1
Monday 9 Mar 2015 12:56

تکفیریت کی نظریاتی بنیادیں

تکفیریت کی نظریاتی بنیادیں
تحریر: محمد افروز اسفنجانی

تکفیری عناصر خاص قسم کے افکار اور اعتقادات کے حامل ہیں، جو اسلامی دنیا کے مختلف حصوں میں گروہوں اور سیاسی جماعتوں کی صورت میں سرگرم عمل ہیں۔ درحقیقت تکفیری عناصر کسی خاص گروہ یا جماعت تک محدود نہیں بلکہ تکفیریت ایسی سوچ کا نام ہے جس کا حامل اپنے سے مختلف سوچ رکھنے والے مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے۔ مسلم دنیا میں کئی مختلف گروہ اور جماعتیں از طرز تفکر کی نمائندہ ہیں، جنہیں تکفیری گروہ یا جماعتوں کا نام دیا جاتا ہے۔ تکفیری ایسے فرد یا گروہ کو کہا جاتا ہے جس کی فکری بنیادیں سلفی اور وہابی طرز تفکر کی مختلف تعبیروں میں سے کسی ایک پر استوار ہوں اور وہ دوسرے مسلمانوں کو صرف اس بنا پر کہ وہ اس کے ہم عقیدہ نہیں اپنے باطل معیاروں کی بنیاد پر کافر اور دین سے خارج قرار دیتا ہو۔ ان گروہوں کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کیلئے تکفیری طرز فکر کے بانی رہنماوں کی شخصیت اور ان کے افکار سے آشنائی انتہائی ضروری ہے۔ اس تحریر میں ہماری کوشش ہوگی کہ تکفیری سوچ کے چند بانی رہنماوں کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی جانچ پرکھ کریں۔ ان رہنماوں میں احمد بن حنبل، ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے نام زیادہ اہم ہیں۔ 
 
1۔ احمد بن حنبل:
تکفیری سوچ کا جائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ سلفی مکتب فکر کے آغاز کو مدنظر قرار دیا جائے اور یہ وہ مرحلہ ہے جو احمد بن حنبل سے منسوب ہے۔ حدیث کی معروف کتاب "المسند" کے مصنف اور حنبلی فقہ کے بانی احمد بن حنبل کو سلفیت کا بانی اور مجدد جانا جاسکتا ہے۔ درحقیقت احمد بن حنبل سلفیوں کے امام اور پیشوا کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں کیونکہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے برصغیر، یونان اور ایران سے اجنبی فلسفی علوم اور ثقافتی اقدار کے اسلامی دنیا میں داخل ہو کر اسلامی علوم کا حصہ بن جانے اور اسلامی اعتقادات میں شامل ہوجانے کے بعد حدیث کو اس یلغار سے بچانے کی کوشش کی۔ لیکن بدقسمتی سے انہوں نے شدت پسندی کا شکار ہو کر عقلانیت اور عقل پسندی کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا اور حدیث جیسے اسلامی علم میں عقلی طریقہ کار داخل ہونے کا راستہ مکمل طور پر بند کر دیا۔ لہذا اگرچہ احمد بن حنبل بعض مسائل سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن اپنے طرز عمل کی بدولت زیادہ شدید مسائل اور مشکلات کا شکار ہوگئے۔ سلفیت کے بانی کے طور پر احمد بن حنبل سماعت اور نقل پر حد سے زیادہ تاکید کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں آیات قرآن اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سمجھنے میں عقل کا استعمال مکمل طور پر حرام ہے اور ہمیں صرف ان کے ظاہری معانی تک ہی اکتفا کرنا چاہئے۔

اعتقادات اور انہیں بیان کرنے کی نوعیت کے بارے میں احمد بن حنبل کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ صحابہ اور تابعین کی بیان کردہ عبارات کو بعینہ نقل کرتے تھے۔ جس مسئلے میں صحابہ اور تابعین نے سکوت اختیار کیا ہوتا، احمد بن حنبل بھی سکوت اختیار کرتے تھے اور ہمیشہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی (ص) کے ظاہری معانی کی روشنی میں فتویٰ دیتے تھے۔ کسی حدیث کی تاویل نہیں کرتے تھے اور خداوند متعال کی خبری صفات کے بارے میں بھی بغیر کسی تاویل کے ظاہری معانی کو ہی اپنے اعتقادات کی بنیاد بناتے تھے۔ وہ ایک جگہ کہتے ہیں: "ہم حدیث کو بالکل ویسے ہی جیسے ہے بیان کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں۔" [شهرستانی، الملل و النحل، الشریف الرضی‏، ص:165-129]۔
 پہلی صدی سے لے کر تیسری صدی ہجری تک فقہی اعتبار سے اہلسنت دو گروہوں "اہل رائے" اور "اہل حدیث" میں تقسیم تھے۔ اہل حدیث فرقے کے علماء شرعی احکام کے استنباط میں عقل کیلئے کسی اہمیت اور مقام کے قائل نہ تھے اور اپنے بقول صرف قرآن و سنت تک ہی محدود رہتے تھے۔ احمد بن حنبل کا شمار اہلسنت کے چار فرقوں کے ان فقہاء اور مذہبی پیشواوں میں ہوتا ہے جو "عقلی استدلال" کے شدید مخالف تصور کئے جاتے تھے۔ ابن تیمیہ نے بھی ساتویں اور آٹھویں ہجری قمری میں احمد بن حنبل کے طرز فکر کی پیروی کرتے ہوئے انہیں کے راستے کو انتخاب کیا۔ درحقیقت یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ابن تیمیہ احمد بن حنبل کی راہ و روش کا مجدد تھا۔ احمد بن حنبل نے اپنے فرقے کی بنیاد درج ذیل بنیادی اصولوں پر استوار کی:
1۔ قرآن و سنت کی نصوص
2۔ صحابہ پیغمبر (ص) کے فتوے
3۔ ان میں اختلاف کی صورت میں جو فتویٰ بھی قرآن و سنت کے مطابق ہو
4۔ تمام ضعیف اور مرسل احادیث کو معتبر سمجھنا۔

احمد بن حنبل کا مذہب اس کے بعد بہت کم پھیلا، لیکن ساتویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ (661 – 728 ہجری قمری) نے اسے ازسرنو زندہ کرکے اس کی ترویج شروع کر دی۔ کلی طور پر تین درج ذیل خصوصیات کو احمد بن حنبل اور اس کے شاگرد ابن تیمیہ کے نظریات کی بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے۔ آج بھی یہی تینوں بنیادی نکات شدت پسند تکفیری گروہوں کے سنہری اصول قرار پائے ہیں اور وہ اپنے شدت پسندانہ اقدامات کی توجیہ کرنے اور ان کا شرعی جواز فراہم کرنے کیلئے رائے عامہ کے سامنے انہیں نکات کا سہارا لیتے ہیں۔ 
1۔ شدید اور انتہا پسندانہ روایت پسندی
2۔ منطق کو قبول نہ کرنا اور عقل دشمنی
3۔ جدید فکری اور معاشرتی رجحانات کی شدید مخالفت 
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ مندرجہ بالا نکات احمد بن حنبل کی سوچ کے بنیادی اصول ہیں، جو آج تکفیری گروہوں نے اپنا رکھے ہیں۔ لہذا احمد بن حنبل کو شدت پسندانہ خاص طور پر تکفیری گروہوں کے فکری رہنما کے طور پر جانا جاسکتا ہے۔ 
 
2۔ احمد ابن تیمیہ:
ابن تیمیہ ایک حنبلی فرقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوا۔ ایسا گھرانہ جس کے افراد اس فرقے کے بڑے مذہبی رہنماوں میں شمار کئے جاتے تھے جن میں سے پہلا محمد بن خضر بن تیمیہ تھا۔ ابن تیمیہ جس نے سلفیت پر مبنی احمد ابن حنبل کی سوچ کو آگے بڑھایا، اسی جیسے نظریات کا مالک تھا۔ شیخ محمد ابو زہرہ اس بارے میں کہتا ہے: "ابن تیمیہ کا عقیدہ تھا کہ مذہب سلف کے مطابق خداوند متعال ہر اس صفت کا مالک ہے جو قرآن کریم میں ذکر ہوئی ہے، جیسے فوقیت (کسی چیز کے اوپر ہونا)، تحتیت (کسی چیز کے نیچے ہونا)، عرش پر بیٹھنا، ہاتھ، محبت، نفرت وغیرہ سے برخوردار ہونا اور وہ دوسری صفات جن کا ذکر احادیث میں ہوا ہے۔ البتہ بغیر کسی تاویل کے۔ ابن تیمیہ سے قبل، چوتھی صدی ہجری میں حنبلی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی قرآن و احادیث میں بیان شدہ خدا کی صفات کے بارے میں اسی عقیدے کے حامل تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سلفی مذہب ایسا ہی تھا، جبکہ ان کے ہم عصر علماء نے ان کی شدید مخالفت کی۔ علماء کا عقیدہ تھا کہ اس قسم کے اعتقادات کا نتیجہ خداوند کے جسمانی اور مادی اشیاء سے شبیہ ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔" 
 
احمد ابن تیمیہ کو اسلامی تفکر کی تاریخ اور اگلے مراحل میں سیاست اور معاشرے کے عملی میدانوں میں عظیم تبدیلی کا منشا قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب ابن تیمیہ اپنے زمانے میں پورے زور و شور سے اپنے نظریات پیش کرنے میں مصروف تھا اور پوری تگ و دو کے ساتھ سیاسی اور سماجی سرگرمیاں انجام دے رہا تھا اور اپنے افکار کے شدت پسندانہ ہونے اور اسلامی نظریات اور مبادیات سے اجنبی ہونے کی خاطر اکثر مسلمان علماء کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کر رہا تھا اور مسلمان علماء اسے ترک کرچکے تھے، تو شائد اسے خود بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ صدیوں بعد محمد بن عبدالوہاب اس کے نظریات کو ازسرنو زندہ کر دے گا اور اکیسویں صدی عیسوی میں اس قدر مخلص حامی پیدا کر لے گا جو اسلامی دنیا کے بڑے حصے پر اثرانداز ہوسکیں گے۔ اس وقت شدت پسندانہ ترین اسلامی گروہ ایسے ہیں جنہوں نے ابن تیمیہ کے نظریات کو اپنی سرگرمیوں کی بنیاد بنا رکھا ہے۔ ابن تیمیہ کی تمام کتابوں میں یہ مشترکہ نکتہ پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی تحریر میں قرآن، سنت اور سلف صالح کی باتوں کو بیان کرکے ان سے اپنی مرضی کی تفسیر اور تعبیر کو اخذ کرتا ہے اور اپنی ان من گھڑت تعبیروں کو اپنے تمام فتووں کی بنیاد بناتا ہے۔ وہ کسی بھی مسئلے میں فتویٰ دینے کیلئے سب سے پہلے قرآن کریم سے رجوع کرتا ہے، اس کے بعد اجماع اور اگلے مرحلے میں قیاس کا سہارا لیتا ہے۔ وہ قرآن و سنت کے دائرے میں رہ کر سوچتا ہے اور کسی کی تقلید بھی نہیں کرتا۔ احمد ابن حنبل، ابن تیمیہ اور ان جیسے دوسرے سلفی دینی رہنماوں کے نظریات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عقل کیلئے کسی قدروقیمت اور اہمیت کے قائل نہ تھے۔ ابن تیمیہ کہتا ہے: "وہ افراد جو عقل کی تعریف و تمجید کے مدعی ہیں، درحقیقت ایسے بت کی تعریف و تمجید کا دعویٰ کرتے ہیں جسے انہوں نے عقل کا نام دیا ہے۔ عقل اکیلے میں ہرگز ہدایت اور ارشاد کیلئے کافی نہیں، ورنہ خداوند کبھی بھی نبی یا رسول نہ بھیجتا۔"

ابن تیمیہ نے اپنی ذاتی اور من گھڑت سوچ کی بنیاد پر بے شمار ایسے فتوے صادر کئے، جو اس کے زمانے میں ہی تمام مسلمان فرقوں کے بڑے مذہبی رہنماوں کی جانب سے شدید مخالفت کا نشانہ بنے۔ مثال کے طور پر ابن تیمیہ کے ایسے چند فتوے درج ذیل تھے: "پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، انبیاء اور صالحین کی قبور کی زیارت کا حرام ہونا، نماز پڑھنے اور دوسرے شرعی احکام میں کوتاہی برتنے والوں کو قتل کرنے کا حکم۔" احمد ابن تیمیہ کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب وہ ایسی حدیث سے روبرو ہوتا تھا جو اس کے من گھڑت اعتقادات کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ نہیں ہوتی تھی تو یا تو اسے جھوٹی حدیث کہ کر مسترد کر دیتا تھا یا اس کو ادھورا بیان کرتا تھا۔ اسی طرح ابن تیمیہ اہل تشیع سے شدید متنفر تھا اور انتہائی نازیبا الفاظ جو ایک عالم دین کی شان کے خلاف ہیں، کے ساتھ اہل تشیع پر تہمتیں لگاتا اور ان کی توہین کرتا تھا۔ ابن تیمیہ ایسے ایسے اعتقادات کو شیعہ مسلک سے منسوب کرتا ہے جس کے خود شیعہ بھی معتقد نہیں۔ اس کی نظر میں اہلسنت کے علاوہ باقی تمام مسلمان فرقوں سے وابستہ مسلمان اہل دوزخ میں سے ہیں۔ اگرچہ ابن تیمیہ اپنے نظریات کی بنیاد قرآن و سنت کو بناتا تھا، لیکن اس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ انتہائی سطحی اور ایک پہلو پر مبنی (one dimensional) سوچ کا مالک تھا، یعنی اس کی سوچ اسلام کے صرف بعض حصوں تک محدود تھی اور ان کے بارے میں بھی اس کا فہم انتہائی سطحی درجے کا تھا۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ ابن تیمیہ سے قبل بھی ہزاروں مسلمان علماء اور محققین قرآن و سنت کا مطالعہ کرچکے تھے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر اپنے مخالف فرقوں کے خلاف اس قدر شدت پسندانہ اور انتہا پسندانہ فتوے نہیں دیئے تھے۔ 
 
خود اہلسنت کے بہت سے علماء جیسے عبدالکافی نے ابن تیمیہ کو ایک بدعت گزار، گمراہ کرنے والا اور شدت پسند شخص قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: "ابن تیمیہ نے اعتقادات میں بہت سی بدعتیں ایجاد کیں اور اسلام کی بنیادوں کو نابود کیا۔ اس نے یہ کام قرآن و سنت کی پیروی کی اوٹ میں انجام دیا اور اپنے اوپر قرآن و سنت کا لبادہ اوڑھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ لوگوں کو حق اور بہشت کی جانب دعوت دے رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود اس نے بھی قرآن و سنت کی پیروی نہیں کی اور بدعت گوئی کرنے لگا۔ وہ اجماع کی مخالفت کرنے کی وجہ سے جماعت مسلمین سے خارج ہے۔"
اسی طرح ابوبکر حصینی کہتے ہیں:
"پس جان لو کہ میں نے اس خبیث شخص [ابن تیمیہ] کی باتوں پر غور کیا ہے۔ اس کے دل اور قلب میں گمراہی کی بیماری ہے۔ میں نے اس شخص میں جو فتنہ ایجاد کرنے کی غرض سے قرآن و سنت میں موجود مشتبہات سے مدد لیتا ہے اور جو ایسے افراد کی پیروی کر رہا ہے جن کی ہلاکت کا ارادہ خداوند متعال نے کیا ہے، ایسی چیزوں کا مشاہدہ کیا ہے، جنہیں بیان کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں، کیونکہ ان کا نتیجہ پروردگار عالم کا انکار ہے۔" 
 
احمد ابن تیمیہ 67 سال کی عمر تک غیر شادی شدہ رہا اور اپنے منحرف اعتقادات اور غلط فتووں کے باعث تین بار قیدخانے کا رخ کیا۔ وہ آخرکار 728 ہجری قمری میں دمشق کے قیدخانے میں فوت ہوگیا۔ ابن تیمیہ کو مرنے کے بعد وہابی فرقے کا بانی قرار دیا گیا۔ اگرچہ ابن تیمیہ کے پیروکار اسے اہل حدیث کا بانی قرار دیتے ہیں، لیکن بعض اہلسنت علماء دین حدیث کے بارے میں ابن تیمیہ کے طریقہ کار کو غلط قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں: "ابن تیمیہ حدیث کو نقل کرنے میں احتیاط کا خیال نہیں رکھتا تھا اور اپنی مرضی کے مطابق اس کو بیان کرتا تھا۔ اس کے باوجود اس کی سوچ بہت تیزی سے اس کے حامیوں میں پھیل گئی۔ ابن تیمیہ کے حامی اہم تفسیری کتابوں جیسے تفسیر بغوی، طبری اور ابن عطیہ میں صحابہ کرام کی رائے جانے بغیر آنکھیں بند کرکے اس کے نظریات کو قبول کر لیتے ہیں۔" 
 
مختصر الفاظ میں یہ کہ موجودہ تکفیری گروہوں کی نظریاتی بنیاد فراہم کرنے اور ان کی جانب سے اپنی شدت پسندانہ سرگرمیوں کو شرعی جواز فراہم کرنے میں استعمال ہونے والے ابن تیمیہ کے اہم افکار اور اعتقادات کو مندرجہ ذیل انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے:
الف)۔ بدعت:
ابن تیمیہ کی نظر میں ہر وہ چیز جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سلف صالح کے زمانے میں نہیں تھا بدعت ہے۔ ابن تیمیہ کا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کرنا صرف ان کی زندگی میں ہی تھا اور آپ (ص) کی وفات کے بعد کسی صحابی یا تابعی نے پیغمبر اکرم (ص) سے توسل نہیں کیا۔ ابن تیمیہ نے توسل کے تین معنی بیان کئے ہیں، جن میں سے دو جائز اور ایک حرام ہے۔
وہ کہتا ہے کہ توسل کا پہلا معنی پیغمبر اکرم (ص) کی اطاعت کرنا اور ان پر ایمان لانا ہے، جو اسلام اور ایمان کی بنیاد ہے۔
دوسرا معنی آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں اور قیامت کے دن آپ (ص) سے دعا اور شفاعت کیلئے توسل کرنا ہے۔ یہ بھی جائز ہے۔
توسل کا تیسرا معنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ان سے دعا میں مدد مانگنا اور ان (ص) کے نام کی قسم کھانا ہے، یہ بدعت اور حرام ہے۔ 
 
ب)۔ قبور کی زیارت کیلئے جانا:
ابن تیمیہ کی نظر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ائمہ معصومین علیھم السلام اور بزرگان کی قبر مبارک کی زیارت کیلئے جانا ایسا ہی ہے جیسے جاہلیت کے دور میں بت پرستی کی جاتی تھی، لہذا بدعت اور حرام ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ اپنی قبر اور دوسرے انبیاء علیھم السلام کی قبر کی زیارت کے بارے میں خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی معتبر حدیث اسے نہیں ملی اور آپ (ص) سے منسوب تمام وہ احادیث جو ان (ص) کی قبر کی زیارت کے بارے میں ہمارے پاس موجود ہیں ضعیف ہیں۔ اسی طرح سلف صالح نے بھی اس بارے میں کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ ابن تیمیہ اپنے فتوے کیلئے یہ حدیث بیان کرتا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: "میری قبر کو آمدورفت کا راستہ قرار نہ دو۔" 
 
ج)۔ استغاثہ اور توسل:
ابن تیمیہ شفاعت اور انبیاء و ائمہ معصومین علیھم السلام سے توسل کو زمانہ جاہلیت کی باقیات قرار دیتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ائمہ معصومین علیھم السلام اور بزرگان سے توسل کرنے والوں کو مشرک اور کافر سمجھتا ہے۔ ابن تیمیہ کہتا ہے کہ جو شخص بھی یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ فوائد کے حصول، نقصانات کو اپنے سے دور کرنے اور رزق و روزی کے حصول میں انسانوں اور خدا کے درمیان کسی وسیلے کی ضرورت ہے، تو گویا اس نے خدا کیلئے شریک قرار دے دیا ہے، لہذا وہ مشرک ہے اور اس پر توبہ کرنا واجب ہے اور اگر توبہ نہ کرے تو واجب القتل ہے۔ 
 
د)۔ خدا کے علاوہ کسی اور کے نام کی قسم کھانا:
ابن تیمیہ کے ایسے فتوے جو اسی کے ساتھ مخصوص ہیں، میں سے ایک یہ ہے کہ وہ خدا کے علاوہ کسی اور کے نام کی قسم کھانے کو حرام قرار دیتا ہے۔ 
 
ہ)۔ شیعہ دشمنی:
ابن تیمیہ نے پوری کوشش کی کہ اہل تشیع کو یہودیوں اور اسلام دشمن عناصر سے وابستہ ایک سیاسی گروہ کی صورت میں پیش کرے۔ 
 
و)۔ جبریت:
ابن تیمیہ گہرے تفکر اور بصیرت کے نہ ہونے اور اسی طرح عقل کو ترک کرنے کے باعث اپنے اکثر اعتقادی نظریات میں جبر کا قائل ہے۔ 
 
3۔ محمد بن عبدالوہاب:
تکفیری مکتب فکر کا ایک اور رہنما محمد بن عبدالوہاب ہے۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی نوجوانی سے ہی تفسیر، حدیث اور عقائد کی کتب کے مطالعے میں دلچسپی رکھتا تھا اور خاص طور پر ابن تیمیہ اور ابن قیم کی کتابوں کو بہت اہمیت دیتا تھا۔ لہذا نظریاتی اعتبار سے ابن تیمیہ کو محمد بن عبدالوہاب کا فکری مرشد قرار دیا جاسکتا ہے۔ البتہ بعض محققین کا خیال ہے کہ محمد بن عبدالوہاب کا حسب نسب ایک یہودی گھرانے سے جا ملتا ہے، جو ترکی کے شہر جہودان دونمے میں رہائش پذیر تھے اور خود کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔ محمد بن عبدالوہاب کو ابن تیمیہ کی کتابوں سے خاص دلچسپی تھی، لہذا اس نے ان میں غوروخوض کرنا شروع کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد بن عبدالوہاب نے ابن تیمیہ کے افکار و نظریات کو عملی جامہ پہنایا۔ محمد بن عبدالوہاب نے "وہابی" نامی فرقے کی بنیاد رکھی، جو 12 ویں صدی ہجری سے اب تک چلا آرہا ہے۔ 
 
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلفی اور تکفیری طرز فکر رکھنے والے افراد میں محمد بن عبدالوہاب کے افکار اس قدر رائج کیوں ہیں؟ اس کا جواب سادہ ہے اور وہ یہ کہ محمد بن عبدالوہاب کے افکار انتہائی سطحی اور سادہ ہیں، لہذا انہیں سمجھنے کیلئے زیادہ سوچ بچار اور غوروفکر کی ضرورت نہیں اور آسانی سے سمجھ آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلفی اور تکفیری عناصر جو دینی تعلیمات کو عقل کی روشنی میں پرکھنے کے قائل نہیں، بہت آسانی سے ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے افکار کو قبول کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر محمد بن عبدالوہاب ایسے افراد پر جو پیغمبر اکرم (ص) اور اولیاء الٰہی کے مزار مبارک کی زیارت کو جاتے ہیں کفر کا فتویٰ لگاتا ہے۔ لہذا یہ کہنا درست ہوگا کہ محمد بن عبدالوہاب کی سلفی تحریک جس نے حنبلی مذہب کی آغوش میں جنم لیا اور ابن تیمیہ کے افکار و نظریات کو لے کر آگے بڑھی، قرآن و سنت سے براہ راست مراجعہ پر مبنی تھی اور ان کا بنیادی مطالبہ اسلامی تعلیمات کو دوسرے اسلامی فرقوں کی تعلیمات سے پاک کرنا تھا۔ تقلید کی مخالفت اور دو مذہبی فرقوں شیعہ اور صوفیہ سے ٹکراو اور ان کے بعض عقائد اور رسوم و رواج کو بدعت قرار دینا، اس تحریک کی چند واضح خصوصیات تھیں۔ 
 
محمد بن عبدالوہاب کی جانب سے پیش کردہ توحید کا مخصوص تصور اس بات کا باعث بنا کہ سلفی اور تکفیری گروہ شیعہ فرقے پر شرک اور کفر کی تہمت لگانے لگیں اور اپنے مخصوص عقائد کی بنیاد پر دوسرے مسلمان فرقوں کو بھی اپنے حملوں کا نشانہ بنانے لگیں۔ بزرگ علماء کے آثار اور مزاروں کی نابودی، شیعہ کتب کی مخالفت، اہلسنت کی تاریخی، حدیثی اور تفسیری کتب میں تحریف ڈالنا، کتابوں کو مختصر کرنا (کتابوں کے وہ حصے جو ان کے عقائد سے ہم آہنگ نہیں تھے، کو مختصر کرنے کے بہانے حذف کر دیا کرتے تھے اور یہ موقف اختیار کیا کرتے تھے کہ ان کا مقصد ان کتابوں کو عام فہم بنانا ہے) اور شیعہ مسلمانوں کو تہمتوں کا نشانہ بنانا وہابیوں کے اقدامات کے چند اہم نمونے ہیں۔ اس قسم کے اقدامات نے سلفی وہابی ٹولے اور تکفیری ٹولے کے درمیان قربتیں ایجاد کر دی ہیں۔ سید محمد امین، محمد بن عبدالوہاب کے عقائد و افکار کو مندرجہ ذیل انداز میں بیان کرتے ہیں:
 
الف)۔ مرحومین حتٰی پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے ایصال ثواب کیلئے مجالس کے انعقاد کا حرام ہونا۔ 
ب)۔ انبیاء اور اولیاء الہی کی قبور شریفہ پر ہر قسم کی عمارت اور گنبد کی تعمیر کا حرام ہونا۔ 
ج)۔ انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی زیارت، ان سے توسل کرنا اور بارگاہ خداوند میں انہیں اپنا شفیع قرار دینا حرام ہے۔ اسی طرح قربت کی نیت سے نذر نیاز تقسیم کرنا اور قربانی کرنا بھی حرام ہے۔ 
د)۔ ائمہ معصومین علیھم السلام کے حرم میں نماز ادا کرنا حرام ہے۔ حتٰی محمد بن عبدالوہاب کے پیرو تکفیری عناصر ائمہ معصومین علیھم السلام کے حرم مبارک کو نابود کرنے کو واجب قرار دیتے ہیں۔ 
ہ)۔ ہر اس شخص کی اطاعت واجب ہے جو تلوار کے زور پر حکومت بنا کر خود کو امام مسلمین کے طور پر پیش کرے۔ وہ حالات کے تناظر میں فیصلے کرتا ہے اور دوسروں پر اس کی اطاعت واجب ہے۔ ماضی کے افراد کے افکار و نظریات کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ 
و)۔ محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار ایسے تمام مسلمان فرقوں کو کافر قرار دیتے ہیں، جن کے افکار و نظریات ان سے مختلف ہیں اور اس بنا پر ان کے قتل کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ محمد بن عبدالوہاب نے حنبلی فرقے کے علاوہ باقی تمام فرقے کے افراد سے جنگ کی ہے۔ وہ حنبلی فرقے کو بھی ابن تیمیہ کے پیش کردہ نظریات و افکار کی روشنی میں پیش کرتا تھا۔ محمد بن عبدالوہاب اجتہاد کو مانتے ہیں، لیکن چار مسلمان فرقوں میں سے کسی کی پیروی کو جائز نہیں سمجھتے۔ محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار، تکفیری عناصر کی طرح یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام مسلمان ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہیں اور شرک کا شکار ہیں۔ ان کا کفر اصلی ہے اور وہ کفار سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ لہذا ان کا قتل واجب ہے اور ان کی جان اور مال ان پر حلال ہے۔ 
 
وہابی عقائد کے مطابق باقی فرقوں کے مسلمان کافر ہیں کیونکہ وہ انبیاء، صالحین اور ائمہ کی قبور کی عبادت کرتے ہیں۔ وہابیوں کی نظر میں باقی مسلمان ایسے عیسائیوں کی مانند ہیں، جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم کو خدا بنا رکھا ہے۔ اسی طرح وہابی مسلمانوں پر یہ تہمت بھی لگاتے ہیں کہ وہ مردوں سے مدد مانگتے ہیں اور ان کے نام کا ذکر پڑھتے ہیں اور ان کے ذریعے خدا سے شفاعت طلب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی دنیا میں سرگرم تکفیری اور سلفی ٹولے پیغمبر اکرم (ص)، اولیاء الہی اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے مزارات کو نابود کرنے کا عہد کرتے نظر آتے ہیں اور اسے اپنا شرعی وظیفہ سمجھتے ہیں۔ مختصر یہ کہ محمد بن عبدالوہاب کے مطلوبہ مذہب کی بنیاد اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر اور مشرک سمجھنے پر استوار تھی۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو آج تکفیریت کی نظریاتی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ لہذا تکفیریت اور وہابی عقائد میں گہرا گٹھ جوڑ پایا جاتا ہے۔ محمد بن عبدالوہاب نے اپنی کتابوں میں مسلمانوں پر کفر کے اعلانیہ فتوے لگا رکھے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اپنے خط "اربع قواعد و کشف الشبھات" میں لکھتا ہے: "مسلمانوں کا شرک بت پرستوں کے شرک سے بدتر ہے کیونکہ بت پرست صرف آسانی کے وقت شرک کرتے تھے اور مشکل حالات میں خدا کی مخلصانہ عبادت کیا کرتے تھے لیکن ان کا شرک دائمی ہے۔ یہ خدا کے ساتھ ساتھ ان افراد سے بھی مدد مانگتے ہیں، جو خدا کے مقربین میں سے ہیں۔"

نتیجہ:
ہر گروہ، جماعت، تحریک یا سیاسی ٹولے کو بہتر انداز میں پہچاننے کیلئے اس کے فکری اور نظریاتی رہنماوں کے افکار و نظریات کو جاننا انتہائی ضروری ہے۔ اس طرح سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اس گروہ، جماعت یا تحریک کی نظریاتی بنیادیں کیا ہیں۔ لہذا ہم نے تکفیری گروہوں کی نظریاتی بنیادوں کو جاننے کیلئے ان کے نظریاتی رہنماوں جیسے احمد بن حنبل، ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے افکار و نظریات پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ وہ مذہبی شخصیات تھیں، جن کے افکار و نظریات منطق و عقل کو مسترد کرنے، جدید فکری و سماجی افکار کی مخالفت اور ان سے مقابلہ اور اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو کافر و مشرک قرار دینے پر مبنی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مذہبی شخصیات نے اپنے افکار و نظریات کے ذریعے موجودہ تکفیری گروہوں کی پیدائش کا زمینہ فراہم کیا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 445939
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش