام حسینؑ آفتابِ عالم تاب بن کر ابھرا، اس مرتبہ اس آفتاب کی روشنی اور حرارت پہلے سے کئی گنا زیادہ تھی۔

حقائق کی روشنی میں 13 دسمبر 2014ء کو امام حسین ؑ کے چہلم کی مناسبت سے کربلا میں مسلمانوں کا تاریخی اجتماع ہوا۔ اتنا بڑا اجتماع کہ دنیا ششدر رہ گئی۔ دو کروڑ کے لگ بھگ مسلمانوں نے بیک زبان ہوکر لبیک یاحسین ؑ کی صداوں سے عزمِ شہادت کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کی وحدت، بیداری اور عزمِ شہادت نے شیاطین عالم کے دل دہلا دیئے۔ اس روز اسرائیل سے لے کر امریکہ اور یورپ سمیت سارے چھوٹے بڑے شیطانوں کو لبیک یاحسینؑ کہتا ہوا ہر مسلمان ”حسن نصراللہ“ نظر آرہا تھا۔ دنیا میں داعش کے نام کی مالا جھپنے والوں کے اوسان خطا ہوگئے۔

خورشید کربلا کی روشنی کو چھپانے کے لئے بے دینوں نے بیک وقت تین مقامات پر عوام النّاس کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اپنے خوف، وحشت اور شکست پر پردہ ڈالنے کے لئے شیاطین نے میڈیا کو اپنی طرف مبذول کرنا ضروری سمجھا، چنانچہ ۱۴ دسمبر کو یعنی چہلم امام حسینؑ کے ایک روز بعد ہی بیلجیم میں کچھ مسلح افراد نے ایک گھر میں گھس کر کچھ لوگوں کو اغوا کرنے کا ڈرامہ رچایا۔ جب اس ڈرامے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا تو 15 دسمبر کو ہی سڈنی میں محمد حسن منطقی نامی شخص کو منظر عام پر لایا گیا، جس نے 24 گھنٹے سے زائد عرصے تک کے لئے تقریباً 50 افراد کو یرغمال بنا کر میڈیا اور لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کئے رکھا۔ سڈنی والا ڈرامہ اگرچہ اچھا چلا لیکن چہلم امام حسینؑ جیسی توجہ حاصل نہیں کرسکا۔ چنانچہ اب شیاطین کو ایک بڑی گیم کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس کے لئے پاکستان کو منتخب کیا گیا۔ چنانچہ پھر اگلے روز یعنی 16 دسمبر 2014ء کو ہی پشاور میں ایک اسکول پر حملہ کرکے 132 بچوں سمیت 141 افراد کو شہید کیا گیا اور اس حملے میں 140 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس کارروائی کی ذمہ داری ہمارے مجاہد بھائیوں نے جنہیں طالبان کہا جاتا ہے، بڑی خوشی اور فخر کے ساتھ قبول کر لی ہے۔ اس موقع پر طالبان نواز ٹولے بھی بظاہر مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں لیکن اندرون خانہ اتنی بڑی کارروائی پر جشن بنایا جا رہا ہے۔ یہ موقع ملت پاکستان اور پورے عالم بشریت کے لئے جتنا افسوس ناک ہے، شیطانی گماشتوں کے لئے اتنا ہی مسرت انگیز۔ ملت پاکستان کو ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی نہایت صبر اور حوصلے کی ضرورت ہے۔

اس دور میں بے دین ٹولے اسلام کی جتنی بھیانک تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں، ہمیں بصیرت اور وحدت کے ساتھ اسلام کی اتنی ہی حقیقی شکل سامنے لانا ہوگی۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ بے دین جانتے ہیں کہ اگر دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچ گیا اور دنیا نے اسلام کی حقیقی شکل دیکھ لی تو پھر، جنسی جہاد، اسلام کے نام پر غنڈہ گردی، رشوت، لوٹ مار، فحاشی و عریانی، بے ایمانی اور فراڈ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ ہمیں وقت کے یزیدوں اور اپنے پست ترین دشمنوں کے مقابلے میں یوسفِ کربلا کی سیرت پر چلتے ہوئے عظمت کردار کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ ہمیں ان افسردہ لمحات میں اس تاریخی حقیقت کا پھر سے احیا کرنا ہوگا کہ
یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں
فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں
جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیم
اہلِ حق ہوں تو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں
خبر کا کوڈ : 426423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش