0
Wednesday 25 May 2016 23:07

مصر کی جانب سے سعودی عرب کو اسٹریٹجک جزیروں کی تفویض

مصر کی جانب سے سعودی عرب کو اسٹریٹجک جزیروں کی تفویض
تحریر: داود احمد زادہ

مصر کے صدر جنرل السیسی کی جانب سے سعودی عرب کے نائب ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حالیہ دورہ مصر کے دوران دو اسٹریٹجک جزیرے "تیران" اور "صنافیر" سعودی عرب کو دے دیے گئے۔ ان جزیروں پر گذشتہ پچاس برس سے مصر اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ چلا آ رہا تھا۔ جنرل السیسی کے اس اقدام پر مصر کے اندر سے اور باہر سے مختلف قسم کے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمین کی اسلام پسند حکومت کی سرنگونی کے بعد یہ ملک کئی طرح کے سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا شکار ہو چکا ہے۔ دوسری طرف مصر میں بڑھتی ہوئی تکفیری دہشت گردی نے اس ملک کی سیاحت کی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مصر پر حکمفرما فوجی حکمرانوں کے مخالف اسلام پسند گروہوں میں تکفیری دہشت گردوں سے ملحق ہو جانے کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔ تکفیری دہشت گرد عناصر نے صحرای سینا کو اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آل سعود رژیم مصر میں صدر محمد مرسی کی قیادت میں اخوان المسلمین کی حکومت سے شدید پریشان اور خوفزدہ تھی۔ اگرچہ یہ حکومت ڈیڑھ سال سے زیادہ نہ چل سکی اور اس مدت میں بھی شدید مشکلات کا شکار رہی لیکن سعودی حکمران اس خوف کا شکار تھے کہ کہیں اس حکومت کے باعث خطے میں اخوان المسلمین کے اثرورسوخ میں اضافہ نہ ہو جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخوان المسلمین مصر اپنی 80 سالہ تاریخ کے باعث عرب دنیا کی سب سے بڑی نظریاتی اور سیاسی جماعت تصور کی جاتی ہے۔ لہذا اگر مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت مستحکم اور پائدار ہو جاتی تو اخوان المسلمین کے نظریات اہلسنت میں وہابی تکفیری نظریات کا بہترین نعم البدل ثابت ہو سکتے تھے۔ دوسری طرف مصر کے اندر اخوان المسلمین کا مخالف ایک ایسا سیکولر دھڑا موجود تھا جسے مصری فوج کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لہذا سعودی حکومت نے اس دھڑے کو مالی امداد دینا شروع کر دی اور اسے حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔ سعودی عرب کی یہ کوشش کامیاب ثابت ہوئی اور مصری فوج کے سربراہ جنرل السیسی نے سعودی حکمرانوں کی ایماء پر فوجی بغاوت کے ذریعے صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

مصر میں فوجی بغاوت کے بعد جب بین الاقوامی اداروں کی جانب سے مصر کے فوجی آمروں کی جانب سے عام شہریوں کے خلاف طاقت کے کھلے استعمال کے خلاف تنقید کی شدت میں اضافہ ہوا تو سعودی حکمران دوبارہ میدان میں کود پڑے اور خلیجی عرب ریاستوں کی مدد سے مالی امداد اور میڈیا پروپیگنڈہ کے ذریعے جنرل السیسی کی حکومت کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔ آل سعود رژیم کی جانب سے اس بھرپور حمایت کا مقصد مصر کو خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کیلئے استعمال کرنا تھا۔ سعودی حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ مختلف ممالک کو مالی امداد کے ذریعے انہیں اپنے مطلوبہ سیاسی اہداف کے حصول کیلئے استعمال کرتی آئی ہے۔ اسی طرح جب سعودی حکومت کو شام اور یمن میں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس شدید مشکل صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے اسے نئے اتحادیوں کی ضرورت پڑی لہذا اس نے مصر میں فوجی حکمرانوں کا سہارا لیا۔ دوسری طرف اگرچہ مصر اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے سعودی عرب کا شدید محتاج ہے لیکن اس کے باوجود خطے خاص طور پر شام اور یمن سے متعلق سعودی حکومت سے اس کے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مصر ہر گز نہیں چاہتا کہ شام میں صدر بشار اسد کی حکومت سرنگون ہو کیونکہ اس کے نتیجے میں سعودی عرب سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا جو وہ اپنے لئے انتہائی خطرناک تصور کرتا ہے۔ اسی طرح سعودی حکومت کی جانب سے یمن کے خلاف فوجی جارحیت میں مصر سے فوجی مشارکت پر شدید اصرار کے باوجود مصری حکومت نے صرف زبانی بیان کی حد تک سعودی عرب کی حمایت پر ہی اکتفا کیا ہے۔ اس زاویے سے سعودی فرمانروا ملک سلمان کا دورہ مصر اور مصر میں جاری اقتصادی ترقی کے پراجیکٹس اور زراعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کا فیصلہ انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔

علامتی الیکشن کے انعقاد اور ملکی آئین میں ترمیمات کے باوجود جنرل السیسی کو مصر میں فوجی حکومت کے تسلسل میں شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملک کے اندر سیکورٹی فورسز کے شدید تشدد کے باوجود اسلام پسند حلقے اور 6 اپریل نامی انقلابی جوانوں کی تحریک بدستور احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کی طرف سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال اور سیاسی مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ اور عدالتی قتل کے باعث مصر کا معاشرہ شدت پسندی کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے باعث ملک میں اقتصادی سرگرمیاں جمود کا شکار ہو چکی ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری کے راستے میں بھی بہت زیادہ رکاوٹیں موجود ہیں۔ دوسری طرف مصر کی موجودہ حکومت خطے کی سطح پر موثر اور فعال کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے اور اندرونی بحرانوں اور کمزوریوں کے باعث خطے میں موجود بحرانوں میں زیادہ موثر اقدامات انجام نہیں دے سکتی۔ لہذا مصر کی حکومت پر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور سعودی حکومت دونوں کی طرف سے خاصا دباو ہے۔ اسرائیل اس بات سے پریشان دکھائی دیتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں سرگرم بعض جہادی گروہوں کا صحرای سینا میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر سے رابطہ ہو سکتا ہے لہذا اسے اپنی سلامتی خطرے میں پڑتی نظر آتی ہے۔

یہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ اسرائیل اور مصر کے درمیان طے پانے والے معروف کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی رو سے یہ طے پایا تھا کہ صحرای سینا اور دو اسٹریٹجک جزائر تیران اور صنافیر میں کسی قسم کی فوجی سرگرمیاں انجام نہیں دی جائیں گی۔ لہذا اسرائیل سے امن معاہدے کی رو سے مصر کو صحرای سینا میں فوجی آپریشن کا حق حاصل نہیں اور صرف اقوام متحدہ سے وابستہ امن فورس ہی اس خطے میں فوجی کاروائی انجام دے سکتی ہے جبکہ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اس خطے کی ملکیت مصر کے پاس ہی رہے گی۔ اب مصر کے صدر جنرل السیسی نے یہ دو جزیرے یعنی تیران اور صنافیر سعودی عرب کے حوالے کر دیے ہیں اور نتیجتاً آبنائے تیران کا کنٹرول بھی سعودی عرب کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ صدر السیسی نے مخالفین کی جانب سے تنقید کے ردعمل میں یہ موقف اپنایا ہے کہ یہ دو جزیرے سعودی عرب کی دریائی حدود میں آتے ہیں اور 1967ء میں اسرائیل کے خلاف جنگ کے دوران جنگی صورتحال کے پیش نظر محدود مدت کیلئے مصر کے حوالے کئے گئے تھے۔

دوسری طرف اسرائیل اگرچہ جزیرہ تیران سے اپنی کشتیوں کی آزادانہ آمدورفت اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے بے خطر آمدورفت کے بارے میں زیادہ راضی دکھائی نہیں دیتا لیکن دو جزیروں تیران اور صنافیر کی سعودی عرب کو تفویض پر خوش نظر آتا ہے اور اسے عرب دنیا خاص طور پر ریاض سے اپنے تعلقات مزید بہتر ہونے کا سبب قرار دیتا ہے۔ لہذا توقع کی جا رہی ہے کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اپنے سیاسی اور سیکورٹی مفادات کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے مصر کے اس اقدام کو سراہے گی۔ خطے سے متعلق سعودی عرب کی پالیسیاں ایران کی مخالفت پر مبنی ہیں۔ مصر سیاسی اور مالی اعتبار سے سعودی عرب کا محتاج ہونے کے ناطے مشرق وسطی کا طاقتور کھلاڑی تصور نہیں کیا جاتا۔ لہذا نیا سعودی – اسرائیلی اتحاد قائم ہونے کے بعد اس بات کا احتمال موجود ہے کہ ایران کو خطے میں نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لہذا مصر کی جانب سے مختصر مدت کے اقتصادی مفادات کے بدلے تیران اور صنافیر جزیروں کو سعودی عرب کی تحویل میں دیے جانے کا سب سے زیادہ اسٹریٹجک فائدہ اسرائیل کی صہیونی رژیم اور آل سعود رژیم کو پہنچے گا۔ سعودی حکومت اگرچہ بظاہر فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ بلند کرتی ہے لیکن عمل کے میدان میں اب تک اس نے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے خلاف کوئی سنجیدہ اور موثر اقدام نہیں کیا۔

سعودی عرب کو دو اہم جزیرے عطا کرنے پر مبنی مصری اقدام کے خطے کے علاوہ مصر کے اندر بھی مختلف اثرات ظاہر ہوں گے۔ یہ اقدام ملک کے اندر پہلے سے موجود سیاسی بحران کی شدت میں اضافے کا باعث بنے گا اور مصری حکومت عوام کی نظر میں قانونی جواز کھو دے گی۔ مصری حکومت کی جانب سے اپنے اس فیصلے کے مخالفین کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال اور ملک کی اہم شخصیات جیسے محمد البرادعی کی جانب سے اس اقدام کی کھلم کھلا مخالفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ مصری عوام حکومت کے آمرانہ رویوں اور شدید غربت کے باعث حکومت کی کھلی مخالفت سے گریز کرتے ہیں لیکن ایسے قومی گروہ اور بائیں بازو کی جماعتیں موجود ہیں جو 6 اپریل کی تحریک میں شامل جوانوں کی مدد سے حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ یہ گروہ 2011ء کے ادھورے انقلاب کو حقیقی منزل مقصود تک پہنچانے کیلئے پرعزم دکھائی دیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر حکومت کے اس نامعقول اقدام کے خلاف تنقید کی جا رہی ہے۔

لہذا اگرچہ خطے کی سطح پر بعض عرب حکومتیں اور اسرائیل مصر کے اس اقدام کی تعریف کر رہے ہیں لیکن مصری حکومت کا یہ فیصلہ ملک کی اندرونی صورتحال کے مزید پیچیدہ ہونے اور سیاسی مخالفین کے مضبوط ہونے کا باعث بنا ہے۔ مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک اگرچہ سعودی عرب اور مغربی ممالک سے اسٹریٹجک تعاون کر رہے تھے اور انہوں نے عرب اسرائیل امن مذاکرات میں پل کا کردار ادا کیا لیکن وہ ان اسٹریٹجک جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے کرنے پر راضی نہ تھے۔ مصر کی اپوزیشن جماعتوں کی نظر میں جنرل السیسی کا یہ اقدام وطن سے غداری اور قومی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ مصر کی موجودہ فوجی حکومت کی جانب سے مخالفین کے خلاف شدید اور کڑی کاروائیوں کے باعث احتجاج کی آواز قدرے دب گئی ہے لیکن اخوان المسلمین اور دیگر حکومت مخالف جماعتیں اس مسئلے کو موجودہ حکومت کے قانونی جواز پر سوالیہ نشان اٹھانے کیلئے بھرپور طریقے سے استعمال کریں گی جس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں مصر کی فوجی حکومت شدید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 541096
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش