1
0
Friday 30 Jan 2015 23:53

نمازیوں پر یزدیوں کا ایک اور حملہ

نمازیوں پر یزدیوں کا ایک اور حملہ
تحریر: عمران خان
 
معلوم نہیں کس مذہب اور دین کے ماننے والے ہیں، جو عبادت کیلئے مسجد میں جانے والے نمازیوں پر حملے کرتے ہیں۔ کمال ڈھٹائی سے اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر مصر ہیں، اور وہی مفتی جو سائیکل کے کیرئیر پر بیٹھنے، گاڑیوں کی ڈرائیونگ، انٹرنیٹ کے استعمال، موبائل کے استعمال پر فوراً فتوے جاری کرتے ہیں۔ انہیں مساجد میں نمازی بچوں کی خون میں لت پت لاشیں نظر نہیں آتیں۔ جو قرآن مجید کی بیحرمتی کا مرتکب قرار دیکر زندہ انسانوں کو جلتے ہوئے بٹھوں میں ڈال دیتے ہیں۔ کیا انہیں دھماکوں میں نذر آتش ہونے والے قرآن مجید نظر نہیں آتے۔ کیسا بے حس معاشرہ ہے اور کس احساس والے مسلمان ہیں۔ گستاخانہ خاکوں کے خلاف، ٹیری جونز کے خلاف، متنازعہ فلم کے خلاف تو ریلیاں نکالتے ہیں، مذمتیں کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، مگر اپنی ہی سرزمین پر جب خارجی دہشتگرد مساجد کی بیحرمتی کرتے ہیں، نمازیوں کو شہید کرتے ہیں، دھماکوں میں قرآنوں کو شہید کرتے ہیں، خانہ خدا میں بے گناہوں کا لہو بہاتے ہیں، تو اس بے حرمتی پر، گستاخی پر، حملوں پر کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے۔ ریلیاں، احتجاج کرنا تو درکنار اس بیحرمتی کے خلاف مذمت کے چند لفظ تک ادا نہیں کرتے اور اپنی مجرمانہ خاموشی پر ندامت کا احساس تک بھی نہیں کرتے۔

دشمن ہی سہی، مگر چپ سادھے ملک اور دین کے ٹھیکیداروں سے وہ لادین یورپی بہتر ہیں، جب فرانس میں اخبار کے دفتر پر حملہ ہوا، تو اس کے خلاف پورا یورپ ایک ہوگیا۔ تیس لاکھ افراد کا ہجوم احتجاج کرنے نکل پڑا، حالانکہ یہ حملہ ان کے کسی دینی مرکز پر نہیں ہوا تھا، ان کی عبادتگاہ پر نہیں ہوا، ان کے مذہب کی توہین نہیں ہوئی، لیکن اس کے باوجود وہ ایک تھے۔ یہاں تو مسجد جسے اللہ کا گھر سمجھا جاتا ہے، پر حملے ہوتے ہیں، مگر وہی امت، وہی مسلمان، کہ جس کے متعلق ارشاد نبوی (ص) ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم بے چین ہوتا ہے، خاموش رہتے ہیں۔ سانحہ شکار پور کے بعد منافقین کے وہ تمام چہرے بے نقاب ہوگئے ہیں، جو سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے اتحاد کی چکنی چپڑی الاپتے ہیں، مگر مسجد میں ہونے والی بربریت کے خلاف خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اور ان منافقین میں زیادہ چہرے وہی ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے حکومت کے قریب ہیں۔ 

صوبہ سندھ کے اہم شہر شکار پور کے علاقے لکھی در میں مسجد و امام بارگاہ کربلائے معلٰی میں معمول کے مطابق نماز جمعہ کا خطبہ جاری تھا۔ دو منزلہ مسجد و امام بارگاہ عزادار، نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی کہ مسجد کے مین دروازے کے سیدھے ہاتھ کی سیڑھیوں کے قریب ایک خوفناک دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے بعد چہار جانب دھول اور انسانی خون ملے دھوئیں کے بادل پھیل گئے۔ زخمیوں کے کراہنے اور بچوں کے رونے کی آوازیں در و دیوار سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ جب دھوئیں اور گرد کے بادل چھٹے تو سارا ماحول بدل چکا تھا۔ باوضو نمازی، بھائیوں بچوں سمیت، نماز جمعہ کی ادائیگی کی خاطر پاک و صاف لباس میں آنے والے لہو میں غلطان تھے۔ دیواریں بارودی مواد سے چھلنی تھیں، فرش پر ہر طرف خون اور اعضاء بکھرے ہوئے تھے۔ کئی جاں بلب زخمیوں کے لب کلمہ شہادت کی ادائیگی کیلئے مصروف جنبش تھے۔ دو معصوم شہید بچے ایکدوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ یہ ماحول دیکھ کر کئی نمازی حیرت سے اپنی جگہ ساکت تھے۔ مسجد سے باہر کافی بھاگ دوڑ تھی اور باہر موجود مومنین امدادی کاموں کیلئے اندر آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس خوفناک دھماکے میں آخری خبریں موصول ہونے تک 61 افراد شہید ہوچکے تھے اور ۷۰ سے زائد زخمی تھے۔ 

ان بے گناہ، معصوم اور یاد الہی سے سینوں کو منور کرنے والے نمازیوں کی کیا خطا تھی، صرف یہی کہ یہ مکتب اہلبیت (ع) سے تعلق رکھنے والے پاکستانی مسلمان تھے۔ یہ وہ چیدہ اور خاص لوگ تھے، جو احکامات دین کی بجاآوری جانوں پر فرض سمجھتے تھے۔ وگرنہ شہر میں کتنے ہی مسلمان ایسے تھے، جن کے نزدیک نماز جمعہ سے زیادہ دیگر مصروفیات اہم تھیں۔ تاریخ اسلام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ خوارج ہی وہ فتنہ ہے، جو اپنے مذموم اور ناپاک ارادوں کی راہ میں نمازیوں کو ہمیشہ ایک بڑی رکاوٹ سمجھتا رہا ہے، اور خانہ خدا میں اللہ کے حضور سر بسجود مومنین کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ یہ فتنہ خوارج کی باقیات ہی ہیں کہ جنہوں نے اسلامی دنیا میں حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ کہیں یہ داعش کی صورت عراق و شام کے سنی و شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے تو کہیں طالبان کی صورت افغان، پاک و ہند ریجن میں بربریت کی مثالیں رقم کر رہا ہے۔ کہیں لشکر جھنگوی کی صورت کوئٹہ کے ہزارہ قبائل اس کے حملوں کا شکار ہوتے ہیں تو کہیں جنداللہ کی صورت ملک کے طول و عرض میں دہشتگردی کے سانحات رقم کرتا ہے۔ فتنہ خوارج کا ماسوائے اس کے کوئی اور حل نہیں کہ اس فتنے کو بزور طاقت ختم کیا جائے۔ اس فتنے کو احساس تحفظ فراہم کرنے والے نام نہاد ملا کی زبان بندی کی جائے اور ان کے حق میں بوگس دلیلیں پیش کرنے والوں کا کڑا محاسبہ کیا جائے۔ 

پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے 2015ء کے آغاز میں کہا تھا کہ یہ سال دہشتگردی کے خلاف جنگ کی کامیابی کا سال ہوگا۔ مشکل حالات کے باوجود کامیابی پاکستانیوں کا مقدر بنے گی، مگر حالات نہیں بدلے۔ نئے سال کا آغاز بھی دہشتگردی سے ہوا اور پہلے ماہ کا اختتام بھی دہشتگردی کے بڑے سانحہ سے ہوا۔ شکار پور کی سرزمین پر دہشتگردی کا یہ کوئی پہلا حملہ نہیں تھا۔ ماضی میں بھی فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور مئی 2013ء میں یہاں ٹول پلازے کے قریب ابراہیم جتوئی کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا۔ اس سے قبل جنوری 2013ء میں ہی شکارپور شہر سے دس کلومیٹر دور واقع درگاہ غازی شاہ میں بم دھماکے میں گدی نشین سمیت چار افراد شہید ہوئے تھے۔ 2010ء میں بھی شکار پور میں عاشور محرم کے موقع پر ایک مجلس پر حملے کی کوشش کے دوران ایک مشتبہ خودکش بمبار ہلاک ہوا تھا، ماضی کے ان واقعات کے باوجود شہر کی مساجد کی پر سکیورٹی کا نہ ہونا، واضح طور پر انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کی عکاسی کرتا ہے۔

ایک جانب حکمران فرماتے ہیں کہ ملک حالت جنگ میں ہے، ایسے دشمن سے لڑ رہے ہیں جو ہماری صفوں میں موجود ہے۔ دوسری جانب نماز جمعہ کے موقع پر نمازیوں سے بھری مسجد کے دروازے پر ایک سپاہی تک موجود نہیں۔ کیا اندرون سندھ پولیس کا کام فقط پروٹوکول فراہم کرنا ہے۔؟ یہ کہنا غلط ہوگا کہ شکار پور کوئی پرامن شہر ہے اور یہاں کالعدم تنظیموں کا وجود نہیں۔ جیکب آباد، سکھر اور لاڑکانہ اضلاع کے وسط میں موجود شکارپور ضلعے میں مذہبی انتہا پسندی اور انتہا پسند جماعتیں واضح وجود رکھتی ہیں۔ یہاں چار مرتبہ نیٹو ٹینکروں پر بھی حملے کیے گئے۔ شدت پسندی کے باعث شہر میں اب کہیں تفریح سرگرمیاں منعقد نہیں ہوتیں۔ اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہاں شدت پسند مذہبی گروہوں کا تسلط قائم ہوچکا ہے۔ کشمور سے لیکر کراچی تک قومی شاہراہ، انڈس ہائی وے اور سپر ہائی وے کی دونوں جانب بڑی تعداد میں مدارس قائم ہیں ہیں، جن میں جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے طلبہ کی تعداد نمایاں ہے۔ مدارس میں طلباء کی تعداد اور سرگرمیوں سے ضلعی انتظامیہ اتنی ہی لاعلم ہے، جتنی مسجد میں ہونے والے دھماکے سے لاعلم تھی۔ 

بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس علاقے میں مدارس کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جن میں اکثریت دیوبند مکتب فکر کی ہے۔ محکمہ داخلہ کی دو سال قبل کے سروے کے مطابق ان مدارس کے سربراہ اکثر غیر مقامی ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ افغان طالبان کے ترجمان کا ذبیح اللہ مجاہد کے ایک پیغام پر ان کی لوکیشن سندھ سامنے آئی تھی۔ تاہم یہ خبر سامنے آنے کے بعد طالبان نے اس کی تردید کی تھی۔ مسجد و امام بارگاہ کربلائے معلٰی میں ہونے والا بم دھماکہ پلانٹڈ تھا، مگر مسجد کے فرش پر کوئی گڑھا نظر نہیں آیا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق دھماکے میں آٹھ سے دس کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا، جن میں بولٹ و غیرہ استعمال ہوئے۔

عینی شاہدین کے مطابق مسجد و امام بارگاہ کربلا ئے معلٰی میں نماز جمعہ کا خطبہ جاری تھا کہ اچانک زور دار دھماکہ ہوا، دھماکے کے وقت نمازیوں کی بڑی تعداد امام بارگاہ میں موجود تھی۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز کئی کلو میٹر دور تک سنی گئی۔ ایک بزرگ کے مطابق جب گرد اور دھواں کم ہوا تو اس نے اپنے بیٹے کو شدید زخمی حالت میں بے ہوش دیکھا۔ بعض مومنین نے میری مدد کرکے مجھے اور میرے بیٹے کو ہسپتال پہنچایا۔ سول ہسپتال شکار پور کے ڈاکٹر رشید ابرو نے کہا کہ دھماکے میں تیس کے قریب موقع پر ہی نمازی شہید ہوگئے، جن میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ جن زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا، ان میں سے تقریباً 25 کی حالت انتہائی نازک تھی۔ ان شدید زخمیوں میں سے 14 کی شہادت ہسپتال، یا راستے میں ہوئی۔ تقریباً 12 زخمی ایسے ہیں، جن کی حالت اب بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہادتوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے۔ 

شکار پور کے پولیس آفیسر عبدالقدوس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے کے نتیجے میں امام بارگاہ کے پیش امام سمیت کم از کم 31 افراد شہید جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ شہید ہونے والے افراد میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ ڈی ایس پی عبدالقدوس کے مطابق جائے وقوعہ پر لوگوں نے انھیں بتایا کہ ایک شخص تھیلے سمیت امام بار گاہ کے اندر آیا، جس کے فوری بعد دھماکہ ہوگیا اور اب تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ بم نصب کیا گیا تھا یا یہ خودکش حملہ تھا۔ ایس ایچ او بشیر کھوکھر کا کہنا ہے کہ دھماکے وقت امام بارگاہ میں سو کے قریب افراد نچلی منزل اور 60 سے 70 افراد پہلی منزل پر موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ پہلی منزل کے لیے جانے والی سیڑھیوں کے قریب زیادہ نقصان ہوا ہے۔

ایس ایچ او بشیر کھوکھر کے مطابق امام بارگاہ کے باہر سکیورٹی انتظامات پولیس کے پاس ہوتے ہیں جبکہ اندر کی سکیورٹی کی ذمہ داری امام بارگاہ کے عملے کے پاس ہوتی ہے۔ ایس پی شکار پور ثاقب اسماعیل کا کہنا تھا کہ تاحال دھماکے کی نوعیت معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امام بارگاہ پر حملے کے حوالے سے کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی اور وہاں معمول کی سکیورٹی کی ذمہ داری پولیس کو دی گئی تھی۔ ایس پی کا یہ بیان ایک جانب انٹیلی جنس فیلئر کی تصدیق ہے اور دوسری جانب پولیس کی مجرمانہ غفلت کی، کیونکہ نمازیوں کے مطابق مسجد کی سکیورٹی کے لیے کوئی پویس والا موجود نہیں تھا۔ پاک آرمی کی جانب پنوں عاقل چھاؤنی سے ڈاکٹروں کی ٹیمیں شکار پور روانہ کی گئیں۔ دھماکے کے بعد مومنین نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں و شہیدوں کو ہسپتال میں منتقل کیا۔ 

علاقے میں امدادی کارکنوں کی کمی کے باعث امدادی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ میڈیا میں جاری ہونے والے بیان کے مطابق سانحہ شکار پور کی ذمہ داری کالعدم جنداللہ (احمد مروت) گروپ نے قبول کی ہے۔ اس سے قبل فتنہ خوارج کا یہ دہشتگرد گروپ پشاور میں ہونے والے چرچ حملے، مولانا فضل الرحمن پر کوئٹہ میں ہونے والے خودکش حملے، سانحہ نانگا پربت میں غیر ملکیوں کے قتل، کراچی میں اس وقت کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم حیات کے قافلے پر حملے، سکھر میں آئی ایس آئی کے دفتر پر ہونے والے حملے سمیت دیگر دہشتگردی کی کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کرچکا ہے۔ ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اتنے واقعات کے بعد بھی پاکستان کے اداروں کی جانب سے اس گروہ کے خلاف کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی جاسکی اور نہ ہی اس گروہ کے کسی دہشتگرد کو نشان عبرت بنایا گیا۔ سانحہ شکار پور میں شہید ہونے والوں کیلئے حکومت سندھ نے پانچ پانچ لاکھ روپے اور زخمیوں کیلئے ایک ایک لاکھ روپے مالی مدد کا اعلان کیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت سے جنم لینے والے اتنے بڑے سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف حکومت نے کیا تادیبی کارروائی کی ہے۔؟ صوبائی حکومت کی نظر میں کیا انسانی جان کی قیمت پانچ لاکھ روپے ہے۔؟ 

سانحہ شکار پور کی ملک میں برپا ہونے والے دیگر سانحات کی طرح وفاقی حکومت کی جانب سے زبانی کلامی مذمت کی گئی۔ وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزراء نے سانحہ کی مذمت کی۔ مجلس وحدت مسلمین نے سانحہ کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس کرکے اعلان کیا کہ سانحہ شکار پور پر ملک بھر میں تین دن یوم سوگ منایا جائے گا۔ کل بروز ہفتہ سندھ بھر میں پرامن پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کرتے ہیں، اسی طرح باقی شیعہ جماعتوں نے بھی سانحہ شکار پور کی مذمت کرتے ہوئے صوبائی، وفاقی حکومت اور انتظامی اداروں کو مجرمانہ غفلت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ملوث عناصر اور دہشتگردوں کے خلاف فوری طور پر تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ماضی کے حالات واقعات سے ظاہر ہے کہ کسی بھی سانحہ کے رونما ہونے کے بعد صوبائی و وفاقی حکومتیں بیان بازیاں کرتی ہیں۔ مختلف ادارے سکیورٹی کے نام پر حرکت کرتے ہیں، کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ اس کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی حالات کے پیش نظر گرفتار دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عمل کو تیز کیا جائے۔ اندرون سندھ بھی دہشتگردوں کی آماجگاہوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ پاکستانی اداروں کی اہم پوسٹوں پر تعینات رہنے والے وہ افراد جو ماضی و حال میں کالعدم تنظیموں کے سرپرست بنے رہے، انہیں بھی تحقیقاتی عمل سے گزارا جائے۔ حکومت اور اس کے ادارے دہشتگردوں کی حمایت و سرپرستی ختم کرکے ملک میں حقیقی قیام امن کی کوشش کریں۔
خبر کا کوڈ : 436103
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نذر حافی
Iran, Islamic Republic of
بہت عمدہ لکھا ہے عمران بھائی، معصوم اور یاد الہی سے سینوں کو منور کرنے والے نمازیوں کی کیا خطا تھی؟
ہماری پیشکش