0
Monday 31 Aug 2015 01:38

وکلا تنظیموں کا گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کیلئے باضابطہ تحریک چلانے کا اعلان

وکلا تنظیموں کا گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کیلئے باضابطہ تحریک چلانے کا اعلان
رپورٹ: میثم بلتی

گلگت بلتستان کی اعلٰی اور ماتحت عدلیہ کی تمام تنظیموں نے مشترکہ طور پر گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کیلئے باضابطہ تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس مقصد کیلئے اٹھارہ رکنی ایکشن کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے جو کہ آئینی حقوق کی تحریک کیلئے لائحہ عمل طے کریگی۔ ان خیالات کا اظہار وائس چیئرمین گلگت بلتستان بار کونسل شہباز خان ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ بار کے صدر اور نمائندگان نے دو روزہ کنونشن کے اختتام پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے دو روزہ کنونشن کا جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ بھی پڑھ کر سنایا۔ وکلاء کنونشن کے اعلامیہ کے مطابق پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ فیڈریشن آف پاکستان بلا تاخیر گلگت بلتستان کو تافیصلہ تنازعہ کشمیر پاکستان کا عبوری صوبہ بنائے، بصورت دیگر ایک آئین اور دستور کے تحفظ کیساتھ کم از کم آزاد کشمیر یا پھر مقبوضہ جموں کشمیر جیسا نظام حکومت دیا جائے، کیونکہ گلگت بلتستان کا خطہ بین الاقوامی طور پر متنازعہ ہے، یہاں کے عوام متنازعہ نہیں، عوام کو انکے بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے اس حساس ترین خطہ میں وزارت امور کشمیر گلگت بلتستان اسلام آباد کے مسلط کردہ نوآبادتی نظام کے تسلسل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، اس خطہ میں رائج نظام حکومت و عدل کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹر UNCIP کی تنازعہ کشمیر سے متعلق قراردادوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے 99ء میں الجہاد ٹرسٹ بنام وفاق پاکستان میں دیئے گئے فیصلہ اور احکامات کی روشنی میں حق حکمرانی، حق ملکیت اور آزاد عدلیہ کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کی بغیر کسی بیرونی امداد کے لڑی جانیوالی جنگ آزادی اور اس کے نتیجہ میں یکم نومبر 1947ء میں قائم ہونیوالی اسلامی جمہوریہ گلگت بلتستان کی ریاست کی انقلابی حکومت کے پاکستان سے غیر مشروط الحاق کو 68 سال گزر جانے کے باوجود اس الحاق کو تسلیم اور منظور کرنے سے گریز اور گلگت بلستان کے اس اہم ترین خطہ کو مسئلہ کشمیر سے منسلک اور متنازعہ قرار دیکر خود پاکستان کے اس خطے سے
وابستہ مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے اور یہاں کے عوام کو آئینی اور جمہوری حقوق سے مسلسل محروم رکھکر، درحقیقت گلگت بلتستان کی جنگ آزادی، معرکہ کارگل اور سوات، وزیرستان میں ضرب عضب میں پاکستان کے تحفظ و بقاء کی جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالے اور نشان حیدر پانیوالے گلگت بلتستان کے شہدا کی قربانیوں اور اس خطہ کے عوام کی پاکستان سے وفاداری اور وابستگی کی انتہائی توہین و تذلیل ہے۔ پرہجوم پریس کانفرنس میں وکلا نے کہا کہ گلگت بلتستان کا یہ خطہ بلاشبہ دفاعی، اقتصادی، جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسٹریٹیجک اثاثہ ہونے اور بے پناہ قدرتی وسائل کے باوجود اس خطے کے ایک مفتوحہ علاقے کو پاکستان کی معیشت پر بوجھ سمجھنے کی اسلام آباد کے حکمرانوں کی منفی سوچ اور مسئلہ کشمیر کی آڑ لیکر گگلت بلتستان کے عوام کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے 1947ء سے ہی FCR جیسے کالے قوانین کا نفاذ لیگل فریم ورک آرڈر، گورنس آرڈر 1994ء اور گلگت بلتستان گوررننس آرڈر 2009ء جیسے وزارت امور کشمیر کے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ گلگت بلتستان کے عوام کو محکوم اور غلام اور ابتک تیسرے درجہ کے شہری رکھنے کی وفاق کی پالیسی نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ حیران کن اور پریشان کن ہے، کیونکہ اس طرز سلوک کے نتیجہ میں اس خطے میں پاکستان سے دوری کے اسباب پیدا ہونے کے علاوہ علیحدگی پسند رجحانات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

مزید یہ کہ فیڈریشن آف پاکستان کی سیاسی حکومتوں کی اس خطہ کی بابت چشم پوشی، بے حسی، غفلت، وفاقی افسر شاہی کی آمرانہ روش اور اس خطہ کو اپنی نو آبادی سمجھ کر یہاں کے عوام کو آئینی و جمہوری حقوق سے محروم رکھنے کی مذموم پالیسی اس خطہ میں شدید مایوسی، بے چینی اور ہیجان کا باعث بنی ہے، لہٰذا اس صورتحال میں گلگت بلتستان کے وکلا پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس سنگین صورتحال کے عواقب اور نتائج کا ادراک کرینگے اور اس معاملہ پر بالکل اسی طرح فوری اور سنجیدہ نوٹس لینگے، جس طرح امریکن لوگر ترمیم کے معاملہ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا گیا تھا، بالکل اسی طرح گلگت بلتستان کے معاملات میں فوری مداخلت کرتے ہوئے
یہاں کے عوام کے ذہنوں میں اٹھنے والے طوفان، بے چینی اور شدید ترین احساس محرومی کے خاتمہ کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سیاسی حکومت اور وفاقی سول بیورورکریسی کو مجبور کیا جائے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کے احساسات اور خواہشات کے مطابق بلا تاخیر اور جمہوری حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ وکلا رہنماؤں نے کہا کہ وزارت امور کشمیر و جی بی اسلام آباد کے ابتک کے جملہ اقدامات بشمول پاکستان میں مروج قوانین کا گلگت بلتستان میں اپنے ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعہ اطلاق اور لیگل فریم ورک آرڈر LFO اور گورننس آرڈرز کے انتظامی احکامات کے ذریعہ گلگت بلتستان پر ریموٹ کنٹرول حکمرانی نہ صرف غیر قانونی، بلاجواز اور بلااختیار ہے بلکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 90 اور 91 کے تحت جاری و نافذ کردہ رولز آف برنس 1973ء کے انٹری نمبر 19 کی بھی سنگین خلاف ورزی قرار دیتا ہے کیونکہ اس رول کے تحت وزارت امور کشمیر و جی بی اسلام آباد، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی بابت قانون سازی کا کوئی بھی اختیار نہیں رکھتی اور اسے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے سیاسی اور انتظامی معاملات میں بھی دخل اندازی کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ لہٰذا وزارت امور کشمیر و جی بی اسلام آباد کے انتظامی احکامات کے ذریعہ قائم کئے گئے اداروں اور ان اداروں کے جملہ اقدامات کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر 2009ء جو کہ نہ تو قانون کا درجہ رکھتا ہے اور نہ ہی آئین بلکہ وزارت امور کشمیر اسلام آباد کا تدوین کردہ اور اور نافذ کردہ SRO786(1)2009 کی صورت میں محض ایک نوٹیفکیشن ہے، جو کہ اس کے نام کے اعتبار سے دنیا بھر کے لئے ایک دھوکہ اور پاکستانی عوام اور عدلیہ کے لئے مس گائیڈنگ انسٹرومنٹ ہے، کیونکہ یہ گورننس آرڈر درحقیقت گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں اور عوام کو باختیار بنانے کی بجائے صرف اور صرف وزارت امور کشمیر اسلام آباد اور اس کے ذیلی ادارہ گلگت بلتستان کونسل کو بااختیار بناتا ہے۔ گورننس آرڈر 2009ء کی یہ دستاویزات وزارت امور کشمیر کے سرکاری افسروں کی مرتب کردہ اور نافذ کردہ ایک ایسا ایگزیکٹو آرڈر ہے، جس میں اس دستاویز کی ترمیم کا بنیادی اور کلیدی اختیار
وفاقی حکومت کو حاصل ہے، جملہ اختیارات بھی اپنے پاس رکھ کر گلگت بلتستان کی منتخب قانون ساز اسمبلی اور اس کے تحت قائم ایگزیکٹو اتھارٹی کو میونسپل سبجیکٹس کی حد تک محدود رکھا ہے جبکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری کے جملہ اختیارات گلگت بلتستان کونسل کی جھولی میں ڈال دیا ہے، جو کہ وزارت امور کشمیر کے سکہ کا دوسرا رخ ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بجا ہوگا کہ گلگت بلتستان گورننس آرڈر 2009ء درحقیقت Empowerment & self Governance of Ministry ok K&GB over the trritorries of Giglit Baltistan order 2009 ہے، لہٰذا آج وفاق پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ وزارت امور کشمیر کے اس ایگزیکٹو آرڈرز کی بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق ایسا نظام دے، جس کی ضمانت ایک آئین اور دستور دیتا ہو۔

انہوں نے کہا کہ تلخ حقیقت کو ریکارڈ پر لانا مناسب سمجھتے ہیں کہ دنیائے سیاست کی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جب بھی اور جتنی بھی سیاسی حقوق کی تحریکیں چلی ہیں اور علیحدگی اور آزادی پر مبنی رہی ہیں، لیکن یہ امتیاز صرف گلگت بلتستان کے عوام کو حاصل ہے کہ وہ ازخود ڈوگروں سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود ابھی تک پاکستان سے الحاق کی تحریک جاری رکھنے کے پاداش میں پاکستان کا حصہ بننا تو درکنار اپنے بنیادی جمہوری اور آئینی حقوق تک سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔ مزید برآں آج کا یہ اجلاس اس حقیقت پر انتہائی حیرت اور افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ جب کبھی گلگت بلتستان کے عوام کو کچھ حقوق دینے کی بات چلتی ہے تو بعض عناصر حمایت کرنے کے بجائے مسئلہ کشمیر کی آڑ لے کر گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، لیکن جب کبھی گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے مارشل لاء زون ای کے شکنجہ میں کسے جاتے ہیں۔ جب گلگت بلتستان کی سرزمین کا 2000 مربع کلو میٹر رقبہ پاکستان چائنہ معاہدہ 1963ء کے تحت ہمسایہ ملک چین کو دے دیا جاتا ہے اور اس خطے کے ٰ600 کلو میٹر سے گزارتے ہوئے پاک چائنہ اکنامک کوریڈور بنانے کے معاہدے کئے جاتے ہیں، جب پاکستان کے عوام کو بجلی فراہم کرنے کیلئے دیامر بھاشہ ڈیم اور بونجی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ جیسے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذیلی اداروں کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام سے چھ قسم کے ٹیکس
وصول کئے جاتے ہیں اور گلگت بلتستان میں کسٹمز، ایف آئی اے اور نیب جیسے وفاقی اداروں کے دائرہ کار کو براہ راست گلگت بلتستان تک غیر قانونی طور پر بڑھایا جاتا ہے، تو نہ جانے یہ تمام عناصر کدھر دبک جاتے ہیں اور ان کی زبان پر تالے لگ جاتے ہیں، لہٰذا آج کا یہ اجلاس ایسے تمام عناصر کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور انہیں متنبہ کرتا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے معاملات میں دخل اندازی کا سلسلہ فوری طور پر بند کر دیں۔

انہوں نے بتایا کہ وکلاء کنونشن میں یہ بات بھی زیر غور آئی کہ ایگزیکٹو آرڈر 2009ء یعنی سلف گورننس آرڈر 2009ء جس میں مقامی عوامی نمائندوں، وکلاء، ملازمین کے حقوق صریحاً منافی اور حق تلفی عیاں ہے، جس کی آڑ میں اعلٰی عدالتوں، سپیشل کورٹس، کمیشنز، ٹرویبونلز اور دیگر انتظامی شعبوں میں مقامی وکلاء ججز اور گورنمنٹ ملازمین کے حقوق کو تلف کرکے غیر مقامی اور ریٹائیرڈ افراد کی تقرریوں پر شدید تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا گیا، جس سے بے روزگاری میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا آج کا یہ اجلاس پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ گورننس آرڈر میں فوری ترمیم کرکے تمام شعبہ جات میں سو فیصد مقامی افراد سے تقرری عمل میں لائی جائے، نیز جی بی قانون ساز اسمبلی کے اختیارات اور قانون سازی میں دیگر صوبائی اسمبلیوں کے ہم پلہ اور مساوی سطح پر لایا جائے۔ آج کا اجلاس قانون ساز اسمبلی کی قرارداد بابت آئینی صوبہ کی مکمل تائید و توثیق کرتا ہے۔ انہوں نے فیڈریشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے تمام معاملات میں گلگت بلتستان کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے، یہاں کے حقوق و حصص کا تعین کیا جائے اور گلگت بلتستان کو ڈیوٹی اور ٹیکس فری زون قرار دیا جائے۔ 68 سال بعد بھی گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی حقوق ایک آئینی/دستور کی ضمانت سے محروم ہیں، گلگت بلتستان کے عوام کی 68 سالوں کی تحریک الحاق پاکستان کو پاکستان کے حکمرانوں نے عملی طور پر رد کیا ہے، پاکستان کی سپریم کورٹ بھی اپنے 1999ء کے فیصلہ پر عملدر آمد کرانے سے قاصر رہی ہے۔

گلگت بلتستان بار کونسل، گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ بار ایسوسی ایشن، گلگت بلتستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور
دیگر افراد کی رٹ درخواستوں پر ابھی تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔ آزاد کشمیر کے ساتھ انضمام کے مقدامات آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں دائر ہوئے فیصلہ ہوا اور پھر آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے اس انضمام کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچایا اور گلگت بلتستان کے عوام 68 برس بعد بھی نہ پاکستان بن سکے اور نہ ہی آزاد کشمیر کے نظام کا حصہ بن سکے، کیونکہ یہی مسئلہ کشمیر ہی گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا باعث بنتا ہے اور وفاق پاکستان گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کو حقوق دینے اور پاکستانی بنا کر آئینی حقوق دینے کے بجائے گلگت بلتستان گورننس آرڈر 2009ء کی شق نمبر 92 کے تحت وفاق پاکستان کا گلگت بلتستان کے مسئلہ کو مسئلہ کشمیر اور UNCIP کی قراردادوں سے منسلک کر کے وفاق پاکستان نے مستقبل کے تناظر میں اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی ماری ہے اور گلگت بلتستان کے عوام کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بھی اپنے سابقہ مطالبوں پر نظر ثانی کریں اور ایسا آئینی حل ڈھونڈیں، جس کے نتیجہ میں پاکستان کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے اور مسئلہ کشمیر بھی متاثر نہ ہو اور گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق ایک آئینی، دستور کی ضمانت کے تحت محفوظ ہوں۔ اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے اپنے فیصلہ مورخہ 28 مئی 1999(SCMR)1379,1999 پر من و عن عمل درآمد کے لئے گلگت بلتستان بار کونسل اور گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ بار ایسوسی ایشن اور گلگت بلتستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کی گئی رٹ درخواستوں پر فوری سماعت کرکے گلگت بلتستان کے عوام کے 68 سالوں سے غصب شدہ آئینی اور جمہوری حقوق کے حصول کو یقینی بنائے۔ تمام وکلاء تنظیموں نے گلگت بلتستان کے وکلاء تنظیموں کے سال 1983ء سے جاری آئینی حقوق کے سلسلے میں دی گئی تجاویز میں تبدیلی لاتے ہوئے صرف ایک ٹھوس اور جامع تجویز کی صورت میں فیڈریشن آف پاکستان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بلا تاخیر گلگت بلتستان کو تا فیصلہ تنازعہ کشمیر پاکستان کا عبوری آئینی صوبہ بنائے، بصورت دیگر ایک آئین اور دستور کے تحفظ کے ساتھ کم از کم آزاد کشمیر مقبوضہ جموں و کشمیر جیسا نظام حکومت دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 483029
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش