0
Saturday 18 Apr 2015 10:03

یمن کے خلاف جنگ میں مصر کی شمولیت کی وجوہات

یمن کے خلاف جنگ میں مصر کی شمولیت کی وجوہات
تحریر: وحید مرادی

یقینا انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں پر سعودی عرب کے ہوائی حملوں میں مصری جنگی طیاروں کی موجودگی ایسے تجزیہ نگاروں کیلئے تعجب کا باعث نہ تھی جو مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کی حکومت پر حکمفرما منطق سے بخوبی آشنائی رکھتے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سوال بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ مصری حکومت کی جانب سے یمن میں فوجی مداخلت کے اصلی محرکات کیا ہیں؟
 
مصر کی فوجی حکومت، ملک کے سیاسی میدان سے اخوان المسلمین کو نکال باہر کرنے کے بعد اب تک کئی معیشتی، سکیورٹی، تشخصی وغیرہ بحرانوں سے روبرو ہو چکی ہے جن کے واضح نمونے دو قطبی معاشرے کی تشکیل (اخوانی اور غیر اخوانی)، صحرای سینا میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کی شدت میں اضافہ اور مصر کے معیشتی نظام کی ناکامی کی صورت میں قابل مشاہدہ ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر السیسی حکومت نے ملکی مشکلات پر قابو پانے کیلئے اقتدار سنبھالتے ہی خلیج عرب ریاستوں سے قربتیں بڑھانے کی پالیسی اپنائی ہے جس کے نتیجے میں اس وقت مصر کی حکومت خلیج عرب ریاستوں کی خارجہ پالیسی میں ان کی پیروی کرتی نظر آتی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ یمن پر سعودی عرب کے اچانک حملے کے فورا بعد ہی مصری حکام یہ اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ "فیصلہ کن طوفان" میں 10 سے زیادہ ممالک شامل ہیں۔ 
 
یمن پر مصر کی فوجی جارحیت کا تاریخی پس منظر:
سعودی عرب کی سربراہی میں یمن کے خلاف جاری فوجی آپریشن "فیصلہ کن طوفان" میں مصر کی شمولیت درحقیقت گذشتہ ایک صدی کے دوران مصر کی جانب سے یمن کے خلاف دوسری فوجی مداخلت شمار ہوتی ہے۔ مصر کی مسلح افواج نے پہلی بار جمال عبدالناصر کے دوران صدارت میں سابق سوویت یونین کی مدد سے یمن پر فوجی حملہ انجام دیا تھا۔ 1962ء میں مصر کے قوم پرست حکمرانوں نے یمن میں سلطنتی حکومتی نظام کو ختم کر کے مصر جیسا سوشلسٹ نظام حکومت لانے کیلئے دسیوں ہزار مصری فوجیوں پر مشتمل عظیم لشکر یمن میں اتار دیا۔ لیکن اس وقت کے سعودی فرمانروا نے یمن کے خلاف مصر کی فوجی جارحیت کی مخالفت کی اور اپنے خام تیل کی پیداوار سے حاصل ہونے والے ڈالرز کی مدد سے یمنی سلطنتی نظام کو سرنگون ہونے سے بچا لیا۔ 
 
یہ جنگ تاریخ میں "مصر کے ویتنام" کے نام سے مشہور ہو گئی جس کے دوران مصر کے 10 ہزار سے زیادہ سپاہی ہلاک ہو گئے اور مصری حکومت بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب گئی۔ حتی بعض تاریخی اور سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاران 1967ء میں اسرائیل کے خلاف مصر کی عبرتناک شکست کی اصل وجہ یمن میں شکست کے باعث مصر کی مسلح افواج کے حوصلے پست ہونے کو بیان کرتے ہیں۔ اب جب سعودی عرب نے یمن کی انقلابی تحریک انصاراللہ کے خلاف فوجی حملوں کا آغاز کیا ہے تو مصر نے بھی اس جارحیت کی حمایت کرتے ہوئے اپنے 25 ایف 16 جنگی طیارے یمن ہر ہوائی حملوں میں شرکت کیلئے روانہ کئے ہیں اور 5 جنگی بحری جہاز بھی آبنائے باب المندب کی طرف بھیج دیے ہیں۔ 
 
یمن میں مصر کی فوجی مداخلت کی وجوہات:
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں مصری حکام کی جانب سے یمن کے خلاف جاری فوجی کاروائی میں شمولیت اختیار کرنے کی مندرجہ ذیل وجوہات اور اسباب بیان کئے جا سکتے ہیں:
 
1)۔ ماضی کی شکست کا ازالہ کرنے اور افسانوی شخصیت بننے کی کوشش: مصر کی مسلح افواج ہمیشہ سے طاقتور ترین عرب فوج کے طور پر جانی جاتی ہیں، لیکن اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے خلاف پے در پے شکست کے بعد ان کے حوصلے پست ہو گئے اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا وقار اور اعتماد کھو بیٹھیں۔ لہذا مصری فوج کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنا کھویا ہوا وقار اور عزت دوبارہ حاصل کر لے۔ اسی وجہ سے اس نے عراق ایران جنگ کے دوران بھی ایران کے خلاف عراق کی مدد کی۔ مصر میں اسلامی بیداری کی تحریک معرض وجود میں آنے اور نتیجتاً اس ملک میں اخوان المسلمین کے برسراقتدار آ جانے کے بعد ملکی فوجی پالیسیاں بہت حد تک اخوانی مذہبی پالیسیوں کے زیر اثر آ گئیں۔ لیکن جنرل عبدالفتاح السیسی کی جانب سے اخوانی صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر ملک کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لینے کے بعد دوبارہ مصری فوج کی عزت و وقار کا مسئلہ اجاگر ہو گیا اور نئی حکومت نے اس ایشو کو اپنی پہلی ترجیحات میں شامل کر لیا جس کی وجہ سے مصر کے فوجی صدر نے عراق، لیبیا اور یمن جیسے مسائل میں مداخلت کر کے مصری فوج کے ماضی کے وقار اور عزت کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ 
 
دوسری طرف اس نکتے کی جانب توجہ بھی ضروری ہے کہ عبدالفتاح السیسی یمن کے خلاف جاری فوجی کاروائی کا حصہ بن کر عرب دنیا میں ایک افسانوی شخصیت کے طور پر سامنے آنے کے خواہش مند ہیں۔ مصر کے صدر کیلئے عبدالفتاح السیسی کا نام آنے کی ابتدا سے ہی وہ اور ان کے حامی یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ ایک فوجی کمانڈر ہونے کے ناطے السیسی مصر کی کھوئی ہوئی عزت اور وقار کو واپس لوٹانے میں اہم کردار ادا کریں گے اور وہ درحقیقت آج کے دور کے جمال عبدالناصر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالفتاح السیسی کی شخصیت میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ عوام میں زیادہ مقبول ہیں لیکن لیبیا اور یمن کے خلاف جنگوں میں شرکت کے ذریعے عوام کے اندر موجود اس عقیدے کو مزید پختہ کیا جا رہا ہے۔ 
 
2)۔ مصری عوام کی توجہ ملک کے اندرونی مسائل سے ہٹانا: مصر 25 جنوری کے انقلاب کے بعد انتہائی مشکل حالات کا شکار ہے اور اسے کئی معیشتی، سکیورٹی، سیاسی اور سماجی بحرانوں کا سامنا ہے، جن کا اب تک کوئی مناسب راہ حل بھی نہیں نکالا گیا۔ اس وقت پورے ملک خاص طور پر صحرای سینا کی سکیورٹی صورتحال انتہائی خطرناک حد تک بگڑ چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق القاعدہ اور داعش سے وابستہ 25 مختلف دہشت گرد گروہ مصر کے مختلف علاقوں میں سرگرم عمل ہیں۔ جبکہ مصر کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس فورسز ابھی تک ان دہشت گردانہ سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ 
 
معیشت کے میدان میں بھی "بجٹ کے خسارے" اور "انرجی بحران" جیسی عظیم مشکلات مصر کی قومی خودمختاری اور وقار کو خدشہ دار کئے ہوئے ہیں۔ ان دو بحرانوں کے علاوہ سیاسی اور سماجی میدانوں میں بھی مصر کو شدید قسم کی بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ بے روزگاری، فرقہ وارانہ اختلافات اور ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عوام ناراضی دکھائی دیتے ہیں اور حکومت اور عوام کے درمیان ٹکراو روز بروز زیادہ شدید ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں السیسی حکومت ملک کی اندرونی مشکلات کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اس کوشش میں مصروف ہے کہ عوام کی توجہ کو ملک سے باہر امور کی طرف منتقل کر دے تاکہ اس طرح اپنی ناکامیوں پر عوامی اعتراض اور دباو سے بچ سکے۔ لہذا یمن کے خلاف جاری فوجی جارحیت میں علامتی طور پر شرکت کے ذریعے مصری حکومت یہ مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ 
 
3)۔ خلیج عرب ریاستوں کی حمایت کا حصول: عبدالفتاح السیسی اور اس کے ساتھی، حکومت سنبھالنے کے کچھ ہی عرصہ بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ اکیلے ملک کو درپیش بحرانوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، لہذا انہوں نے ملک سے باہر ایسی قوتوں کی تلاش کرنا شروع کر دی جو ان کی مدد کر سکیں اور اپنی خارجہ پالیسی کو ایسے ممالک سے ہم آہنگ کرنا شروع کر دیا۔ چونکہ مصر کے عوام میں مغربی ممالک کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے لہذا اس راہ حل کیلئے مغربی ممالک کے ساتھ دوستی اور قربتیں بڑھانا ان کیلئے مقدور نہ تھا۔ دوسری طرف خلیج عرب ریاستیں، جو عرب دنیا کی امیرترین ریاستیں جانی جاتی ہیں، مختلف وجوہات جیسے ماضی کے رابطے، روزگار کی فراہمی، دسیوں ہزار مصری شہریوں کا خلیج عرب ریاستوں میں مقیم ہونا، خلیج عرب ریاستوں کی سلطنتی حکومتوں کی جانب سے مصر کے اخوان مخالف حکمرانوں کی حمایت کا اعلان وغیرہ کی بنا پر مصری حکام کے سامنے بہترین انتخاب تھا۔ 
 
مصر میں عبدالفتاح السیسی کے برسراقتدار آنے سے لے کر اب تک خلیج عرب ممالک خاص طور پر کویت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے نئی مصری حکومت کو انرجی برآمدات کے علاوہ 12 ارب ڈالر کے مفت قرضے بھی فراہم کئے ہیں۔ لیکن سعودی فرمانروا ملک عبداللہ کی وفات اور عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت گر جانے کے باعث مصر کے ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ مذکورہ خلیج عرب ریاستوں کی جانب سے مصر کو دی جانے والی مدد میں کمی کا امکان پایا جاتا ہے۔ یہ افواہیں مصری حکام کی پریشانی کا باعث بنی ہیں۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مصر کی فوجی حکومت سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک پر اپنا خلوص نیت اور سچائی ثابت کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کیلئے یمن کے خلاف جاری جنگ میں اپنی فعالیت دکھا رہی ہے۔ 
 
4)۔ آبنائے باب المندب پر انصاراللہ یمن کے قبضے کا خوف: مصری حکام کے اعلان کے مطابق، انصاراللہ یمن کے خلاف جاری فوجی کاروائی میں ان کی شمولیت کی اہم ترین وجہ ان کے بقول اس ایران نواز گروہ کی جانب سے آبنائے باب المندب پر مسلط ہو جانے کا خوف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس آبنائے پر انصاراللہ یمن قابض ہو جاتی ہے تو اس سے خطے میں طاقت کا توازن اسلامی جمہوریہ ایران کے حق میں ہو جائے گا کیونکہ اس اہم ترین عالمی آبی شاہراہ پر انصاراللہ کا قبضہ درحقیقت ایران کا قبضہ ہے۔ مزید برآں، آبنائے باب المندب پر انصاراللہ کے قبضے کے اثرات مصر کی معیشت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اس وقت مصر کی سالانہ آمدن میں سے 5 ارب ڈالر آبنائے باب المندب کے راستے ہونے والی تجارت سے حاصل ہوتے ہیں اور اس آبنائے پر یمن کی انقلابی قوتوں کا قبضہ ہونے سے یہ آمدن کم ہونے کا خطرہ ہے۔ لہذا بہت آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب کی سکیورٹی مصری حکومت کیلئے کس قدر اہم ہے۔ اس سلسلے میں دیکھا گیا ہے کہ مصر کی سریع الحرکت فورس، جس کا اصلی مرکز صوبہ سویز ہے اور اس کی اصلی ذمہ داری بحیرہ احمر کی سکیورٹی فراہم کرنا اور اس پر نظر رکھنا ہے، یمن کے خلاف فیصلہ کن طوفان نامی آپریشن شروع ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی آبنائے باب المندب کے اردگرد تعیینات ہو چکی ہے۔ 
 
نتیجہ:
مصر کی مجموعی صورتحال اور اس ملک کو درپیش بحرانوں کے پیش نظر، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مصری حکومت چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے یمن کے خلاف جاری فوجی کاروائی میں شمولیت پر مجبور ہے۔ یہ جنگ ایک طرف عبدالفتاح السیسی کی حکومت کو اعتبار فراہم کرنے اور عوام کی توجہ اندرونی مسائل سے ہٹانے میں بہت موثر کردار ادا کر رہی ہے اور دوسری طرف مصری حکومت کی جانب سے خلیج عرب ریاستوں کے ساتھ اپنی وفاداری ظاہر کرنے میں بھی اہم ثابت ہو رہی ہے۔ لہذا السیسی حکومت نے اپنے عوام کی مرضی کے خلاف یمن کے خلاف جاری فوجی مداخلت میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح مصر حکومت کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اس فیصلے کے اچھے اثرات برآمد نہیں ہوں گے۔ 
خبر کا کوڈ : 455200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش