0
Monday 21 Sep 2015 20:30

ہزاروں یمنی حجاج حج کی سعادت سے محروم

ہزاروں یمنی حجاج حج کی سعادت سے محروم
تحریر: سید اسد عباس تقوی

یمنی حجاج کو حج کی سعادت سے محروم رکھنا تاریخ اسلام میں کسی مسلمان کو سیاسی بنیاد پر حج سے روکنے کی دوسری بڑی مثال ہے۔ قبل ازیں اسی کی دہائی میں ایرانی حجاج کو بھی یہ فریضہ انجام دینے سے روکا گیا تھا۔ اس سے پہلے کسی مسلمان حاکم نے دیگر مسلمانوں پر ایسی کوئی پابندی عائد کی ہو، ایسی کوئی قابل ذکر مثال نہیں ملتی ہے۔ بنو امیہ، بنو عباس، خلافت عثمانیہ کے ادوار میں حج بلا روک ٹوک جاری رہا، چھوٹے موٹے واقعات تو ان راہوں میں ہوتے تھے، تاہم کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ایک خطے کے مسلمان کو سیاسی سبب سے حج نہ کرنے دیا گیا ہو۔ امید ہے قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ اس برس کے ماہ مارچ کے مہینے میں خلیج کے ممالک نے یمن پر فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا، بعد میں وہاں فوج اتارنے کی باتیں بھی ہوئیں، پاکستان سے بھی فوجی مدد مانگی گئی۔ چونکہ مارچ کو گزرے ایک عرصہ گزر چکا ہے، لہذا شاید بعض لوگوں کا خیال ہو کہ جنگ رک چکی ہوگی، یمن میں امن کا دور دورہ ہوچکا ہوگا۔  ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یمن پر آج بھی حملے جاری ہیں، وہاں آج بھی سیاسی سازشیں چل رہی ہے اور گذشتہ تقریباً ایک برس سے اس غریب اسلامی ملک کے باسی جو پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے، کسمپرسی کی حالت میں امت مسلمہ کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ عالم اسلام کی جانب سے مدد کا ملنا تو ایک طرف، یہاں تو صورتحال بالکل ہی برعکس ہے کہ خطے کے ممالک ایک اتحاد کی صورت میں آئے روز ان پر حملہ آور ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ انسان جن میں بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں اور مرد سبھی شامل ہیں، لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ جو چلے جاتے ہیں وہ تو چلو خلاصی پاگئے، زخمیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ادویات، ضرویات زندگی اور ذرائع رسل و رسائل کچھ بھی دستیاب نہیں ہے۔

اس واقعہ کا تاریخی پس منظر اگرچہ کافی تفصیلی ہے، تاہم تازہ صورتحال گذشتہ برس یمن کے صدر عبد الہادی کی جانب سے تیل اور اس کی مصنوعات پر دی گئی حکومتی سبسڈی آئی ایم ایف کے کہنے پر واپس لینے کے سبب پیدا ہوئی۔ تیل اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا، پیٹرول کی قیمت تقریباً ایک سو چار یمنی ریال سے دو سو یمنی ریال تک پہنچ گئی، اسی طرح ڈیزل ایک سو چرانوے یمنی ریال کا ہوگیا۔ پاکستان کے باسی اچھی طرح سے آگاہ ہیں کہ جب تیل، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اشیائے ضرورت تقریباً سبھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ آٹے سے لے کر بجلی تک کوئی ایسی شے نہیں، جس کا تعلق کہیں نہ کہیں تیل، پیٹرول اور ڈیزل سے نہ ہو۔ ان مصنوعات کی اچانک بڑھی ہوئی قیمت نے یمنی عوام کی اکثریت جو کہ پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی، کو ایک آفت سے دوچار کر دیا۔  معاشرے میں بے چینی کا پیدا ہونا بدیہی تھا۔ اس بے چینی کی فضا میں عموماً ہوتا یہ ہے کہ عوام اور حکومت آپس میں ٹکراتے ہیں اور پھر کچھ لے دے کر نظام مملکت واپس اپنی ڈگر پر لے جایا جاتا ہے۔ یمن میں عوام کو حکومت سے اس کی بھی توقع نہ تھی، وہ ملک جہاں اشرافیہ حکومت کی جانب سے ملنے والی سبسڈی کو بھی اپنے منافع کے لئے استعمال کرے اور رعایتی نرخوں پر ملنے والے پیٹرول کو ہمسایہ ممالک میں جا کر فروخت کرکے اپنی جیبیں بھرے۔ حکومتی حلقوں میں کرپشن اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہو۔ حکومت جس مقصد کے لئے تشکیل دی گئی ہو، ان میں سے ایک ہدف بھی پورا نہ ہوا تو عوامی جذبات کا بھڑک اٹھنا لازم ہے۔ ایسے میں اگر عوام کو قیادت میسر آجائے، جو ان کے مسائل کے حل کی بات کرے تو پھر اس تحریک کو کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا۔

2014ء میں یمن میں بھی یہی کچھ ہوا، حوثی راہنما جو کہ یمن میں ایک مذہبی مقام و مرتبہ کے بھی حامل ہیں، نے اس تمام منظر نامے کے خلاف قیام کیا، جس کا عوام نے بھرپور ساتھ دیا۔ حوثیوں کے پاس منظم افرادی قوت کی موجودگی نے معاملات کو مزید آسان کر دیا اور بہت جلد یمن سے عبد الہادی المنصور کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ عبد الہادی کی حکومت کا خاتمہ نہ جانے کیوں خطے کے ممالک کو گراں گذرا، خطے کی بادشاہتیں جمہوریت کے تحفظ کے لئے میدان میں اتر آئیں۔ بدامنی، غربت، پسماندگی اور اضطراب میں گھرے ہوئے یمنی عوام پر فضائی حملے شروع کر دیئے گئے۔ شاید بعض لوگ کہیں کہ نہیں جی فضائی حملے تو حوثیوں پر کئے گئے، تو ان حضرات سے گذارش کروں گا کہ شہداء اور زخمیوں کے اعداد و شمار اس دعوے کی تائید نہیں کرتے اور نہ ہی حملوں کے مقامات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے۔ ہسپتالوں، فارمز، بجلی کے پلانٹس، فیکٹریوں، کھیلوں کے میدانوں اور بازاروں میں بھلا کون سے حوثی تھے، جنہیں جہازوں سے بارود کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ معاملہ جمہوریت کا نہیں بلکہ اقتصادی اور سیاسی مفادات کا ہے۔ عرب بادشاہتیں بھلا کیسے گوارا کرسکتی تھیں کہ ان کے خطے میں ایک عوامی تحریک جنم لے اور کامیاب ہو۔ انہیں یہ بھی خطرہ لاحق ہوا کہ اگر یمن میں ایک عوامی حکومت قائم ہو جاتی ہے، جو فقط عوام کو جوابدہ ہے تو ان کے لئے راہداری کے بہت سے ایسے مسائل پیدا ہو جائیں گے، جو اس پہلے کے کاسہ لیسوں کے دور میں نہیں تھے۔ یقیناً قارئین میرا اشارہ سمجھ گئے ہوں گے۔ یمن خطہ کا بہت اہم تزویراتی ملک ہے، جو خطے کی اہم بحری گزرگاہ باب المندب کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگر باب المندب کسی وجہ سے بند ہو جائے تو سعودیہ سمیت بہت سے ممالک کا تجارتی سامان اور تیل مشرق بعید، یورپ اور دیگر ممالک میں اس قیمت میں نہیں پہنچ سکتا، جس قیمت میں آج کل پہنچتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یمنی گذشتہ مارچ سے اپنی آزادی پسندی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان پر تمام تر بحری، بری و فضائی راستے بند ہیں، تاکہ اس ملک کو کسی بھی جانب سے امداد نہ آئے۔ بہت تھوری مقدار میں امدادی سامان ریڈ کراس اور دیگر مغربی امدادی تنظیموں کے ذریعے یمن پہنچ رہا ہے، جس کے سبب غربت اور پسماندگی سے پسے ہوئے یمنی عوام کی حالت زار مزید ابتر ہوچکی ہے۔ ہلال احمر کے یمنی عہدیدار کے مطابق موجودہ صورتحال سے یمن کو نکلنے کے لئے بہت عرصہ درکار ہے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ یمنی حجاج کی ایک بڑی تعداد کو عبادت کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے، بعض خبروں کے مطابق اس سال فقط انیس ہزار یمنی حجاج حج کرسکیں گے۔ یہ فیصلہ بھی یمن میں گذشتہ جمعہ اس سلسلے میں کئے گئے ایک عظیم الشان مظاہرے کے بعد کیا گیا۔ یہ خوش نصیب حجاج کون ہیں اور یمنی کیوں محسوس کرتے ہیں کہ انہیں حج سے روکا جا رہا ہے، یہ ایک اہم سوال ہے، جسے بہرحال حکومت سعودیہ کو دیکھنا ہوگا۔ کسی بھی مسلمان ملک کے حجاج کو سیاسی وجوہات کی بنا پر حج کی سعادت سے محروم کرنا مذہبی لحاظ سے نیز پہلے سعودی فرمانروا اور مملکت سعودیہ کے بانی شاہ سعود بن عبدالعزیز کی اس یقین دہانی کے اعتبار سے درست نہیں ہے، جو انہوں نے اپنی حکومت کے قیام کے وقت خلافت کمیٹی اور حکومت برطانیہ کو کروائی تھی۔ اگر صورتحال اسی طرح سے جاری رہی تو بہت جلد ہم سنیں گے کہ حج و زیارات کے لئے ہر زائر کو ایک عہدنامہ پر دستخط کرنا ہوں گے، جس میں وہ اعلان کرے کہ وہ ساری زندگی شاہ سعودیہ کا وفادار رہے گا اور ان کے کسی بھی حکم کی حکم عدولی نہیں کرے گا۔ یہاں پاکستان کے معروف تجزیہ نگار جناب زید حامد کا حوالہ دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں، جو کچھ عرصہ قبل عمرہ کی غرض سے بلاد مقدس گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق ان کے سیاسی نظریات کی وجہ سے انہیں وہاں سزا دی گئی تھی۔ نہیں معلوم کہ وہ اب کس حال میں ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 486790
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش