0
Sunday 21 Feb 2016 00:30

پاک ایران تعلقات بحالی کیجانب گامزن

پاک ایران تعلقات بحالی کیجانب گامزن
تحریر: سید اسد عباس

جمعہ کے روز وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی صدارت میں بین الوزارتی اجلاس میں ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے لئے طریقۂ کار کو حتمی شکل دے دی گئی۔ وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق نئے نوٹیفکیشن کے بعد ایران پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے پابندیوں سے متعلق پچھلے تمام نوٹیفکیشنز ختم ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اس سلسلے میں جمعہ کو باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ اس اقدام سے دونوں ممالک کے درمیان بینکنگ، فنانس، انڈسٹری اور توانائی سمیت تمام شعبوں میں تعلقات بحال ہوں گے۔ علاوہ ازیں ایران اور پاکستان کے مابین اقتصادی و تجارتی تعلقات، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، بینکنگ، فنانس اور توانائی کے شعبوں میں تعلقات کا بھی ازسر نو جائزہ لیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ایران پر پاکستان کی جانب سے یہ پابندیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کے تحت لگائی گئی تھیں۔ جو کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے نیز اقوام متحدہ نیز دیگر مغربی ممالک کی جانب سے اٹھائی گئی پابندیوں کے بعد ختم کر دی گئی ہیں۔

محاورہ تو فارسی ہے لیکن اردو ادب نے اسے اپنا لیا ہے اور روزمرہ کی گفتگو میں بکثرت استعمال کیا جاتا ہے "دیر آید درست آید۔" کون نہیں جانتا کہ پاکستان اور ایران قریبی ہمسائے ہیں، جن کی نہ صرف بین الاقوامی سرحدیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں بلکہ تہذیب، ثقافت، زبان، تاریخ ہر چیز بے پناہ مشترکات کی حامل ہے۔ ایران پوری دنیا میں پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کے آزادانہ وجود کو قبول کیا۔ اسی طرح ایران ہی وہ پہلا ملک تھا جس سے قائد اعظم کی خصوصی ہدایت پر سفارتی تعلقات استوار کئے گئے۔ 65 کی پاک بھارت جنگ ہو یا 71 کا معرکہ ایران نے پاکستان کو کبھی تنہا نہ چھوڑا حتی کہ ایرانی سفارت کاروں نے عالمی اداروں میں پاکستان پر حملے کو ایران پر حملہ قرار دیا۔ اسی طرح پاکستان نے بھی عراق ایران جنگ کے دوران میں مصالحت کی بھرپور اور مخلصانہ کوششیں کیں۔ بابائے قوم محمد علی جناح بھی ایران سے نہایت قریبی تعلقات کے خواہاں تھے۔ جس کی وجہ مذہبی یگانگت، علاقائی ضروریات اور ثقافتی بندھن تھے۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد پاکستان نے ایران کے نئے نظام کو سب سے پہلے قبول کیا۔ دونوں ممالک کے مابین حالات جیسے بھی رہے، سفارتی تعلقات بہرحال استوار رہے۔ ایران اور پاکستان کے مابین کئی ایک علمی و سفارتی معاہدے ہوئے، جس کے تحت ایران نے پاکستان میں اپنے سفارت خانوں کے علاوہ بہت سے ثقافتی و علمی مراکز قائم کئے۔ پاکستان اور ایران علاقائی تنظیم ای سی او کے بانی رکن ہیں۔ ان حقائق کے باوصف یہ امر بھی حقیقت ہے کہ دونوں اقوام اپنی صلاحیات اور استعداد کے مطابق ایک دوسرے سے کماحقہ استفادہ نہ کرسکیں۔

ایران اور پاکستان کے مابین بینکوں کے ذریعے رقم کی منتقلی کا کوئی نظام یا طریقہ کار موجود نہیں ہے، دونوں ممالک کے مابین بین الاقوامی پروازیں اور ان کے مخصوص ایام انگلیوں پر شمار کئے جاسکتے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ ہم نے ایران سے ایک ملین ڈالر کی اشیا درآمد کیں اور ہماری برآمدات چھتیس ملین ڈالر تھیں۔ 2011ء میں باہمی تجارت ایک بلین ڈالر سے بھی کم رہی۔ حالانکہ عراق کے بعد ایران پاکستان کے باسمتی چاول کا دوسرا بڑا خریدار ہے۔ اسی طرح وہ اس قابل ہے کہ ہمیں سستی گیس اور بجلی نیز پیڑولیم مصنوعات مہیا کرسکے۔ لیکن یہ سب مواقع عالمی و علاقائی سیاست کی نظر ہوئے۔ اسی طرح ایران علمی و سائنسی ترقی کے اکثر میدانوں میں دنیا کے سرفہرست ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی، طبعیات، کیمسٹری، زراعت، مائیکرو بائیولوجی، طب غرضیکہ کوئی بھی میدان ہو ایرانی سائنسدان عالمی شہرت کے حامل ہیں۔ سائنسی تحقیق کے ایک عالمی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق ایران کے سائنسدانوں کے عالمی تحقیقی جرنلز میں سب سے زیادہ مقالات شائع ہوئے۔ یہ دونوں برادر اسلامی ملک اور قریبی ہمسائے اس میدان میں بھی باہمی تعاون کرسکتے تھے، تاہم ایسا کچھ نہ ہوا۔

تاہم اب ایران پر سے عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد صورتحال بدل چکی ہے۔ خطے کے دیگر ممالک ایران کے ساتھ تجارت کو وسعت دے رہے ہیں۔ چین کے صدر نے گذشتہ دنوں ایران کے ساتھ چھے سو بلین ڈالر کا معاہدہ کیا، ہندوستانی حکومت ایران کے اندر سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہندوستان کی ایران کے ساتھ تجارت کا حجم 2007ء میں تقریباً تیس بلین ڈالر تھا، جو یقیناً بہت بڑھ چکا ہے۔ اس صورتحال میں خطے میں اپنے تجارتی و اقتصادی مفادات کی نگہداری کے مدنظر ہمیں یقیناً اپنے اقتصادی و تجارتی تعلقات، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، بینکنگ، فنانس اور توانائی کے شعبوں میں تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے۔ ہم ایران سے مذہبی، جغرافیائی، ثقافتی اور لسانی اعتبار سے خطے کی دیگر اقوام سے قریب تر ہیں۔ ہمیں ان فطری قربتوں کو منافع بخش قربتوں میں بدلنا چاہیے، تاکہ خطے کے عوام باہمی اشتراک اور یگانگت کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرسکیں۔ ہم نے اگر آج بھی اپنی سابقہ روش کو جاری رکھا تو دنیا کے ہاتھ باندھے نہیں جاسکتے، خطے کی دیگر اقوام ترقی کے ایک نئے سفر پر گامزن ہوچکی ہیں، چین سے پہلی اقتصادی ٹرین تہران پہنچ چکی ہے، اسی طرح سمندری راستے سے بھارت ایران تک رسائی حاصل کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی اپنے زمینی، مذہبی اور ثقافتی راستوں کو استعمال کریں اور دونوں ممالک ایک دوسرے سے مزید قریب ہوں۔ سیاسی اختلافات ہر قوم کے ہوتے ہیں، تاہم ان سیاسی اختلافات کو اس قدر نہیں بڑھنا چاہیے کہ دو قریبی ہمسائے جن کے مشترکات ان کے اختلافات کی نسبت بہت زیادہ ہیں، ایک دوسرے سے اتنے دور ہو جائیں کہ دوسرے اس خلا کو پر کر دیں۔
خبر کا کوڈ : 522505
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش