4
0
Sunday 25 Sep 2016 10:34

عید غدیر…۔۔ تمدنی پہلو

عید غدیر…۔۔ تمدنی پہلو
تحریر: اشرف سراج گلتری
a.seraaj512@gmail.com


تمدن یعنی مل جل کر رہنا، تعلقات انسانی کو نبھانا۔ تخلیق کائنات سے ہی اللہ تعالٰی نے کائنات کی تمام مخلوقات کو جوڑا جوڑا خلق فرما کر ایک تمدنی مرکز قائم کیا اور آدم (ع) کو اسی کی مرکزیت عطا کی۔ لہذا ایک مسلمان اپنے تمدں و فرھنگ میں مطلق العنان نہیں ہے بلکہ وہ اپنے خالق کی رہنمائی کا محتاج ہے۔ اسی لئے خداوند متعال نے اپنے خاص لطف سے انسان کی عملی رہنمائی کے لئے حضرت آدم (ع) کو تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ ابتداء انسان سے لے کر ہر دور میں چاہے ایک مختصر سا گروہ ہی سہی، مگر اس کی ہدایت و رہنمائی کے لئے خدا نے ایک نمونہ عمل خلق کیا ہے۔ یاد رہے کہ خدا کی یہی سنت حضرت آدم (ع) سے لے کر حضرت خاتم (ص) کے نظام ہدایت میں جاری و ساری رہی۔ حتٰی کہ ہر زمانے میں خداوند متعال نے جو بھی نبی مبعوث کیا، حتماً اسکے کے بعد اس کے لئے اس کا جانشین بھی قرار دیا، تاکہ اس نبی کے بعد اسکی امت بے وارث و بے یار ومددگار نہ رہے۔ خداوند متعال کی یہ روش فقط سابقہ  ادیان کے ساتھ مخصوص نہیں تھی، بلکہ اس کی یہ سنت اسلام میں بھی کارفرما ہے اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ خدا کی یہ سنت باقی ادیان میں تو ہو، مگر دین اسلام میں یہ سنت باقی نہ رہی ہو، بلکہ جانشین و رہبر کی جتنی ضرورت حضرت خاتم (ص) کے بعد کے زمانے کو تھی، شاہد ہی ایسی ضرورت کسی اور زمانے میں پیش آئی ہو، کیونکہ حضرت خاتم (ص) کے بعد دین کے اکمال کا مرحلہ تھا۔ کیونکہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہونے کے ناطے عالمگیر حاکمیت کا بھی خواہاں ہے اور جب اسلام نے انسان کی رہبری کی ذمہ داری اٹھائی ہے تو ضروری ہے کہ اسلام کے قوائد و ضوابط کے نفوذ کے لئے ایک مرد کامل موجود ہو۔

اب یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ایک ناقص کسی کامل کا انتخاب نہیں کرسکتا تو پھر یہ کسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ انسان کہ جو خود ہدایت و رہنمائی کے محتاج ہیں، وہ اپنے لئے کسی مناسب ہادی و رہنما کا انتخاب کریں اور اگر ایسا ہوتا بھی تو یہ ہرگز ممکن نہیں تھا کہ چند افراد کے انتخاب پر تمام امت کا اتفاق ہوتا، کیونکہ فطرتاً ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔ لہذا اس بناٗ پر امت میں بعد از رسول (ص) رہبر و جانشین کے انتخاب کی ذمہ داری یا تو خود رسول اکرم (ص) کے ذمہ تھی یا پھر حاکم شارع خود خداوند متعال کے ذمہ۔ جبکہ صاحبان قرآن اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ رسول خدا (ص) نے اپنی پوری زندگی میں اپنی مرضی سے نہ ہی کوئی قدم اٹھایا اور نہ ہی کبھی اپنی مرضی سے کوئی کلام کیا۔ لہذا اس بنا پر فقط ایک ذات یعنی ذات خدا وندی ہی ہے کہ جو بعد از رسول خدا (ص) انسانوں کے لئے مناسب رہنما کا انتخاب کرے۔ تاریخ سے آشنائی رکھنے والے افراد اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں یہ کام خود خدا وند متعال نے ہی اپنے رسول (ص) کے توسط سے مقام غدیر خم میں انجام دیا کہ جس پر اکثر علماء اسلام کا اتفاق ہے۔ اس پر قرآن کی صریح آیت (یاایھا الرسول بلغ ما انزل۔۔۔۔۔۔) دلالت کر رہی ہے اور وہ مسئلہ، مسئلہ رہبر و امامت ہی تھا کہ جس کی خاطر خداوند متعال نے اپنے حبیب سے اس لہجے مین بات کی کہ اے رسول (ص) اگر آپ نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا اپنی تمام رسالت کو انجام نہیں دیا اور یہی وہ حقیقت ہے کہ جس کو پہچاننے و سمجھنے میں امت مسلمہ نے خطا کی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ تمام واقعہ کہ جو مقام خم میں رونما ہوا، آیا کیا وہ تمام کا تمام اتفاقی تھا؟ اور اس  واقعہ سے پہلے رسول خدا (ص) کا تمام علاقائی و قبائلی سرداروں کو خطوط لکھ کر اس سال حج کی دعوت دینا، آیہ غدیر کا نازل کا ہونا، مقام خم میں اگلوں کو پیچھے جبکہ پچھلوں کا انتظار کرنا، کیا یہ سب اتفاقی تھا؟ پھر ایک بڑے انتظام کے بعد گرمی کی اس شدت میں، پہلے اپنی ولایت کا اقرار لینا اور پھر علی ؑ کو بلند کرکے لوگوں کے سامنے لانا، کیا یہ سب فقط اسلئے تھا کہ رسول خدا (ص) فقط یہ بتانا چاہتے تھے کہ "جس جس کا میں دوست ہوں، آج سے علی ؑ بھی اسکے دوست ہیں؟ اور پھر موقع پر تمام صحابہ اکرام (رض) کا علیؑ کو مبارک دینا، کیا دوستی کے سبب تھا؟ لمحہ فکریہ ہے کہ انتے سال گزرنے کے باوجود بھی امت مسلمہ نے غدیر کو اس زاویے سے کیوں نہ سوچا۔ اس کے دو سبب ہوسکتے ہیں یا تو واقعہ غدیر امت مسلمہ کی نظر مورد اہمیت ہی نہیں یا پھر آج تک غدیر کے معاملے میں خیانت سے کام لیا گیا ہے۔ آخر مین یہ کہتا چلو کہ یاد رکھو کہ امت اسلامیہ کی تمام مشکلات کا حل صرف اور صرف غدیر میں ہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 570264
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ماشاء اللہ بے خوبصورت تحریر ہے۔
zahid astori
Norway
سلام ماشاءاللہ انشاءالله همیشه سلامت و در کارهایتان موفق و سر بلند باشید
Kashif Ali
Switzerland
Well done Ashraf bhai
بشارت حسین
Europe
mashallah
ہماری پیشکش