0
Saturday 24 Sep 2016 01:55

فاٹا، پاکستان کا مسائلستان اور یہاں کا نوجوان(2)

فاٹا، پاکستان کا مسائلستان اور یہاں کا نوجوان(2)
تحریر: ثمرینہ خان وزیر
(مصفنفہ، فاٹا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (خواتین ونگ) کی جنرل سیکرٹری ہیں، سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ فاٹا کے نوجوانوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کررہی ہیں۔ قانون کی تعلیم مکمل کرکے ابھی وکالت کررہی ہیں۔ بنیادی طور پر فاٹا کی جنوبی وزیرستان ایجنسی سے تعلق رکھتی ہیں۔ مختلف پروگرامز، ورکشاپس، ایونٹس کا حصہ رہ چکی ہیں اور فاٹا کے نوجوانوں کے مسائل پر کئی مباحثوں میں حصہ لے چکی ہیں۔)

اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کیلئے فاٹا میں تعلیمی ادارے نہیں ہیں۔ فاٹا کے نوجوان حصول تعلیم کی غرض سے جب فاٹا کے باہر تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تو وہاں داخلوں کا تعلیمی معیار اتنا بلند ہوتا ہے کہ یہاں کے نوجوان مقابلہ نہیں کر پاتے۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ فاٹا کے اندر جو کیڈٹ کالج بھی کھولے گئے ہیں، ان میں بھی فاٹا کے نوجوانوں کا کوٹہ انتہائی کم اور دیگر علاقوں کے بچے وہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ فاٹا، جہاں 68 سالوں میں ایک بھی یونیورسٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا، وہاں کے نوجوان خصوصاً طالب علم احساس محرومی کا شکار نہیں ہونگے تو کیا ہوگا۔ 68 سالوں بعد ایک یونیورسٹی کی منظوری دی گئی پانچ کمروں پر مشتمل یہ ادھوری عمارت قبائلی نوجوانوں کیساتھ مذاق سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں نوجوانوں میں فنی صلاحتیں پیدا کرنے کیلئے ایف ڈی اے جو پروگرام لانچ کرتی ہے وہ کمپیوٹر آپریٹرز، مکینک، مشین آپریٹرز طرز کے پروگرام ہوتے ہیں، جو کہ میٹرک یافتہ نوجوانوں کی حدتک تو قابل قبول ہوسکتے ہیں مگر اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان ان پروگرامز کو اپنے لیے سرکاری مذاق ہی سمجھتے ہیں۔ اگر کبھی اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے کوئی اچھی ملازمتیں یا سکالرشپس یا سکیمز جاری ہوں بھی سہی تو ان کے اوپر این ٹی ایس کا غلاف لپیٹ کے مخصوص طریقہ کار کے ذریعے فاٹا کے نوجوانوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔

اسی طرح سی ایس ایس، پی ایس کے مقابلوں میں فاٹا کے نوجوان اپنی کم تعلیمی استعداد کی بدولت کم تعداد میں شرکت کرتے ہیں جبکہ صوبوں کے نوجوان فاٹا کے ڈومیسائل بنوا کر ان نشستوں پر بھی قبضہ کرلیتے ہیں کہ جن پر فاٹا سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعیناتی قانون بھی ہے اور ضرورت بھی۔ یہ طرز عمل بالآخر باغیانہ سوچ کے جنم کا موجب بنے گا۔ آج قبائلی جوان یہی سوچتا ہے کہ کیوں ترقی کی شاہراؤں پر ، سرکاری اداروں میں باوقار عہدوں پر، اداروں میں قدم قدم پر اس کی راہ میں مختلف قسم کی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ؟جب ریاست کو ضرورت پڑتی ہے تو اسی نوجوان سے جنگ کا کام بھی لیتی ہے، پھر اپنے فائدے کیلئے اسی نوجوان پر جنگ مسلط بھی کرتی ہے اور اس مسلط کردہ جنگ کو تدبیر کا نام بھی دیتی ہے، مگر یہی نوجوان جب اس ماحول سے عاجز آکر قومی ترقی کے دھارے میں شامل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو ہر دروازہ بند ملتا ہے۔ ایک قبائلی ہونے کے ناطے میرا مشورہ یہی ہے کہ حکومت کو اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہیئے اسے سوچنا اور دیکھنا چاہیئے کہ اس نے کیا اسباب پیدا کیئے ہیں۔ فاٹا کے نوجوان کیلئے آج سرکاری آفیسر بننا زیادہ آسان ہے یا شدت پسند، دہشت گرد تنظیم کا مہرہ۔

شناخت جو کہ بنیادی انسانی ضرورت ہے، فاٹا کے عوام اس حوالے سے بھی ابہام کا شکار ہیں۔ کوئی بھی شہری جب اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچتا ہے تو اسے قومی شناختی کارڈ جاری ہوتا ہے ، جس کی بنیاد پر پورے پاکستان میں اسے مکمل حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ تاہم قبائلیوں کو نقل و حمل برقرار رکھنے کیلئے وطن کارڈ بھی حاصل کرنا پڑتاہے۔ علاوہ ازیں انہیں وہ بنیادی شہری حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے کہ جو دیگر پاکستانیوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں جب دنیا کے بیشتر نوجوان کمپیوٹر، انٹر نیٹ، سافٹ ویئرز،سائنس کی جدید ترین ایجادات سے مستفید ہورہے ہیں، اسی دوران فاٹا کے کئی مکین ٹی وی چینل سے نابلد ہیں، بیشتر تو اس شش وپنج کا شکار رہتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں موبائل کے بہتر سگنل کس ملک کے ہیں۔ جن کے سکول کھنڈر، کھیل کے میدان ویران ہوں، جدید تعلیم کے دروازے بند ہوں اور بنیادی سہولیات سے محروم ہوں، جن کے ساتھ ریاست دوہرا معیار اپنائے۔ اس علاقے کے نوجوانوں سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ بھلا ہو موبائل کمپنیوں کا کہ جنہوں نے تھری جی انٹر نیٹ فراہم کرنے کی کوشش کی مگر سکیورٹی خدشات کی بناء پر اسے بھی بند کردیا گیا۔

فاٹا میں درپیش مسائل سے تنگ آکر جب نوجوان ملک کے دیگر بندوبستی علاقوں کا رخ بھی کریں تو کمزور تعلیمی پس منظر، انتشار زدہ ماحول کے دباؤ کے باعث وہ صحیح معنوں میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاپاتے اور وہاں بھی احساس محرومی کا شکار ہوکر آسانی سے شدت پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث یا پھر انتہاپسند گروہوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی و انتہاپسندی سے متعلق رپورٹس کا جائزہ لیں تو چند حقائق اظہر من الشمس ہیں۔
اول۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاست کے خلاف ہونیوالی دہشتگردی اور مذہبی انتہاپسندی یا فرقہ ورانہ قتل و غارت میں فاٹا کے نوجوانوں کا انتہائی بیدردی سے استعمال کیا جارہا ہے۔
دوئم۔ ان جرائم میں ملوث فاٹا کے نوجوان فاٹا میں رہتے ہوئے ان منفی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنے بلکہ زیادہ تعداد ان نوجوانوں کی ہے کہ جو مستقبل بنانے صوبوں و بڑے شہروں میں گئے اور ان سرگرمیوں کا شکار ہوئے۔
سوئم۔ فاٹا کے اندر رہتے ہوئے نوجوان دینی و قبائلی پس منظر کے باوجود اتنے شدت پسند واقع نہیں ہوتے ، جتنے وہ انتہا پسند تنظیموں سے تعلق واسطے کے بعد ہوتے ہیں۔
چہارم۔ فاٹا کی اندرونی فضا متعصبانہ نہیں ہے، فاٹا میں تعصب ، منافرانہ سوچ بھی درآمد شدہ ہے ، یعنی باہر سے انجکیٹ کی گئی ہے۔

فاٹا میں کسی کی مدد کرنے سے پہلے اس کا قومی، قبائلی،
دینی، مسلکی پس منظر مدنظر نہیں رکھا جاتا جبکہ پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں ایسا ہوتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ گرچہ فاٹا مسائل کی آماجگاہ و جنگ زدہ ہے مگر یہاں کے لوگوں کا اندرونی مزاج نرم، پیار ومحبت اور خوش اخلاقی پر مبنی ہے، جبکہ مزاجاً فاٹا کے لوگوں، خاص طور پر رویوں کی منفی تصویر پیش کی جاتی ہے۔ چنانچہ یہ انتہائی اہم نکتہ جسے سمجھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے، کہ کسی علاقے کے عوام کی اچھائیوں کو پس پشت ڈال کر فقط ان کی منفی تصویر کو ہی اجاگر کیا جائے تو یہ رویہ اشتعال انگیزی کا باعث بنتا ہے۔

فاٹا میں کام کرنے والی این جی اوز کی تعداد پاکستان کے کسی بھی شہر میں کام کرنے والی این جی اوز سے زیادہ ہے۔ البتہ دیگر شہروں و صوبوں میں تو یہ این جی اوز بھاری بھر کم معاوضوں پر سٹاف تعینات کرتی ہیں جبکہ فاٹا میں جب کام کرنے کیلئے پہنچتی ہیں تو یہاں بلامعاوضہ خدمات لیتی ہیں ، جبکہ فاٹا کے نوجوان بشمول تعلیم یافتہ خواتین سیکھنے اور اداروں سے تعلقات کی مد میں بخوشی اپنی توانائیاں صرف کرتی ہیں۔ این جی اوز کے مقامی سٹاف میں بھی زیادہ تر تعیناتی بیرونی افراد کی ہوتی ہے۔ حالانکہ نجی ادارے بشمول این جی اوز اگر یہا ں کے نوجوانوں کی تعلیم، صلاحتیوں اور دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی صلاحتییں کو بامعاوضہ بروئے کار لائیں تو مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ استعداد بڑھانے اور ترقی کے نام کے پر جو پروگرام فاٹا کے نوجوانوں کیلئے شروع کئے جاتے ہیں، ان میں انتظامی خامیاں اور فاٹا کے نوجوانوں سے عدم مشاورت کے باعث وہی پروگرام بجائے مثبت اثرات کے منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔

انٹرنیٹ کے ذریعے یہاں کے نوجوانوں نے آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو پہلے انٹر نیٹ سروس معطل تو بعدازاں سائبر کرائم بل جیسے قوانین نافذالعمل ہوئے۔ جن کے باعث کلمہ حق بولنے والی ہر زبان کو قانونی گرفت میں آنے کا اندیشہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فاٹا کے نوجوان کو غیر متحرک غیر فعال رکھنے کی کوششوں کے بجائے اسے خوداعتمادی، خودمختاری کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے اور اس کی عزت نفس کو کم سے کم مجرو ع کیا جائے۔ سیاست، تعلیم، کھیل کے میدانوں میں اس کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اگر ملکی و صوبائی سطح پر مختلف انواع کے ایونٹس کا جو سلسلہ جاری ہے، گاہے بگاہے ان کا انعقاد فاٹا میں بھی کیا جائے اور فاٹا کے نوجوانوں کو بھی اس میں اپنی سرگرمیاں اور صلاحیتیں اجاگر کرنے کے مواقع دیئے جائیں۔ اگر فاٹا کے نوجوانوں کو کلچرل ایکسچینج جیسے پروگرامز کی صورت میں دیگر باعز ت طریقے سے وسائل میسر ہوں تو کوئی شک نہیں کہ فاٹا میں منفی سوچ ،نوجوانوں میں انتہا پسندانہ روش کا خاتمہ ہو۔ تعلیمی و تربیتی پروگرام شخصیت پر بہترین اثرات مرتب کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل فاٹا کے جن نوجوانوں کو پاک امریکہ ثقافتی تبادلہ پروگرام میں شرکت کا موقع ملا وہ نوجوان نہ صرف معاشرے میں عدم برداشت کے خاتمے اور بھائی چارے اوراحترام آدمیت کے فروغ کیلئے متحرک ہیں بلکہ اپنے مستقبل کیلئے ان کے پاس کچھ مشخص راہیں موجود ہیں۔ چنانچہ ایسے پروگرام ہونے چاہیئے۔

شدت پسندی کوئی عمارت نہیں جو کہ بلڈوزر، کرین یا طیاروں کے ایک ہی ہلے میں گراد ی جائے۔ اس کیلئے مستقل اور مسلسل باعمل حکمت عملی درکار ہے، اس حکمت عملی میں فاٹا کے نوجوان جتنا زیادہ شامل ہوں گے، نتائج اتنے ہی ثمر آور ہوں گے۔ نوجوانوں کی ترقی، کوئی ایونٹ نہیں کہ ایک روز منعقد کرکے ہر کوئی خود کو بری الذمہ قرار دے، بلکہ یہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، جسے مثبت و متحرک سوچ کے ساتھ جاری رہنا چاہیئے اور کرپشن و اقربا پروری یا متعصبانہ روش سے پاک رہنا چاہیئے، تاکہ اس کے نتائج خوب سے خوب تر ہوں۔ پرائمری ایجوکیشن ، سکول کی تعلیم ہی کسی بھی علاقے و خطے میں تعلیم نظام کی بنیاد بنتی ہے۔ فاٹا کے لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں، جو سکولوں میں جاتے تھے، ان میں سے بیشتر کے سکولز تباہ ہیں، کئی سکولز ایسے ہیں جنہیں ترقی یا وسائل کا ضیاع روکنے کی غرض سے بند کردیا گیا ہے۔ کیا کبھی سکول بند کرنے سے بھی تعلیم عام ہوئی ہے، کیا کسی قوم نے تعلیم عام کئے بغیر بھی ترقی کی ہے۔ ؟یقیناًہرگز نہیں ۔ فاٹا کی ، فاٹا کے لوگوں کی، فاٹاکے نوجوانوں کی ترقی کیلئے فاٹا میں تعلیم کی ترقی ضروری ہے، اس کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ سکول کھولے جائیں ، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم دی جائے۔ فاٹا کے نوجوانوں کو بھی کالجز، یونیورسٹیوں کی نعمت سے مسفید کیا جائے۔ دشمن کے بچوں کو پڑھانے سے پہلے اپنے بچوں کو بھی پڑھانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

فاٹا کے نوجوانوں کی استعداد بڑھانے اور تعلیمی ترقی کیلئے پروگرامز کو پولیٹیکل انتظامیہ کے اثر سے پاک رکھنے کی ضرورت ہے، ظاہر ہے کہ جس ایف سی آر قانون کو پوری دنیا ناانصافی سمجھتی ہے اور نوجوان اسے ظلم سے تعبیر کرتے ہیں ، اسی قانون کے تحت انتظامیہ کو کیسے قبول کیاجاسکتا ہے۔ جواب میں پولیٹیکل انتظامیہ کا رویہ بھی نوجوان دوست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی فاٹا کے نوجوان بے تابی سے اس دن کا انتظار کررہے ہیں جب فاٹا کو باقاعدہ طور پر خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے اور دیگر پاکستانیوں کی طرح یہاں کے عوام کو بھی ان کے بنیادی حقوق میسر آئیں۔ گرچہ آج کا فاٹا، پاکستان کا مسائلستان ہے، جہاں نوجوان کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا ہے، اور حکومت وقت سے نوجوان شاکی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر فاٹا کے نوجوان کو بھی وہ تمام لوازمات میسر ہوں جو ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے نوجوانوں کو حاصل ہیں تو کوئی شک نہیں کہ یہ نوجوان بھی ملک کا نام روشن کرنے اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔
(تمام شد)
خبر کا کوڈ : 569487
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش