0
Sunday 5 Jul 2015 10:30

مسئلہ فلسطین، تاریخی تجربات کی روشنی میں

مسئلہ فلسطین، تاریخی تجربات کی روشنی میں
تحریر: رضا برکتی

تاریخ بارہا انسانوں پر یہ ثابت کر چکی ہے کہ آزادی، خودمختاری اور انسانی حقوق ایسی مستحکم اقدار ہیں جو تمام جنگوں اور لڑائی جھگڑوں کے باوجود آخرکار کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ انسانی ضمیر جو اس کے عمل اور کردار کو آگے لے کر چلتا ہے، شاید پوری تاریخ کے دوران انسانیت کا معتبر ترین معیار قرار پا سکتا ہے۔ لہذا میں اس تحریر میں انسانی ضمیر کی زبان سے بات کرنا چاہتا ہوں جو ہر دین، مذہب، نسل اور قوم سے تعلق رکھنے والے انسان میں موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج جو کچھ بھی تشخص، آزادی، حق حیات اور آخرکار ہماری اور آپ کی موجودہ نسل کے وجود کے طور پر باقی رہ گیا ہے، گذشتہ تاریخ اور دنیا بھر میں موجود بیدار انسانوں کے ضمیر کی آواز کا نتیجہ ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آزادی پسندوں کا انسانی ضمیر، سیاسی، سماجی اور بشری حالات کے بارے میں فیصلہ کرنے کا بہترین معیار ثابت ہو سکتا ہے۔

صہیونی مفکرین کے نظریات و افکار کی ترویج کے باعث یورپ سے بڑی تعداد میں یہودیوں نے سرزمین موعود کی طرف ہجرت کرنا شروع کر دی۔ صہیونی مفکرین نے دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین کی جانب نقل مکانی کرنے کیلئے پورے زور و شور سے نظریاتی پروپیگنڈا انجام دیا۔ 1800ء کے آغاز پر مختلف اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں یہودیوں کی کل آبادی 25 لاکھ سے 30 لاکھ تک تھی جس کا 90 فیصد حصہ یورپ میں مقیم تھا جبکہ صرف 5 ہزار یہودی فلسطین کی سرزمین میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس وقت فلسطین کی کل آبادی تقریبا اڑھائی سے تین لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔ اس آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی، 25 سے 30 ہزار افراد عیسائی اور چند ہزار افراد دروزی تھے۔ 1897ء میں باسل کانفرنس تک فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی کے پانچ بڑی موجوں میں سے ایک موج انجام پا چکی تھی۔ نقل مکانی کی یہ موج 1881ء سے آغاز ہو کر 1900ء تک اختتام پذیر ہوئی تھی جس کے دوران دنیا کے مختلف حصوں سے تقریبا 25 ہزار صہیونی جوان اور نظریاتی افراد سرزمین موعود منتقل ہو گئے۔ فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی کی دوسری لہر 1904ء سے شروع ہوئی اور 1913ء تک جاری رہی۔ اس دوران عالمی صہیونی نیٹ ورک اور یورپی سرمایہ کاروں کی مالی مدد کے ذریعے یہودی برادری میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

دنیا بھر سے یہودیوں کی فلسطین کی جانب نقل مکانی کی تیسری موج 1919ء سے 1923ء کے درمیان واقع ہوئی۔ اس دوران تقریبا 37 ہزار نئے یہودی مہاجر فلسطین منتقل ہو گئے اور یوں فلسطین میں یہودیوں کی آبادی 84 ہزار تک جا پہنچی۔ اسی طرح 1924ء سے لے کر 1928ء تک فلسطین کی جانب یہودیوں کی نقل مکانی کے چوتھے مرحلے کے دوران تقریبا 70 ہزار یہودی فلسطین میں داخل ہو گئے۔ اس مرحلے میں فلسطین آنے والے یہودیوں کی اکثریت شہری باشندوں اور تاجر افراد پر مشتمل تھی۔ فلسطین کی جانب یہودیوں کی ہجرت کا پانچواں مرحلہ 1932ء سے 1939ء کے درمیان انجام پایا۔ یہ زمانہ یورپ میں قتل و غارت اور دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ اس مرحلے کے اختتام پر فلسطین میں یہودیوں کی آبادی اپنی اونچی ترین سطح یعنی 4لاکھ 45 ہزار نفوس یا فلسطین کی کل آبادی کے 30 فیصد تک جا پہنچی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخ میں ہمیشہ فلسطین کی مقامی آبادی کے بارے میں موجود اعداد و ارقام کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 1947ء تک فلسطین کی مقامی آبادی 15 لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔ فلسطین کی مقامی آبادی کے بارے میں اعداد و ارقام پر پردہ ڈالے جانا ایک طے شدہ منصوبے کے تحت انجام پایا تھا۔ اس سازش کے ذریعے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ فلسطین یا سرزمین موعود میں دنیا بھر سے یہودیوں کی نقل مکانی سے پہلے یہ سرزمین خالی پڑی تھی اور وہاں رہنے والا کوئی نہ تھا اور یہودی مہاجروں نے اس زمین کو آباد کیا ہے۔ یہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ صہیونیت درحقیقت انیسویں صدی میں یورپ پر حکمران سیاسی فضا کی پیداوار ہے۔ یہ ایسی فضا تھی جس کے دوران سب یہی سوچ رہے تھے کہ تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ یورپ کو یہ حق حاصل ہے یا اس کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ دنیا کے جس حصے میں چاہے اپنے پنجے جما لے اور اسے اپنی کالونی میں تبدیل کر لے۔

صہیونزم اس قسم کی سوچ کی پیداوار ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی استعماری قوتیں صہیونیت کے اسٹریٹجک اتحادی میں تبدیل ہو گئیں۔ یہ وہ جذبہ تھا جو نہ صرف صہیونیوں بلکہ ان کے بڑے بڑے غیر یہودی حامیوں میں بھی پایا جاتا تھا۔ لارڈ بالفور جس نے اپنے مشہور اعلامیہ کے ذریعے اسرائیل نامی ریاست کی تشکیل کا راستہ ہموار کیا، لکھتا ہے کہ صہیونزم کی بنیادیں صحیح یا غلط طور پر پرانی روایات، موجودہ ضروریات اور مستقبل کی آرزووں پر استوار ہیں اور یہ آرزوئیں ان 1700 عرب باشندوں کی مرضی سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں جو اس وقت اس تاریخی سرزمین پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ صہیونیت کے مغربی حامیوں نے اسی طرح سرزمین فلسطین پر رہنے والے مقامی باشندوں کے وجود کا انکار کر دیا۔ اسرائیل کا معروف ترین وزیراعظم "گولڈا میئر" اس موقف پر حد سے زیادہ تاکید کیا کرتا تھا کہ مقامی فلسطینی باشندے نامی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی تھی اور اس سرزمین کو انہوں نے آباد کیا ہے۔ اس موقف کا واضح ترین بیان اس نعرے کی صورت میں منظرعام پر آیا کہ "سرزمین سے عاری باشندوں کیلئے باشندوں سے عاری سرزمین"۔ تاریخی شواہد و مدارک کی روشنی میں 1948ء تک یہودیوں نے فلسطین کا صرف 6 فیصد حصہ خریدا ہوا تھا اور اکثر گھروں کو یا تو مسمار کر دیا گیا تھا یا ان پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا تھا۔

عالمی صہیونیت اور اس کی حامی مغربی طاقتوں کی جانب سے اس مقامی فلسطینی آبادی کے وجود کا انکار کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود جو تقسیم سے پہلے دریای اردن اور بحیرہ روم کے درمیان واقع اپنی تاریخی اور آبائی سرزمین میں زندگی بسر کر رہی تھی، بیسویں صدی عیسوی کے آغاز سے ہی مقامی باشندوں میں فلسطینی تشخص اور فلسطینی ہونے کا احساس اجاگر ہونا شروع ہو گیا۔ ان سالوں میں غیر معمولی انداز میں فلسطینی تشخص تشکیل پا کر منظرعام پر آیا جو صہیونزم کی جانب سے درپیش خطرات سے بتدریج آگاہی کے نتیجے میں 1936ء سے 1939ء کے دوران صہیونی مخالف جدوجہد کے آغاز کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا اور اس کے بعد فلسطینیوں کی جلاوطنی، ان پر صہیونی ظلم و ستم، ان کی سرزمین پر غاصبانہ قبضے اور فلسطین کی تاریخی سرزمین چھن جانے کے دوران بھی 1967ء تک باقی رہا۔ پی ایل او (Palestine Liberation Organization) اور دیگر تنظیموں کی جانب سے فلسطینی مجاہدین کے مسلح گروہوں کی تشکیل اسی تشخص کی گہرائی اور پھیلاو کی علامت ہے اور کوشش کی جاتی رہی کہ اس فلسطینی تشخص کو ہر قیمت پر باقی رکھا جائے۔

یہ فلسطینی تشخص اس قدر معتبر اور گراں بہا تھا کہ مختلف تاریخی مراحل میں پیش آنے والے شدید حالات اور مشکلات کے دوران نہ صرف ختم نہ ہوا بلکہ 1987ء کے بعد عوامی سطح پر ظاہر ہونا شروع ہو گیا اور غیور فلسطینی عوام بے ساختہ طور پر غاصب صہیونی رژیم کے خلاف میدان میں اتر آئے۔ اس خود ساختہ عوامی جدوجہد کو "انتفاضہ" کا نام دیا جاتا ہے۔ انتفاضہ کی پہلی لہر غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں ظاہر ہوئی جو کل فلسطینی سرزمین کے 22 فیصد رقبے پر مشتمل ہیں۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی وحشیانہ بربریت اور قتل و غارت کے مناظر، اسرائیل کی جانب سے غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر میں بے پناہ اضافہ، مغربی کنارے کے باسیوں کو زندگی کی بنیادی ترین سہولیات سے محروم رکھے جانا اور مقبوضہ فلسطین کے اندر بسنے والے عرب فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کئے جانے پر مبنی اقدامات گاہے بگاہے عالمی میڈیا پر جلوہ گر ہوتے رہتے ہیں۔ دنیا میں بسنے والے بیدار ضمیر افراد اکثر اوقات مظلوم فلسطینیوں پر غاصب صہیونی رژیم کے ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے رہتے ہیں۔

اسرائیلی حکام کی جانب سے آزاد فلسطینی ریاست کی جغرافیائی حدود کی تعیناتی اور فلسطینیوں کو ان کے بنیادی ترین انسانی حقوق عطا کرنے کی غرض سے انجام پانے والے مذاکرات سے بے اعتنائی، اس رژیم کے توسیع پسندانہ عزائم اور انسانی حقوق سے محروم درد کشیدہ فلسطینی قوم کے خلاف ظالمانہ رویوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم مسئلہ فلسطین میں ہر گز یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ فلسطین کے مقامی یہودی باشندوں کے حقوق پامال کئے جائیں یا انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جائے بلکہ ہماری نظر میں سب انسان برابر ہیں اور ان سب کو ایک جیسا آزادی اور خودمختاری کا حق حاصل ہے۔ لہذا ہم تاریخ میں کسی بھی مذہب، قوم یا نسل کے خلاف انجام پانے والے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ سرزمین فلسطین کی تقسیم سے قبل وہاں پر مقیم مقامی مسلمان، یہودی اور عیسائی باشندوں پر مشتمل ایک ریفرنڈم منعقد ہونا چاہئے اور مسئلہ فلسطین کے عادلانہ حل کا واحد یہی راستہ ہے۔ ایسا مسئلہ جس کے باعث آج تک ہزاروں بیگناہ فلسطینی بچوں، خواتین اور بوڑھوں کا خون بہایا جا چکا ہے۔ ہم سرزمین فلسطین کے دریای اردن سے بحیرہ روم تک کے علاقے کے حقیقی تشخص اور اس میں بسنے والے مقامی باسیوں کے حقوق پر تاکید کرتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اس سرزمین پر رہنے کا بنیادی معیار بھی یہی دو عنصر ہونے چاہئیں۔ سرزمین فلسطین کے مقامی باشندوں کو اپنی مرضی کا سیاسی نظام بنانے کا حق حاصل ہے اور باہر سے نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مقامی باشندوں پر اپنی مرضی کا سیاسی نظام تھونپ سکیں۔ ہمار یہ عقیدہ کسی قسم کے سیاسی اہداف یا نظریاتی مصلحتوں کے تحت نہیں بلکہ دنیا کے ہر باضمیر انسان کے دل کی آواز ہے۔ قارئین محترم سے میری درخواست ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو صرف اور صرف ایک معیار پر تولنے کی کوشش کریں اور وہ معیار انسانی ضمیر کی آواز ہے۔ انسانی ضمیر کی آواز ہمیشہ سے آزادی پسند انسانوں کو ان کے جائز حقوق دلوانے کیلئے بہترین معیار ثابت ہوا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 471558
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش