0
Saturday 24 Jan 2015 18:11

نئے سعودی بادشاہ سلمان کو درپیش چیلنجز

نئے سعودی بادشاہ سلمان کو درپیش چیلنجز
رپورٹ: ایس این حسینی

سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان نے بادشاہت سنبھالنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کیا کہ ‘‘اللہ میری مدد کرے، سکیورٹی اور استحکام برقرار رکھنے میں اور سلطنت کی تمام برائیوں سے حفاظت کرنے میں۔’’ معمول کے واقعات کے تناظر میں اس ٹویٹ کو ایک عام بیان سمجھ کر نظرانداز کیا جا سکتا تھا، لیکن اس موقعہ پر نئے بادشاہ کی ترجیحات کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے۔

نائب یعنی ولی عہد کے تقرر کا مسئلہ:
اس وقت سعودی عرب اندرونی اور بیرونی طور پر کئی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ اس حساس وقت میں سعودی شاہی خاندان کو جانشینی کے مشکل عمل کا سامنا ہے۔ اس کو غیر معمولی رفتار سے کئی ممکنہ فتنہ ساز مسائل سے نمٹنا ہوگا۔ ان میں ایک تو اس وقت حل ہوگیا جبکہ نئے بادشاہ نے فورا ہی اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن کو ولی عہد مقرر کردیا۔ اس سے پہلے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ ممکنہ طور پر شاہ سلمان ولی عہد کے لیے اپنے سگے بھائی احمد کو شہزادہ مقرن پر ترجیح دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد نیا نائب ولی عہد مقرر کرنے کا اعلان سامنے آیا۔ نائب ولی عہد وزیر داخلہ محمد بن نائف کو مقرر کیا گیا ہے اور یہ شہزادوں کے نئی نسل کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے تخت تک جانے والی سیڑھی پر قدم رکھا ہے۔ توقعات یہ تھیں کہ ایک اختلافی فیصلے کو جتنا ممکن ہو سکے گا، روکا جائے گا لیکن اچانک ہی نئی نسل کے شہزادوں میں ایک کو یہ اعزاز دینے کا اعلان کردیا گیا۔

واضح ہے کہ رونما ہونے والے واقعات سے تمام سینیئر سعودی خوش نہیں ہوں گے۔ اس میں شہزادہ احمد کو یہ بات بھی سمجھنا ہوگی کہ وہ اب بادشاہ نہیں بن سکتے ہیں۔ انتقال کرنے والے بادشاہ کے بیٹے کو ڈپٹی ولی عہد کے طور پر پسندیدہ قرار دیا جا رہا تھا اور ان میں سے نیشنل گارڈ کے سربراہ شہزادہ متعب کا نام زیادہ لیا جا رہا تھا۔ تاہم آل سعود خاندان میں اختلافات کو نجی طور پر ہی حل کیا جاتا رہا ہے اور خاندان کی یکجہتی کو نقصان پہنچنے نہیں دیا جاتا ہے، کیونکہ اس سے سلطنت کے استحکام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

شدت پسندی کا مسئلہ
اس وقت سعودی عرب کی ایک سرحد پر اگر دولتِ اسلامیہ ہے تو دوسری طرف القاعدہ اور طاقت پکڑتے شیعہ حوثی قبائل موجود ہیں۔ بادشاہ سلمان کی اولین ترجیح ملک میں سکیورٹی کی صورتحال کو قائم رکھنا ہے۔ اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان سعودی شہری شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے لیے لڑ رہے ہیں اور اپنے شدت پسند نظریات کے ساتھ واپس وطن لوٹ رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کو سعودی عرب کے اندر حملوں سے باز رکھنے کی پالیسی کے تحت، اسلامی رہنماؤں اور انہیں پڑھانے والے افراد کی حوصلہ افزائی کرنے کی ایک موثر حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گا کہ وہ نوجوان سعودیوں کو دولت اسلامیہ کے نظریات کے خطرات سے آگاہ اور متنبہ کریں۔

ہو سکتا ہے کہ اس عمل کے تحت شاہ عبداللہ کے برعکس بادشاہ سلمان خطے کے تنازعات میں مداخلت کرنے پر قدرے کم مائل ہوں۔ جبکہ سعودی عرب نے شام کی حزب اختلاف کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے، مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ اب سعودی عرب ماضی کے برعکس زیادہ گنجائش دے، جس میں شام میں صدر بشار الاسد کے چند ساتھیوں کے حکومت میں رہتے ہوئے وہاں اقتدار کی منتقلی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ عراق کے معاملے میں بادشاہ سلمان دولتِ اسلامیہ کے خلاف اتحاد پر قائم رہیں گے، لیکن اپنے پیشرو عبداللہ کی طرح وہاں زمینی فوج نہ بھیجنے کے فیصلے پر قائم رہیں گے کیونکہ سعودی رہنماؤں کی رائے کے مطابق ملکی فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یمن سے متصل جنوبی سرحدوں پر اضافی فوج بھیجی جائے، جہاں حالیہ دنوں شیعہ حوثی قبائل نے تیزی سے پیش قدمی کی ہے جبکہ یمن میں سعودی عرب کو اپنی حمایت یافتہ حکومت کے بارے میں پائی جانے والی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ کیونکہ انکو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ حوثی قبائل کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ یمن میں موجودہ القاعدہ بھی ایک بڑے خطرے کے طور پر موجود رہے گی۔

انسانی حقوق کی صورتحال اور تیل کی پالیسی

بادشاہ کے اندرونی طور پر درپیش مسائل میں سے ایک حقوق انسانی ہیں۔ توقع ہے کہ اس بارے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، کیونکہ وہ اپنے پیشرو کے برعکس سماجی اصلاحات کرنے کے زیادہ حامی نہیں ہیں۔ اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ وہ اپنے پیشرو عبداللہ کے اقدامات کو واپس لیں گے، بلکہ انکے دور میں یہ ایک حیران کن اقدام ہوگا، اگر خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت مل جاتی ہے۔ تاہم ان سماجی اصلاحات بارے پالیسی میں کسی خاص تبدیلی کی توقع نہیں کی جا رہی ہے، جن پر حقوق انسانی کی تنظیمیں اکثر اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ عمر رسیدہ بادشاہ سلمان سلطنت کی طاقتور مذہبی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ہیں۔ تاہم وہ مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو قائل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ سماجی اصلاحات کے لیے درکار ضروری تبدیلیوں کے لیے مذہبی قوانین میں ترامیم کی جائیں۔

اس کے علاوہ سلطنت کی تیل کے بارے میں پالیسی پر سوالیہ نشان موجود رہے گا کہ کیا سعودی عرب تیل کی پیداوار میں کٹوتی نہ کرنے کی متنازع پالیسی کو جاری رکھے گا، جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ پٹرولیم کی وزارتِ پر علی نائمی کو برقرار رکھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ موجودہ پالیسی ہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کم قیمتوں کو برداشت کرسکتے ہیں جس میں امریکہ میں شیل پیٹرول کی صعنت کے لیے مشکل حالات پیدا کرنے ہیں، کیونکہ اس کی وجہ سے اوپیک کی مارکیٹ متاثر ہو رہی ہے۔ کچھ بڑی تبدیلیاں اور سرپرائز سامنے آ سکتے ہیں لیکن نئے بادشاہ کی ٹویٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں ان کی بادشاہت کے دوران زیادہ تر معاملات پہلے کی طرح ہی اس وقت تک چلتے رہیں جب تک سعودی قیادت سلطنت کو تمام برائیوں سے بچانے میں کامیاب رہتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 434790
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش