0
Friday 19 Dec 2014 21:08

بھارت میں اقلیت عدم تحفظ کا شکار

بھارت میں اقلیت عدم تحفظ کا شکار
تحریر: جاوید عباس رضوی

بھارت جہاں موجودہ حکومت کے اعلٰی عہدیداران سے لیکر ایک معمولی رکن تک ’’آر ایس ایس‘‘ کی زد میں ہے یا اس شدت پسند ہندو جماعت کی ترجمانی کرتا دکھائی دیتا ہے، کشمیر سے کنیا کماری تک بھارت میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں آر ایس ایس کے خوف اور انکے مکروہ سازشوں سے لوگ عاجز و پریشان نہیں ہیں، جب سے مرکز میں ’’این ڈی اے‘‘ کی حکومت آئی ہے تب سے شدت پسند تنظیموں کے حوصلے بلند ہیں وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی تنازعہ کھڑا کئے رہتی ہے، کبھی جہاد کا مسئلہ اٹھا کر مسلمانوں کے کردار کو مشکوک کیا جاتا ہے تو کبھی مدارس کے قیام پر سوال کھڑا کرکے شدت پسند تنظیمیں اپنی پست ذہنیت کا ثبوت دیتی ہیں۔ فی الحال آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں گھر واپسی کے نام پر سیدھے سادھے غریب مسلمانوں کو ورغلا کر دھوکہ سے ہندو بنانا چاہتی ہیں، آگرہ میں جس طرح سے غریب مسلمانوں کو پوجا میں بٹھا کر میڈیا کے سامنے مذہب کی تبدیلی کے طور پر دکھایا گیا اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھارت کی شدت پسند تنظیمیں بے لگام ہوگئی ہیں، آر ایس ایس کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ ہندوستانی مسلمان فی الواقع ہندو ہیں انہیں جبراً مسلمان بنایا گیا تھا اب ان کے مذہب کو تبدیل کرکے ہم انہیں گھر واپس لا رہے ہیں۔ اگرچہ درحقیقت ہندوستان میں مسلمان عرب ممالک سے آئے یا ایران و دیگر اسلامی ممالک سے آئے ہوئے مبلغین کی کاوشیوں کے نتیجے میں یہاں لوگ مسلمان ہوئے، اور ہندوستان کے جن ہندؤوں نے مذہب اسلام کو قبول کیا انہوں نے مسلم مبلغین کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر مذہب اسلام کو قبول کیا۔

ہندوستان جیسے ملک میں جس کو بجا طور پر اقلیتوں کا ملک کہا جا سکتا ہے اور جہاں اقلیتوں کے مسائل بنیادی اہمیت کے حامل ہیں جب بھارتی دستور مرتب ہوا تو اس کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اقلیتوں کیلئے مناسب تحفظ کا انتظام کردیا گیا، تاہم آزادی کے 67 برس کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ صرف دستوری تحفظات کافی نہیں ہوتے بلکہ ان پر کس حد تک عمل ہو رہا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے جس کے لئے پہلے بھارت کے مرکز میں اور بعد میں مختلف ریاستوں کے اقلیتی کمیشن تشکیل دیئے گئے مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ مرکز اور ریاستی سطح پر کام کرنے والے اقلیتی کمیشنوں نے اپنا واقعی کردار ادا نہیں کیا اور سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے انتخابی منشوروں میں جو وعدے کئے تھے خلوص دل کے ساتھ ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی، اس کے برعکس اکثریت کی فرقہ پرست جماعتوں کے رہنما بار بار یہ دہائی دیتے رہے کہ ’’ہندوستان میں اقلیتوں کو پوری دنیا سے زیادہ حقوق و مراعات دی گئیں ہیں جن کی وجہ سے اکثریتی طبقہ کے حقوق غصب ہورہے ہیں‘‘ حالانکہ اس طرح کا شکوہ کرنے والے تنگ نظروں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا کہ دستورِ اساسی کی پالیسی ایک چیز ہے جس میں ممکن ہے کہ ہندوستان کئی ملکوں سے آگے ہو لیکن دوسری چیز دستور کے متن اور روح کا نفاذ، اس میں بھارت کی کارکردگی اتنی بھی لائق اطمینان نہیں جتنی کہ بدعنوانی یا چھوت چھات کے معاملہ میں نظر آتی ہے کہ دستور میں مذکورہ برائیوں کی ممانعت کے باوجود کوئی بھی سمجھدار اس حقیقت سے منکر نہیں ہو سکتا کہ ہندوستان میں آج ہر سطح پر بدعنوانی کا دور دورہ ہے اور ایک بڑا طبقہ ایسا موجود ہے جس کے ساتھ چھوت چھات برت کر، ذات، برادری اور نسل کی بنیاد پر سخت امتیاز برتا جارہا ہے، کیونکہ دستور کوئی جاندار چیز نہیں کہ اس کے ہاتھ پیر یا صورت شکل بھی ہو اور وہ اپنا دل و دماغ بھی رکھتا ہو وہ جو کچھ کہتا ہو یا اس سے جو مطالبہ کیا جائے اس پر عمل کرنے کی قدرت کا بھی وہ مالک ہو، دوسرے تمام قوانین کی طرح وہ ان افراد یا اداروں کا محتاج ہے جن پر اس کے نفاذ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر یہ افراد یا ادارے صحیح شعور اور دیانتداری کے ساتھ اس پر عمل نہیں کرتے تو دستور کی اچھی سے اچھی دفعات عوام کے لئے سودمند ثابت نہیں ہو سکتیں، اسی لئے جن جمہوری ممالک میں شہریت کے حقوق و فرائض کا جاگتا ہوا احساس نہیں پایا جاتا اور نہ سیاسی شعور اتنا ترقی یافتہ ہوتا ہے کہ وہ ارباب اقتدار یا نوکر شاہی کی نگرانی کرسکے وہاں عموماً دستور اساسی کی پالیسی اور حقیقی صورت حال میں نمایاں فرق و امتیاز نظر آتا ہے۔

ہندوستان میں کیونکہ قوانین سے آگاہی نہ تو ان لوگوں کو ہے جو ان سے متاثر ہیں اور نہ ان کو جن پر قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لئے اقلیتوں کو دستوری تحفظات کا خاطرخواہ فائدہ نہیں پہونچتا لیکن یہاں کے تنگ نظر سیاستداں صرف زبان و بیان سے ہی شور نہیں مچاتے بلکہ اس کو اکثریت کی حق تلفی بھی قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ ہندوستان میں اقلیتوں کا مسئلہ محض قانونی اور عدالتی انتظام کے ذریعہ حل نہیں کیا جا سکتا تھا بین الاقوامی سطح پر اس کا تجربہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر یورپ میں کیا گیا جب لیگ آف نیشنز کے تحت دی جانے والی گارنٹی کے ذریعہ مشرقی اور وسط یورپ کے ممالک میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کا جتن کیا گیا لیکن جلد یہ ثابت ہوگیا کہ اقلیتوں کا مسئلہ کیونکہ سب سے پہلے ایک انسانی مسئلہ ہے اسلئے صرف قانون کے ذریعہ اس سے نمٹا نہیں جاسکتا، دوسرے یہ تمام دستوری دفعات نیز ضمانتوں کی طرح نافذ کرنے والوں کی نیک نیتی اور اہلیت پر منحصر ہوتا ہے۔

ہندوستان میں اقلیتوں کا بنیادی مسئلہ ہر سطح پر وہ جانبداری ہے جس کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے، ان کے پنپنے کا سبب یہ نہیں کہ ملک کا قانون ناقص ہے یا دستوری تحفظات ناکافی ہیں بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ اول تو مذکورہ قوانین اور تحفظات پر دیانتداری سے عمل نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے اکثریت یا ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے درمیان ایسی سماجی اور نفسیاتی رکاوٹیں حائل ہیں کہ مختلف فرقوں میں مل جل کر رہنے کی وہ مشترکہ بنیاد نہیں بن پا رہی جو قومی اتحاد کو فروغ دینے والی ہو لیکن اقلیتوں کے تشخص کو بھی ختم نہیں ہونے دے۔ ان تعصبات کا سرکاری حکام پر بھی اثر پڑتا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ان کی غفلت و کوتاہی مزید بڑھ جاتی ہے، ابھی حال ہی میں بھارت کی خاتون وزیر سادھوی نرنجن جیوتی کا مسلمانوں کے خلاف بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ملک رام زادوں کا ہے حرام زادوں کا نہیں ہے۔ ایسے بیانات دینا آر ایس ایس اور بے جے پی کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسا سننا اور سہنا اب بھارت کی اقلیت کی عادت بن گئی ہے اور مجبوری بھی۔
خبر کا کوڈ : 426751
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش