0
Wednesday 23 Sep 2015 14:12

جنوبی پنجاب کے دیہاتوں میں قربانی کی منظر کشی

جنوبی پنجاب کے دیہاتوں میں قربانی کی منظر کشی
تحریر: سجاد احمد مستوئی
sajjadahmadmastoi@gmail.com

پنجاب کے دیہاتوں کے لوگ گرمیوں کے موسم میں شام کے وقت اور سردیوں میں صبح کی نماز کے بعد اکثر بیٹھکوں، ڈیروں پر جمع ہوتے ہیں اور مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ذیقعد کے آخری ہفتے میں ڈیرے پر جمی ہوئی محفل میں اچانک کوئی عید قربان کا موضوع چھیڑتا ہے اور پھر یہ موضوع ہے کہ جنگل کی آگ کی طرح بے قابو ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ بس ایک شخص نے عیدِ قربان کہا اور پھر قریب ہی ساتھ میں بیٹھا ہوا ایک دیہاتی بولا! ہاں جانور کا بندوبست ابھی سے کرنا چاہیے، بعد میں مہنگے ہو جاتے ہیں۔ محفل میں بیٹھا اثر و رسوخ رکھنے والا شخص اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہتا ہے! ہاں تو ٹھیک ہے سات پتی وار پورے کریں۔ اتنے میں کسی کونے سے دبی ہوئی آواز آئی کہ پچھلے سال والے سات بندے ہوجائیں! ایک اور کونے سے کوئی بندہ حقّے کا سوٹا (کش) لگاتے ہوئے بولا پچھلے سال کی طرح اس دفعہ بھی میں اور اللہ دتہ ایک ہی پتی کے دو حصہ دار ہوں گے۔

اسی طرح وہیں بیٹھے بیٹھے بغیر کوئی اشتہار چھپوائے اور اعلان کروائے سات پتی وار پورے ہوگئے، اگر کوئی ایک حصہ رہ بھی گیا تو پھر براداری یا ہمسائے میں سے کسی کو ملا لیا۔ جیسے ہی ہوگئے سات پتی وار ۔۔۔ اسی وقت پیسے جمع کرنے کے لئے ہوگئے دو بندے مختص۔ یہاں تک کہ سارے کام ایک ہی محفل میں بیٹھے بیٹھائے ہوگئے۔ دوسرے دن دوبارہ محفل لگی، پیسے جمع کرنے والوں سے رپورٹ لی گی تو پتہ چلا کی اللہ بخش نے پیسے نہیں دیئے۔ ہاں بھئی اللہ بخش آپ نے پیسے جمع کیوں نہیں کروائے؟ جی میرے پاس ایک نو بالغ گائے ہے، تقریباً ایک سال ہوگیا ہے کہ اس سے کوئی بچہ ہی پیدا نہیں ہو رہا، میں چاہتا ہوں کہ اب اسے ہی خدا کی راہ میں قربان کر دوں، آپ لوگ چل کے دیکھ لیں، سب کو پسند آگئی تو سودا طے کر لیں گے، اگر سودا طے ہوگیا تو عید تک اسے چارہ میں ہی کھلاوں گا۔

اللہ بخش کے ساتھ بیٹے ہوئے پیر بخش نے کہا! ہاں میں نے دیکھی ہے، تقریباً چار من گوشت نکالے گی۔ سب پتی وار اسی بات پر متفق ہوئے اور اللہ کی راہ میں قربان ہونے والی گائے کو دیکھنے کے لئے اللہ بخش کے گھر کا رخ کرتے ہیں۔ گائے کو دیکھتے ہوئے سارے اپنی مختلف آراء دیتے ہیں۔ سارے پتی وار متفق ہوتے ہیں، ریٹ  طے پاتا ہے، رقم اللہ بخش کو دے دی جاتی ہے۔ دن گزرنے لگتے ہیں، اب محفلوں میں اللہ بخش کے بجائے اس کی  گائے کی خیریت پوچھی جانے لگتی ہے،  کبھی کبھار تو کوئی بزرگ محفل میں بیٹھے اللہ بخش سے کہتا ہے کہ گائے کی خدمت کیا کر، اللہ تمھیں ثواب دے گا!

جی میں باقی جانوروں سے زیادہ چارہ ڈالتا ہوں اور خاص توجہ دیتا ہوں! اللہ بخش بزرگ کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے۔ جزاک اللہ بزرگ کے ساتھ بیٹھے ہوئے کبھی نہ بولنے والے شخص بھی اس موقع پر بول پڑتا۔ جونہی عید قریب ہوتی جاتی ہے سب کے جذبہ قربانی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ آگیا قربانی کا دن 10 ذالحجہ کو نماز عید کی تیاری ہوتی ہے، مولانا صاحب نماز عید کے خطبہ میں حضرت ابراہیمؑ و حضرت اسماعیلؑ کے تذکرے کے ساتھ ساتھ قربانی کی اہمیت اور ثواب کو بیان کرتے ہیں۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی بہت تیزی کے ساتھ  عیدگاہ سے نکل کر لوگ ڈیرے پر پہنچے، جہاں پر جانور نے ذبح ہونا ہے، مقام قربانی پر پہنچتے ہی کچھ لوگ مختلف کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کسی نے چھریاں تیز کرنے کے لئے پتھر پر رگڑنا شروع کر دیں، تو کوئی ہڈیاں کاٹنے کے لئے ٹوکے کو دھونے لگا، تو کسی نے جانور کو باندھنے کے لئے رسی ڈھونڈھنا شروع کر دی۔ جلدی جلدی سے یہ کام اختتام کو پہنچے (چھریاں تیز ہوگیں، ٹوکا دھل گیا، رسی مل گی) لاو بھئی جانور لاو! اکثر دہنوں سے یہ آواز آئی۔ چار بندے جانور کو لانے کے لئے دوڑے۔ پچھے سے بزرگ نے سارا زور لگا کر آواز دی! جانور کو پانی پلا کر لانا۔

ایک جانور کی رسی پکڑ کر آگے ہوجاتا ہے، ایک پیچھے سے ہانکتا ہے، دو جس طرح گئے تھے، اسی طرح اپنے آپ کو مصروف سمجھتے ہوئے جانور کے ساتھ دوڑتے چلے آئے۔ جونہی جانور قربان گاہ میں آیا! ماشاءاللہ، سبحان اللہ کی صداوں سے استقبال ہوا، ابھی استقبال ہو رہا تھا کہ پانچ چھ تیار جوانوں نے گائے پر حملہ کیا۔ کسی نے گلے میں رسی ڈالی تو کسی نے دم کو مضبوطی سے تھاما۔ ایک جو سب سے پھرتیلا تھا! نے تیزی کے ساتھ جانور کے پچھلے پاوں میں رسی ڈالی اور پلک جپھکتے ہی اگلے پاوں میں رسی ڈالتے ہوئے ان تین جوانوں کے ساتھ شامل ہوا، جنہوں نے رسی کو کھینچ کر جانور کو گرانا ہے، جونہی رسی کھنچی جانور دھڑم سے زمین پر گرا۔ جانور کے گرتے ہی چھ سات جوان پھرتی کے ساتھ جانور کے اوپر چڑھے۔ قابو کرو قابو کرو ! جانور کے گرد طواف کرتے ہوئے ایک بزرگ نے کہا۔ منہ قبلہ کی طرف موڑو!

تھوڑی دور پڑی چارپائی پر بیٹھے دوسرے گاوں سے آئے ہوئے بزرگ نے کہا۔ چھری دو! ذبح کرنیوالے نے جانور کے گلے پر زور دیتے ہوئے کہا۔ چھری ملی، تکبیر کی صدا بلند کرتے ہوئے ذبح کرنیوالے شخص نے چھری چلائی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گلا کٹ گیا، کافی مقدار میں خون نکلا جانور پر چڑھے لوگ اترنے لگے، ٹانگوں سے رسی نکلی گی۔ اللہ بخش کی گائے مکمل طور پر آزاد ہوگی۔ ایک بندہ چھری ہاتھ میں لئے آگے بڑھ کر کہتا ہے ہمت کرو ،جانور کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے چمڑا اتار لیں۔ تین بندے اور چھریوں کے ساتھ جانور کی طرف بڑھتے ہی کسی نے اگلے پاوں سے شروع کیا تو کوئی پچھلے  والے گھٹنے سے شروع ہوگیا، تو کسی نے ناف سے لے کر گلے تک چیر ڈالا۔ اتر گئی کھال۔ تھوڑی دور درخت کے سائے میں ایک بہت بڑی چادر بچھائی گی۔ کافی تعداد میں جوان کچھ بوڑھوں کے ساتھ چادر پر بیٹھ گے۔

ادھر سے جانور کے مختلف اعضاء کاٹ کر چادر پر پہنچائے جانے لگے، گوشت تیار ہونے لگا۔ تھوڑی دور پڑی چارپایوں پر بیٹھے لوگ گوشت کے تیار ہونے کا انتظار کرنے لگے، ان میں کچھ لوگ وہ ہیں کہ جو نماز عید کے بعد خیرات کی غرض سے گوشت کے آمادہ ہونے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ چادر پر گوشت تیار ہوتا ہے، ایک ترازو لایا جاتا ہے، گوشت کو سات حصوں میں تقسیم کرکے سارے پتی وار اپنے اپنے حصے کو تین حصوں میں بانٹ کر گوشت کو شرعی طریقے سے تقسیم کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اب اللہ بخش کی گائے گاوں کے ہر گھر کی دیگچی میں ابل رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 487117
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش