0
Wednesday 29 Apr 2015 23:19

دو داخلی چیلنج اور ہماری ذمہ داری

دو داخلی چیلنج اور ہماری ذمہ داری
تحریر: ارشاد حسین ناصر

بطور ملت تشیع اس وقت پاکستان میں ہمیں کئی چیلنجز کا سامنا ہے، یہ چیلنجز دو قسم کے ہیں، ایک داخلی اور دوسرے خارجی۔ داخلی چیلنجز اس لیے سخت اور توجہ طلب ہیں کہ اگر ہم داخلی طور پر اپنے مسائل اور چیلنجز سے نمٹ لیں تو کئی خارجی مسائل خود بخود حل ہوجائیں، ویسے بھی خارجی چیلنجز کا انحصار داخلی حالات پر ہی ہوتا ہے۔ اس میں کسی کو شک نہیں کہ داخلی طور پر سب سے بڑا مسئلہ اور چیلنج ملت اور قوم کا اتحاد ہے۔ ہماری قوم اس وقت کئی گروہوں اور جماعتوں و تنظیموں اور اداروں میں تقسیم ہے۔ یہ پراگندگی اور تفریق و تفاوت ملت کی اجتماعی ترقی اور خوشحالی و مضبوطی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اگر ملت یکجان، متحد اور ملت کے بزرگان شیر و شکر ہوجائیں تو پاکستان میں ہماری جتنی آبادی ہے، ہم ہی سب سے مضبوط اور قوی قوم کے طور پر دکھائی دیں۔ اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ کوئی بھی سیاسی و مذہبی جماعت یا حکمران اور ریاستی ادارے کسی بھی بڑے سے بڑے فیصلہ میں اس قوم کو نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔

دوسرا بڑا چیلنج جو داخلی حوالے سے ہماری توانائیوں کو بہت زیادہ ضائع کر رہا ہے اور شہروں و دیہاتوں تک اس کے اثرات دیکھے جا رہے ہیں، یہ چیلنج ایک سازش ہے جسے عالمی قوتوں کی پشت پناہی و سرپرستی حاصل ہے۔ عالمی قوتوں میں سے اس حوالے سے برطانیہ کا نام سرفہرست لیا جاسکتا ہے، جہاں سے فرقہ واریت کا بیج بونے اور مذاہب میں مزید انتشار اور عقائد کو بگاڑنے نیز مسلمانوں کو باہم لڑانے کیلئے اختلافی امور کو ہوا دینے کیلئے ہر طرف کے ایسے علماء نما مسلسل سازش پر عمل پیرا ہیں اور اس کام میں ان مغربی ممالک میں مکمل آزادی ہے، ان ممالک میں آزادی اظہار کا جتنا شور ہے اس کی قلعی اس وقت کھل جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان ممالک میں ایران کا انٹرنیشنل چینل پریس ٹی وی، لبنان کا المنار، العالم اور مزاحمت اسلامی کی صحیح تصور کشی کرنے والے دیگر چینلز پر پابندی لگائی گئی ہے، جبکہ ایسے چینلز جن سے صبح و شام مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو ابھارنے اور ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کرنے کی لائیو کالز اور تبصر چلتے ہیں، پر کوئی پابندی نہیں بلکہ ایسے چینلز کو شائد یہ حکومتیں در پردہ سے ہٹ کر کھلے عام کسی فلاحی فنڈ سے رقوم بھی عطیہ کرتی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ استعمار یہ کام چاہتا ہے، وگرنہ کیسے ممکن ہے کہ مغربی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کرنے کی اس قدر آزادی اور کھل کھیلنے کی اجازت ہو۔

بات ہو رہی تھی ہمارے داخلی چیلنجز کی، جس میں ہمارے اسٹیج پر آنے والوں کی طرف سے عقائد کے نام پر مکتب کی شناخت کو داغدار کرکے قوم و ملت میں تقسیم کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ آج یہ ایک فتنہ کی صورت میں سامنے آیا ہے جس کا تعلق مغرب سے ہے، جس کا اشارہ ہم نے گذشتہ سطروں میں کیا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں اس میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ دراصل ہمارا تبلیغات اور تربیت کا اصل میدان مجالس ہیں، جہاں اُصولی طور پر آئمہ طاہرینؑ کی زندگیوں کے پوشیدہ گوشے سامنے آنے چاہیئں، مگر منبر پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جن کی مکتب سے وابستگی اور تعلق مشکوک اور منفی ہے۔ یہ لوگ حقیقت میں جہالت کے پروردہ اور ایکٹنگ کے ماسٹرز ہیں۔ لوگوں کے سامنے جس انداز میں بیان کرتے ہیں، اس سے لوگ متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا کوئی معیار نہیں، ان کی کوئی درسگاہ نہیں کہ کہ جس سے فارغ التحصیل ہو کر یہ لوگ منبر پر آئیں اور علوم آل محمد ؑ بیان کریں۔

اب حالت یہ ہے کہ یہ جس کے خلاف چاہیں فتویٰ دے دیں، جسے چاہیں دین سے باہر نکال دیں، جسے چاہیں ولد الزنا قرار دے دیں اور جو دل میں آئے بیان کر دیں، چاہے طول تاریخ کے مجتہدین کے فتاویٰ کی نفی کر دیں، انہیں کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہوتا، اگر کسی مجلس میں کوئی کھڑا ہوکر اعتراض کر دے تو اس کے خلاف بھی فتویٰ صادر کر دیا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں سب سے زیادہ قصور بانیان مجالس کا ہے، جو خطباء کو دعوت دیتے ہیں اور انہیں پابند نہیں کرتے کہ وہ کوئی ایسی بات نہ کریں، جس سے ملت میں تقسیم کا عمل ہو، تفریق پیدا ہو یا باہمی لڑائی و جھگڑے کا ماحول پیدا ہو، بلکہ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر اوقات بانیان مجالس ہی ایسے ذاکرین و خطباء کو فتنہ پروری اور متنازعہ موضوعات چھیڑنے کی تاکید کرتے ہیں۔ جس سے روز بروز فتنہ و فساد اور باہمی تفریق میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، اب تو مساجد اور امام بارگاہیں بھی الگ ہونے لگی ہیں۔

ہمیں یہ بات تسلیم کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں ہو رہا کہ مکتب جعفری کو اس وقت یہ چیلنج گھن کی طرح کھا رہا ہے اور افسوس ان لوگوں پر ہے جو خاموشی سے اپنے مدارس، اپنی درسگاہوں، اپنے اداروں اور اپنی تنظیموں میں مصروف ہیں۔ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور علماء و ذمہ داران نے ان کا راستہ نہ روکا، ان کا علمی و منطقی محاکمہ و محاسبہ نہ کیا اور اصل دین، اصل مکتب اہلبیتؑ کو نوجوان نسل اور قوم تک نہ پہنچایا تو سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا اور دین سے محبت کرنے والے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ پھر ایک نئی شیعت کا غلبہ ہوگا، یہ نئی شیعت بقول شریعتی سیاہ شیعت اور اس کی تصویر اس طرح بھیانک ہوگی کہ دیکھی نہ جائے گی۔ جس میں علماء و مجتہدین کو گالیاں دینا، مسجد کو قتل گاہ امیرالمومنین ؑ قرار دے کر اس سے نفرت کرنا، جہاد یا حکومت سازی کے لئے جدوجہد کرنا، امام وقت سے ٹکر لینا، مظلوموں کی مدد و حمایت کے لئے اور مقدسات کے دفاع و مضبوطی کیلئے قیام کرنا گناہ عظیم، نماز میں شہادت ثالثہ نہ پڑھنا ولد الزنا ہونا، امامؑ کے ظہور سے پہلے جمعہ کی ادائیگی حرام کام کرنا، ماتمی ہونے کے لئے کم از کم تلوار اور سوئے کا پُرسہ کرنا واجب، عزادار ہونے کے لیے غضنفر تونسوی، جعفر جتوئی، عاقل زیدی، حافظ تصدق، ضمیر اختر اور اس قماش کے مداریوں کی مجالس میں شرکت اور واہ واہ کرنا فرض قرار پائے گا۔

اگر کوئی انقلاب یا امام خمینیؒ کی بات کرے گا تو غدار کہلائے گا، اگر کوئی مقدسات اسلامی، روضہ ہائے مقدس کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے گا تو خدا سے ٹکر لے گا، اس لئے کہ اس شیعت میں ان مقامات مقدس کی حفاظت کا ذمہ خدا نے لیا ہوا ہے۔ اس نئی شیعت میں اللہ باری تعالٰی کی ذمہ داریاں بھی محدود کر دی جائیں گی اور اللہ کے سارے کام فرزند ابو طالب علی ؑ کے سپرد کر دیئے جائیں گے۔ اللہ کا بس ایک ہی کام ہوگا کہ وہ ان (علی ابن ابی طالبؑ) سے رابطہ رکھے، کائنات کی ہر چیز کی خبر اس تک پہنچا دی جائے گی۔ یعنی اللہ علی کا رب اور علی رب العالمین ہوں گے (نقل کفر کفر ناباشد)۔ کتب احادیث کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس مکتب کے رئیس و بانی حضرت امام جعفر صادق ؑ نے تیرہ صدیاں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ "اپنے نوجوانوں کو غالیوں سے بچائو کہ وہ انہیں بگاڑ نہ دیں، کیونکہ غالی اللہ کی بدترین مخلوق ہیں۔" (بحارالانوار، علامہ مجلسی)

اگر ہمارے مکتب کے ذمہ داران اور وہ جن کا فریضہ ہے، جو وارثان مکتب کہلاتے ہیں، انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا اور انہوں نے معاشرے میں ایسے ناسوروں کا علمی محاکمہ کیا ہوتا تو آج نوبت اس قدر خطرناک صورتحال اختیار نہ کرچکی ہوتی۔ امام جعفر صادقؑ نے تو غالیوں سے بچنے کی بات کی ہے، ہم نے ان سے بھی اگلی سٹیج یعنی نصیریت کو اپنے اوپر بڑی آسانی سے مسلط کرلیا ہے۔ میرے خیال میں اب حل ایک ہی ہے کہ علماء حقہ سَر پر کفن باندھ کر اس فتنہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ چار کروڑ شیعوں میں سے اگر چند سینکڑے لوگ بھی اس جانب متوجہ ہوکر اس درد کا درمان کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے تو اللہ کی مدد شامل حال ہوجائے گی اور دین کا بگاڑ کرنے والے اپنے آقائوں کی طرف بھاگ جائیں گے۔ دیکھیں کسے یہ توفیق حاصل ہوتی ہے۔ کون آگے بڑھتا ہے، کون سَر پہ کفن باندھتا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء نے تو سَر پر کفن باندھ کے توحید کا پیغام پہنچایا۔ ان کے وارث۔۔۔۔۔!
خبر کا کوڈ : 457446
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش