0
Monday 30 Nov 2015 19:20

شام کے محاذ پر ترکی اور روس مد مقابل؟

شام کے محاذ پر ترکی اور روس مد مقابل؟
تحریر: عرفان علی

مصر کی حددو میں صحرائے سینا کے پہاڑی مقام پر روس کا مسافر بردار طیارہ تباہ ہوا تو برطانوی اخبار دی انڈی پینڈنٹ میں عالمی شہرت یافتہ صحافی و کالم نگار پیٹرک کوک برن نے 7نومبر 2015ء کی اپنی تحریر کا عنوان ہی یہ رکھا: ’’Egypt plane crash: This attack shows that Russia is hurting Isis‘‘ یعنی مصر میں جہاز کا کریش دراصل ایک حملہ تھا جو یہ ظاہر کررہا تھاکہ روس داعش کو شدید چوٹ پہنچا رہا تھا۔ ایک جملے میں کہیں تو شام میں روس داعش دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائیاں کررہا تھا اور مصر میں مسافر بردار جہاز کا گرایا جانا اس کارروائی کا ردعمل تھا۔جب 24 نومبر 2015ء کو ترکی نے شام کی حدود کے اندر روس کا جیٹ طیارہ مار گرایا تب میں پیٹرک کوک برن کے مذکورہ مضمون سے لاعلم تھا لیکن میرے ذہن میں بھی فوری خیال یہی آیا کہ روس یقیناً امریکی صہیونی اتحاد کی نیابتی جنگ لڑنے والے تکفیری دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کررہا ہے اور ترکی کا یہ عمل اسی کا ردعمل ہے۔ بعد ازاں ایک ماہنامہ کے لئے شام کے موضوع پر تحریر لکھنے سے پہلے تحقیقی عمل میں مصروف تھا تو کوک برن کا مقالہ بھی سامنے آیا۔
زیر نظر تحریر کے لئے دلائل پہلے سے ذہن میں موجود تھے کیونکہ سال 2011ء سے شام کے بحران پر وقتا فوقتاً تحلیل گرائی کرتا رہا ہوں۔ اس موضوع پر تحقیق کرتے وقت زیادہ تر توجہ امریکی و یورپی ذرائع ابلاغ پر ہی رہتی ہے۔ نکات تو ذہن کے کونے کھدرے میں محفوظ ہو جاتے ہیں لیکن بسا اوقات حوالہ جات یادداشت سے گم ہو جاتے ہیں۔ مجھے یہ یاد تھا کہ 2013ء میں امریکی دارالحکومت سے شایع ہونے والے روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے ایک اہم رپورٹ شایع کی تھی لیکن اصل تاریخ اور اس کو فائل کرنے والے صحافیوں کے نام یاد نہیں تھے۔ بہت کوششوں کے بعد وہ رپورٹ ڈھونڈ نکالی۔ گریگ ملر واشنگٹن پوسٹ کے لئے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دہشت گردی کی کوریج کرتے ہیں جبکہ ان دنوں ارنیسٹو لنڈنو پینٹاگون کی کوریج پر مامور تھے۔ بعد ازاں وہ نیویارک ٹائمز سے وابستہ ہوگئے۔ مذکورہ دونوں صحافیوں نے 11ستمبر 2013ء کو رپورٹ دی، CIA begins weapons delivery to Syrian rebels یعنی یہ کہ امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے نے شام کے باغیوں کو اسلحے کی فراہمی کا آغاز کردیا۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ سینیٹر بوب کورکر نے تین ہفتے قبل ترکی کے سرحدی مقامات کا دورہ کیا تھا جہاں وہ شامیوں سے ملے تھے اور اس کے بعد انہوں نے اوبامہ انتظامیہ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ باغیوں کی مدد کے لئے مزید کچھ کیا جانا چاہیئے۔ شام کے باغیوں کی معاونت کے لئے امریکی محکمہ خارجہ کے مشیر مارک ایس وارڈ جنوبی ترکی سے معاونت کے کام کی کو آرڈینیشن کررہے تھے۔ سی آئی اے یہ اسلحہ ترکی اور اردن میں قائم خفیہ اڈوں کے ذریعے منتقل کرنا چاہتی تھی اور مقصد یہ تھا کہ مشرق وسطٰی کے اتحادیوں بشمول سعودی عرب اور قطر کی مدد سے یہ کام انجام دے۔ یہ خبر یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ آزاد و خود مختار ملک شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے ترکی سمیت کن کن ممالک نے شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اور اس کی سرحدوں کی خلاف ورزی کی۔

4 اکتوبر 2012ء کو ترک پارلیمنٹ نے قرارداد منظور کی جس کے تحت ترک افواج کو اجازت دی گئی کہ شام کی حدود میں گھس کر کارروائی کرے۔ 23 مارچ 2014ء کو دعویٰ کیا کہ شام کے طیارے کو ترک سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے مار گرایا ہے لیکن شام کے طیارے کا ملبہ شام کی حدود کے اندر ہی تھا۔ 22جون 2012ء کو ترکی کا جنگی طیارہ شام کی سمندری حدود کے اند ر مار گرایا گیا تھا اور وہ محض 100میٹر اونچائی پر پرواز کررہا تھا اور اسے کئی مرتبہ متنبہ کیا جا چکا تھا لیکن وہ نہیں لوٹا تو مارگرایا گیا اور اس کا ملبہ شام کی حدود کے اندر ہی گرا۔ شام کی حکومت نے وضاحت کی کہ یہ اتفاقاً ہوا تھا ان کا مقصد ترکی سے جنگ لڑنا نہیں لیکن ترکی نے اس واقعہ سے بہت پہلے امریکی صہیونی اتحاد کے شام دشمن منصوبے میں کردار ادا کرنا شروع کردیا تھا اور اس کی کچھ تفصیل اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی کتاب ہارڈ چوائسز میں بھی تحریر ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ترکی کی سرزمین شام کے خلاف کھلے عام استعمال کی جاتی رہی۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے کسی ادارے اور کسی علاقائی تنظیم نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ الٹا شام کی منتخب اور عوام میں مقبول بشار الاسد کی حکومت کے خلاف بیانات جاری کئے جاتے رہے۔

روس اپنے قومی مفاد کے پیش نظر اپنے اتحادی ملک شام کے دفاع میں میدان میں اترا۔ ترکی کی سرحد پر واقع شامی صوبے ال لاذقیہ Lattakia کے شامی ایئربیس کو اس کی فضائیہ نے اپنا مرکز بنایا اور شام کی حکومت کی معاونت کرتے ہوئے شام دشمن دہشت گردوں کے خلاف 30ستمبر سے فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا۔ روس کی حکومت کا موقف ہے کہ روس اپنی سرزمین کے دفاع کی جنگ لڑ رہا ہے کیونکہ تکفیری دہشت گردوں کو روس میں ا نتہا پسندی کے لئے دوبارہ استعمال کئے جانے کا خطرہ موجود ہے چونکہ ترکی اور بعض عرب ممالک امریکی صہیونی اتحاد کے شام دشمن منصوبے میں عملی طور شریک ہیں اور ان تکفیریوں کو ایجاد کرنے میں ان کا بہت ہی بڑا کردار رہا ہے اس لئے ان کی نابودی کا منظر ان سے دیکھا نہیں گیا اور ان سبھی نے مل کر ترکی کے کاندھے پر بندوق رکھ کر روس پر فائر کھول دیا لیکن روس کا ردعمل اور زیادہ شدید ہوتا جارہا ہے۔ ترکی سے دوطرفہ تعلقات و تعاون ختم کرنے کی صورت میں ترکی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ روسی بحری بیڑہ اور روس کا دفاعی میزائل پروگرام S- 400 پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ دہشت گردوں اور ان کی مدد کرنے والوں پر شام کی حدود کے اندر حملہ آور ہوگا تو یہ جنگ جلد ہی شام جیت جائے گا۔

ووڈ رو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالر تھنک ٹینک ڈائریکٹر برائے مشرق وسطٰی ہنری بارکی اور اسی سینٹر کے کنعان انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ولیم پومی رینز کا مشترکہ مقالہ سی این این کی ویب سائٹ پر آیا ہے جس کا عنوان ہے Assad only winner after Russian jet downed مطلب یہ کہ ترکی کی جانب سے روس کے طیارہ گرائے جانے بعد اصل فتح شام کے صدر بشار الاسد کی ہوئی ہے۔ ترکی کو روس کا شام میں آنا، ال لاذقیہ میں اڈہ بنانا اور ترکی کی سرحدوں پر واقع شامی صوبوں میں باغیوں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ناگوار گذر رہی تھی۔ تاحال وہ روس سے معذرت کرنے کے موڈ میں نہیں اور اس مسئلے کو تنازعہ کی صورت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ترکی یورپی یونین میں شمولیت کے لئے رکھی گئی کسی خفیہ شرط پر عمل پیرا ہے، نیٹو کے کسی خفیہ ایجنڈے کے تحت ایسا کررہا ہے یا کوئی اور سبب ہو ایک بات واضح ہو چکی کہ روس کے خلاف یہ کارروائی ترکی کے مفاد میں نہیں تھی۔ روس کے ساتھ اس کے تعلقات کی قیمت پر ترکی کو کوئی بھی فائدہ بہت مہنگا سودا ثابت ہوگا۔

ترکی نے عراق میں گھس کر اس کی حدود کی خلاف ورزی کرکے کردوں پر بمباری کی تو امریکا نے اس کا ساتھ دیا تھا۔ آج جب شام کے کرد علاقوں میں ترکی کے کرد بھی داعش پر حملہ آور ہونے گئے ہیں تب بھی ترکی کی حکومت ان سے ناراض ہے۔ ایک ترک کرد شاگرد رہنما کو بانی میں داعش سے مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا تو دو مہینے تک اس کی لاش سرد خانے میں رہی کیونکہ رجب طیب اردگان کی حکومت نے اسے ترکی لانے کی اجازت دینے میں ٹال مٹول سے کام لیا اور بالآخر کسی دباؤ کے تحت دو ماہ بعد استنبول میں اس کی تدفین ہوئی تو جلوس جنازہ میں اردگان اور اس کی حکومت کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ کردوں کے خلاف عراق میں کارروائی کی وجہ سے ترکی حکومت شاید یہ سمجھ رہی تھی کہ شام کی حدود کی خلاف ورزی بھی اسی طرح امریکی سرپرستی کی وجہ سے برداشت کرلی جائے گی لیکن شام کی حدود کے اندر روس کے طیارے کو نشانہ بنانا، اس کی بھاری قیمت ترکی کو ادا کرنا پڑگئی ہے۔ مستقبل قریب میں ترکی اس کے سنگین نتائج کو بھگت رہا ہوگا۔

یہ تحریر مندرجہ بالا سطور پر ختم کرچکا تھا کہ 27نومبر کی دوپہر ترکی کے حوالے سے دو خبریں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں نمودار ہوئیں۔ ترک صدر جب طیب اردگان نے فرانس 24چینل کو انٹرویو میں بتایا کہ اگر ترکی کو معلوم ہوتا کہ وہ طیارہ روس کا تھا تو اس کے ساتھ مختلف طریقہ اختیارکیا جاتا۔ انہوں نے شکایت کی کہ منگل کے روز انہوں نے صدر پیوٹن سے فون پر رابطہ کیا لیکن انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی اور ان کی کال کے جواب میں خود سے کوئی کال بھی نہیں کی۔ دوسری خبر ترکی کے وزیراعظم اور حکمران جماعت AKP کے سربراہ احمد داؤد اوگلو کا وہ مقالہ ہے جو لندن کے روزنامہ ٹائمز میں شایع ہوا۔ تحریر کے آغاز کا جملہ بہت ہی معنی خیز ہے کہ ایک نامعلوم جیٹ طیارے کا گرایا جانا کسی خاص ملک کے خلاف کی گئی کارروائی نہیں تھی۔ اب ترکی کے حکمرانوں کا دماغ ان کے پیروں کی مانند زمین پر آچکا ہے جو کہ پہلے آسمان پر پہنچ چکا تھا۔ اب وہ ڈیمیج کنٹرول کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں یعنی غبارے سے تھوڑی سی ہوا نکل چکی ہے! لیکن پیوٹن کی جانب سے ملاقات سے انکار پر کھسیانا ہوکر اردگان صاحب نے روس سے کہا کہ وہ آگ سے نہ کھیلے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب روس نے ترکی کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا اعلان کردیا ہے اور اس کی خبر ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بی بی سی نے دی ہے۔

تیسری حقیقت ترکی کے سوشل میڈیا میں نشر ہوئی ہے کہ ترک صدر کے بیٹے نیک متین بلال داعش کے تیل اسمگلنگ والے کاروبار میں شراکت دار ہیں اور انہوں نے تکفیری داعش دہشت گرد کمانڈروں کی استنبول میں میزبانی بھی کی ہے۔ چوتھی خبر 28نومبر 2015ء کو ماسکو سے آئی جس میں کریملن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے کہا کہ جہاں جہاں امریکی و اتحادی افواج نے شام میں بمباری کی وہاں وہاں داعش کے کنڑول میں توسیع ہوئی اور پہلے سے زیادہ علاقے ان کے کنٹرول میں آگئے۔ لیکن روس کی کارروائی سے یہ کامیابیاں ناکامیوں میں تبدیل ہوگئیں اسی لئے امریکی صہیونی عرب اتحاد کا ایک اور اہم رکن ملک ہونے کے ناطے ترکی روس سے ناراض ہو گیا۔
مصنف : علی عرفان
خبر کا کوڈ : 501438
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش