0
Friday 2 Oct 2015 15:01

سعودی عرب بڑی تبدیلی کے دہانے پر

سعودی عرب بڑی تبدیلی کے دہانے پر
تحریر: ربیع برکات
(روزنامہ السفیر لبنان)

جب ریاض نے اپنے بقول یمن کی "قانونی حکومت کو اقتدار میں واپس لانے" کی غرض سے فوجی اتحاد تشکیل دیا تو بعض یہ دعویٰ کرنا شروع ہوگئے کہ سعودی عرب آخرکار نہ صرف مشرق وسطٰی بلکہ گریٹر مڈل ایسٹ کو منظم کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اب سعودی عرب کو جہادی سوچ کے حامل ممالک اور گروہوں کے ذریعے پراکسی وار لڑنے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ وہ خود میدان میں کود پڑنے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہے۔ اب سعودی عرب دوسری خلیجی ریاستوں کے تعاون سے خام تیل کی عالمی منڈی پر اثر انداز ہونے تک ہی اکتفا نہیں کرے گا بلکہ آج کے بعد گذشتہ چند عشروں سے جمع شدہ جدید اسلحے کے ذخائر کو بروئے کار لا کر خطے کی سیاسی مساواتوں پر اثر انداز ہوگا اور اپنی ائیرفورس کے ذریعے جغرافیائی تبدیلیاں لانے کی طاقت حاصل کرچکا ہے۔ سعودی عرب کے حامی ماہرین اور تجزیہ نگاران نے ان حدوں کو بھی پار کرتے ہوئے یہ پیشین گوئیاں کرنا شروع کر دیں کہ عنقریب "فیصلہ کن طوفان" کے خاتمے کے بعد بہت جلد ایسا ہی طوفان شام میں بھی برپا ہونے والا ہے۔ حتی بعض اظہار خیال ایسے بھی تھے جن میں یہ کہا گیا کہ چونکہ سعودی عرب ایک ہی وقت میں کئی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لہذا شام میں ایک "متوازی طوفان" بھی شروع ہوسکتا ہے۔

80 برس قبل آل سعود حکومت کی تشکیل سے لے کر اب تک سعودی عرب کی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ خطے کی جنگوں میں ہرگز براہ راست فوجی مداخلت نہیں کرے گا، لیکن یمن کے خلاف سعودی جارحیت کے بعد اس حکمت عملی میں تبدیلی درحقیقت تیسری نسل کے سعودی شہزادوں کا برسراقتدار آنے کا نتیجہ ہے۔ لہذا بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب خطے کی طاقت بننے کیلئے ضروری صلاحیتیں حاصل کرچکا ہے، جن کے نتیجے میں اب وہ براہ راست فوجی مداخلت اور حد اکثر طاقت کے استعمال کا راستہ اپنا رہا ہے۔ شاید یہ کہا جا سکے کہ سعودی عرب خطے میں اپنے دیگر رقباء جیسے ایران اور مصر کے مقابلے میں بعض پہلووں سے برتری کا حامل ہے، لیکن اس کے باوجود یمن کے خلاف جارحیت پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت انجام نہیں پائی اور یہ اقدام بہت حد تک ایک غیر متوقع اقدام تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اور اسی طرح کسی دوسرے ملک کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال میں نظم و ضبط اور منصوبہ بندی کے نہ ہونے کا نتیجہ صرف اور صرف وقت اور صلاحیتوں کے ضیاع اور بیہودگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

سعودی عرب کی حالیہ خارجہ پالیسی ایک کم مدت کی پالیسی ہے، لہذا مغربی طاقتوں اور ایران کے درمیان ممکنہ جوہری معاہدے کے انعقاد اور یمن پر سعودی اثر و رسوخ کے خاتمے کے نتیجے میں سعودی عرب کے کھوئے ہوئے اقتدار اور اثر و رسوخ کو بچگانہ اور جلد بازی پر مشتمل فیصلوں کے ذریعے واپس نہیں لوٹایا جاسکتا۔ خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب سعودی عرب خطے کے ایسے دوسرے ممالک سے رقابت کرنے پر بھی مجبور ہے، جنہوں نے اپنی خارجہ پالیسیوں کی بنیاد کئی سالوں کے تحقیق اور مطالعے پر استوار کر رکھی ہے۔ اس کی ایک مثال اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ ایران نے گذشتہ 20 برس سے اپنے جوہری پروگرام اور خطے سے متعلق اپنی پالیسیوں کی مکمل منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ اسی طرح ترکی بھی یورپی یونین سے ملحق ہونے میں مایوسی کے بعد عرب دنیا میں اپنا اثر و رسوخ کافی حد تک بڑھا چکا ہے۔ مصر نے بھی انتہائی آہستہ راستہ اختیار کر رکھا ہے، جس کے ذریعے کوشش کی جا رہی ہے کہ سابق صدر حسنی مبارک کے دور میں موجود عدم منصوبہ بندی کی کیفیت سے باہر نکلا جا سکے۔ حتٰی قطر جیسے ملک نے بھی 1996ء سے اپنی خارجہ پالیسی کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ اس ملک کی خارجہ پالیسی خطے میں موجود بحرانوں سے متعلق نرم طاقت کے استعمال پر مبنی ہے۔ اسی طرح قطر نے سفارتکاری کے میدان میں سرگرم عمل ہونے اور خطے میں متحارب گروہوں اور ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنا رکھا ہے۔ جیسا کہ امیر قطر نے چند دن قبل ہی اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران ایران اور عرب ممالک کے درمیان مذاکرات کے آغاز پر زور دیا ہے۔ اس سے پہلے قطر اپنے ملک میں طالبان کے دفتر کا افتتاح کرچکا ہے اور دو سال پہلے طالبان اور امریکہ میں مذاکرات میں ثالثی کا کردار بھی ادا کرچکا ہے۔

یوں یمن میں سعودی جارحیت، جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، آل سعود رژیم کی عمر میں اضافے کا باعث نہ بن سکی یا کم از کم اس رژیم کو اپنا شباب نہیں لوٹا سکی۔ سعودی عرب یمن کے خلاف جنگ کو recess time کے طور پر دیکھ رہا تھا، لیکن اس جنگ نے بعض جنوبی حصوں جیسے صوبہ عسیر اور نجران پر خود آل سعود رژیم کی مشروعیت اور مینڈیٹ کے بارے میں انتہائی اہم سوالات کو جنم دیا ہے، کیونکہ یہ علاقے 1934ء میں "الامامہ المتوکلیہ" کے ساتھ سعودی عرب کی جنگ کے دوران آل سعود کے قبضے میں آئے تھے۔ اسی طرح یمن کی جنگ نے بے سابقہ طور پر آل سعود رژیم کے مستقبل کے بارے میں بھی بہت زیادہ سوالات کو جنم دیا ہے۔ اب صرف "مجتہد" ہی نہیں جو سوشل ویب سائٹ ٹوئٹر پر حکومت مخالف بیانات دیتا ہے اور سعودی خاندان کے راز فاش کرتا ہے بلکہ ایسے کئی افراد میدان عمل میں آچکے ہیں۔ آل سعود خاندان کے کئی برجستہ افراد خبردار کرچکے ہیں کہ اگر سعودی عرب پر حکمفرما نظام میں بنیادی اصلاحات انجام نہ پائیں تو اس نظام کی مکمل نابودی کا خطرہ پایا جاتا ہے۔

چند دن قبل برطانوی اخبار "گارجین" نے اپنے ایک کالم میں ایک سعودی شہزادے کے بقول جس کا نام سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیا گیا تھا، لکھا کہ سعودی عرب ایک بڑے بحران کا شکار ہوچکا ہے اور اگر اس کو حل نہ کیا گیا تو اس کے انتہائی ہولناک نتائج سامنے آئیں گے۔ کالم میں کہا گیا کہ سعودی عرب کی صورتحال برف کے اس عظیم پہاڑ کی مانند ہے، جس کا زیادہ تر حصہ پانی کے اندر ہونے کے باعث نظر نہیں آتا۔ سعودی عرب عملی طور پر ایک بڑی تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ایسی تبدیلی جو ضروری نہیں وہی ہو جس کی توقع "فیصلہ کن طوفان" کے حامی کر رہے ہیں۔ یہ طوفان گذشتہ چند ماہ کے دوران بڑی تعداد میں یمنی شہریوں کے قتل عام کا باعث بنا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ بڑی تبدیلی سعودی عرب پر حکمفرما نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گی اور سعودی حکمفرما نظام عنقریب ایسے بڑے چیلنجز سے روبرو ہوگا جن سے وہ اپنی تاریخ میں آج تک روبرو نہیں ہوا۔ صرف یمن کے خلاف سعودی جارحیت ہی نہیں، جس نے آل سعود رژیم کو زوال اور نابودی کی جانب گامزن کر دیا ہے، لیکن یمن کی جنگ نے سعودی حکومت کیلئے ایسی مشکلات ضرور کھڑی کر دی ہیں، جن کے باعث سعودی عرب ایک بڑی تبدیلی کی طرف چل پڑا ہے۔ یمن کی جنگ ایک ایسے بلیک باکس کی مانند ہے، جس کے ذریعے عنقریب سعودی عرب سے متعلق اہم سیاسی امور فاش ہونے والے ہیں اور اس ملک میں ایک وقت میں کئی چیلنجز پیدا ہونے والے ہیں، جن کا یمن کی جنگ سے براہ راست تعلق بھی نہ ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 488606
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش