1
0
Sunday 6 Dec 2015 17:36

اسرارِ الٰہی

اسرارِ الٰہی
تحریر: سید قمر رضوی

سرزمینِ کربلا پر چودہ صدیاں قبل کائنات کی نجیب و نفیس ترین ہستیاں پارہ پارہ بکھری پڑی تھیں۔ خدا کی خلق کردہ ارزاں ترین مخلوق نے پانی کو خدا کے انمول ترین افراد کے لئے نایاب کر دیا تھا، چہ جائیکہ کسی خوانِ نعمت کا تذکرہ ہو۔ خدا کی افضل ترین مخلوق کا نجیب ترین خون اسی سرزمین میں جذب کیا گیا۔ پاکیزہ جسموں سے اطہر سروں کو  جدا کرکے نیزوں پر بلند کیا گیا۔ تبرکاتِ رسولﷺ کو لُوٹا گیا۔ مخدراتِ عصمت و طہارت کے ساتھ وہ برتاؤ برتا گیا کہ جسکے بیان کی تاب نہیں۔ معصوم بچوں پر تشدد کے پہاڑ توڑے گئے۔ مادی ظلم کی انتہا کے ساتھ ساتھ معنوی ظلم بھی اپنی انتہاؤں کو پہنچا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی شریعتوں کے محافظین کی عزت کو جس بیدردی سے تاراج کیا گیا، اس کی مثال تاریخِ کائنات میں ملنا ناممکنات میں سے ہے۔ کیا کیا ستم کرکے آلِ رسولؑ کے نرم قلوب پر نشتر نہ برسائے گئے۔ ظلم کی وہ داستان کہ جسے لکھنا نہ کسی لکھاری کے قلم کی ہمت اور نہ کسی راوی کے سینے میں بیان کی قوت۔ (جو لکھا گیا یا بیان ہوا، وہ اصل کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔)

چودہ صدیوں بعد بیس صفر، چہلمِ شہدائے کربلا ہے۔ کوئی دو کروڑ کہتا ہے، کوئی ڈھائی کروڑ تو کوئی تین کروڑ۔۔۔ جتنے کروڑ بھی ہوں، یہ مظہر اظہر من الشمس ہے کہ  دنیا کی آج تک کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا اجتماع ہے۔ عزائے حسینیؑ کے اس میدان میں ہر آنے والے سال میں چند لاکھ کا اضافہ مسلسل دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ تو رہے انسانی آنکھ کو نظر آنے والے اپنے جیسے انسان! نجانے 61 ہجری سے اب تک خدا کی کون کون سی مخلوقات اس عتبہء عالیہ کی زیارت سے فیضیاب ہوتی رہی ہوگی اور آج نجانے کتنے فرشتے، جنات، شہداء، صالحین اور انبیائے کرام ؑ اس سرزمین پر ہدیہء سپاس پیش کرنے حاضر ہو رہے ہوں گے۔ شاید نہیں، یقیناً مختلف الخلقت زائرینِ کربلا گنتی  کے اعداد کو کہیں پیچھے چھوڑتے ہوئے اس عظیم قربانی کا شکریہ ادا کرنے میں مصروف ہوں گے۔ دراصل یہ اس قبیلے کے افراد ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گئے تھے اور آج سمٹ کر اپنے مرکز کی جانب مرتکز ہیں۔ عراق کے اپنے کئی شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے علاوہ ایران سے بھی پیدل کربلا پہنچنے والوں کا اک جمِ غفیر ہے جو اپنے سینوں میں اس حرارت کو لئے اپنی منزل کی جانب گامزن ہے کہ جسکی نوید حضرت ختمی مرتبتؐ اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی عطا فرما چکے تھے، جبکہ دیگر ذرائعِ سفر سے  کربلا پہنچنے والے خوش نصیب افراد کا قصہ الگ! اور انکی کہانی بھی جدا ۔۔۔ کہ جنکا مذہب بھی جدا!

آجکل کی جدید دنیا کا کوئی پر تعیش ترین سفر بھی کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی کمی، خامی یا بدمزگی سے دوچار ضرور ہوتا ہے، مگر کیا کہنے اس پیادہ سفر کے کہ دنیا کی کونسی نعمت اور سہولت ایسی ہوگی جو ایک انسانی جسم و روح کے لئے ارفع ترین درجہ رکھتی ہو اور اس رہگزر میں ایک مسافر کو میسر نہ ہو۔ شکم سیری، لباس، آرام، حفاظت اور علاج جیسی مادی ضروریات کا معاملہ ہو یا محبت، انس، پیار، عزت، وقار اور حوصلہ افزائی جیسی معنوی اور روحانی نعمات۔۔۔ یہ سفر ہر دو پہلو سے اپنے مسافر کو بہترین انتہاؤں تک کی خدمت مہیا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک عزادار اپنی منزل یعنی حرمِ امامِ سیدالشہداؑء کے درِ رحمت تک پہنچ جاتا ہے۔ اپنے اس سفر کو بخیر انجام تک پہنچنے پر سجدہ ریز ہوتا ہے، عقیدت کے آنسو بہاتا ہے، غمِ اہلِ بیت میں گریہ کناں ہوتا ہے، دل کا بوجھ ہلکا کرتا ہے، روحانی مسرت حاصل کرتا ہے۔ پھر بوجھل قدموں اور بھاری شانوں کے ساتھ اپنے اپنے وطن کو واپس لوٹ جاتا ہے۔ بوجھل قدم اس لئے کہ عزادار قبیلے کے ایک فرد کا کربلا سے واپس لوٹنا کوئی آسان کام نہیں اور بھاری کاندھے اس لئے کہ ان کاندھوں پر نعمات و عطیاتِ خداوندی کا وہ ثقیل بوجھ ہوتا ہے، جس سے ایک عزادار کی گذشتہ و آئندہ نسلوں کی روحانی بخشش کی کفالت کا سارا سامان ہوتا ہے۔

بحمدللہ آج میں بھی اسی سرزمینِ کربلا پر بذاتِ خود بقائم ہوش و حواس موجود ہوں۔ زہے نصیب! میرا نام بھی گنتی کے اعداد سے ماورا اس خوشا نصیب مخلوق کی فہرست میں درج ہوا جسے "عزادارِ سیدالشہداءؑ" ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اپنے وطن سے بہترین ذرائعِ سفر سے استفادہ کرتا ہوا درِ مشکل کشاءؑ تک پہنچا اور وہاں سے مقامی مؤمنین کی بہترین خدمت سے مستفید ہوتا ہوا محض تین دن کے چند گھنٹوں میں پیدل چلتا ہوا باب الحوائج تک پہنچ گیا۔ خوشگوار موسم، موافق فضا، مناسب ماحول، پیار کرنے والے مصاحبین، عزت دینے والے راہگیروں اور خدمت کی انتہا کر دینے والے مقامی افراد کے ساتھ جس خوش اسلوبی کے ساتھ یہ سفر شروع ہوا تھا، محض تین دنوں میں یوں اختتام پذیر ہوا کہ زندگی کے آخری دم تک قلب پر ایک انمٹ نقش اور دماغ میں ایک یاد کی صورت میں تابندہ رہے گا، (انشاءاللہ)۔ راستے بھر وہ سہولت و آرام کہ ایک مسافر کے تصور سے بھی کہیں دور! شکم سیری، لباس، آرام، حفاظت اور علاج جیسی مادی سہولیات اور محبت، انس، پیار، عزت، وقار اور حوصلہ افزائی جیسی معنوی و روحانی نعمات  سے بھرپور۔۔۔

خدا کی معجزہ نما سرزمینِ کربلا پر کھڑا میں کبھی اپنے گرد و پیش میں موجود دو، ڈھائی یا تین کروڑ عزادارن کی جانب دیکھتا ہوں تو کبھی آسمان کی جانب نگاہ کرکے چشمِ تصور سے گنتی کی حدود سے کہیں دور مؤدب کھڑے فرشتگان، جنات، شہداء، صالحین و مرسلین کی جانب ۔۔۔ سوچ رہا ہوں کہ چودہ صدیاں قبل اسی سرزمین پر خلق کی کردہ ارزاں ترین مخلوق پانی کو خدا کے انمول افراد کے لئے نایاب کر دیا گیا تھا، چہ جائیکہ کسی خوانِ نعمت کا تذکرہ ہو۔ خدا کی کائنات کی نجیب و نفیس ترین ہستیاں پارہ پارہ بکھری پڑی تھیں۔ افضل ترین مخلوق کا نجیب ترین خون اسی سرزمین میں جذب کیا گیا تھا۔ پاکیزہ جسموں سے اطہر سروں کو  جدا کرکے نیزوں پر بلند کیا گیا تھا۔ تبرکاتِ رسولﷺ کو لُوٹا گیا تھا۔ مخدراتِ عصمت و طہارت کے ساتھ وہ برتاؤ برتا گیا تھا کہ جسکے بیان کی تاب نہیں۔ معصوم بچوں پر تشدد کے پہاڑ توڑے گئے تھے۔ مادی ظلم کی انتہا کے ساتھ ساتھ معنوی ظلم بھی اپنی انتہاؤں کو پہنچا دیا گیا تھا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی شریعتوں کے محافظین کی عزت کو جس بیدردی سے تاراج کیا گیا تھا، اس کی مثال تاریخِ کائنات میں کبھی نہ ملے گی۔ کیا کیا ستم کرکے آلِ رسولؑ کے نرم دلوں پر نشتر نہ برسائے گئے تھے۔ ظلم کی وہ داستان کہ جسے نہ کوئی لکھاری لکھ سکا اور نہ ہی کوئی راوی بیان کر سکا اور اپنے زائرین کے لئے دنیاوی و اخروی نعمات و عطیات کے وہ ثقلین ۔۔۔ کہ گذشتہ و آئندہ نسلوں کی بخشش و کفالتِ روحانی!!! شاید نہیں، یقیناً سرزمینِ کربلا ایک پراسرار سرزمین ہے اور اس میں مدفون ہستیاں اسرارِ الٰہی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 503030
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بلا شبہ چودہ صدیوں بعد آج بیس صفر، چہلمِ شہدائے کربلا ہے۔ کوئی دو کروڑ کہتا ہے، کوئی ڈھائی کروڑ تو کوئی تین کروڑ۔۔۔ جتنے کروڑ بھی ہوں، یہ مظہر اظہر من الشمس ہے کہ دنیا کی آج تک کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا اجتماع ہے۔
بہت عمدہ تحریر ہے۔
نذر حافی
ہماری پیشکش