0
Monday 26 Sep 2016 21:30

واقعہ مباہلہ، ہادی، ہدایت اور روش حق(2)

واقعہ مباہلہ، ہادی، ہدایت اور روش حق(2)
تحریر: سید اسد عباس

بہرحال، تیسرے روز نجران کے وفد اور رسالت مآب ؐ کے مابین گفتگو کا آغاز ہوا، یہ گفتگو کافی تفصیلی ہے، جس میں جانبین کی جانب سے دلائل پیش کئے گئے۔ جب علمائے نجران نے دیکھا کہ جو بھی بات کہی جاتی ہے، اس کا دندان شکن جواب ملتا ہے تو وہ حضرات جو ریاست دنیا کے چکر میں اسلام لانا نہیں چاہتے تھے، انھوں نے مناظرہ کو ختم کر دیا اور کہنے لگے کہ اس طرح کے جوابات ہمیں مطمئن نہیں کر رہے ہیں، لہٰذا ہم آپ سے مباہلہ کرنے پر تیار ہیں۔ یعنی دونوں طرف کے لوگ ایک جگہ جمع ہو کر خداوند عالم سے دعا اور راز و نیاز کریں اور جھوٹوں پر لعنت کریں، تاکہ خدا جھوٹوں کو ہلاک کر دے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آیت مباہلہ کے نزول پر انکی اس بات کو قبول کر لیا۔
"پس جو تم سے علم آنے کے بعد بھی جھگڑے تو کہہ دو آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلائیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، بعدازاں ہم خوب دعا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیں۔"

اکثر مورخین اور مفسرین اس بات کے قائل ہیں کہ رسالت مآب ؐ حسنین کریمین، جناب سیدہ فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کے ہمراہ مباہلہ کے لئے نکلے۔ مباہلہ کے لئے نکلنے والی اس ہیئت میں بہت سے باریک نکات ہیں، جنہیں مورخین، مفسرین اور علم کلام کے ماہرین نے بیان کیا ہے۔ ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ رسالت مآب امام حسین علیہ السلام کو اٹھائے ہوئے تھے اور امام حسن علیہ السلام ان کی انگلی تھامے ان کے ہمراہ چل رہے تھے۔ یہ عمل حکمتوں سے خالی نہیں، اگر حسنین کریمین ؑ کو ان کے والدین نے اٹھایا ہوا ہوتا تو لوگ اعتراض کر سکتے تھے کہ بچے والدین کے ہمراہ خود سے آگئے، تاہم رسالت ماب ؐ کا ان بچوں کو خود اٹھا کر لانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان بچوں کو ابنائنا کا مصداق بنا کر میدان مباہلہ میں لایا گیا ہے۔ ایک باریک نکتہ اور وہ یہ کہ جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا بنت علی ابن طالب علیہ السلام چھ ہجری میں مدینہ میں پیدا ہوئیں اور بعض روایات کے مطابق جناب ام کلثوم بنت امام علی ؑ ماہ ربیع الاول 9 ہجری میں متولد ہوئیں۔ اس ترتیب میں کہیں تذکرہ نہیں کہ جناب سیدہ زینب یا ام کلثوم جو بالترتیب اس وقت قریباً تین سال اور چند ماہ کی تھیں، بھی ہمراہ تھیں، اس کا مطلب یہ کہ اگر حسنین کریمین ؑ کو چھوڑنا ہوتا تو اپنی ہمشیرگان کے ہمراہ چھوڑا جا سکتا تھا۔

بہرحال عصر حاضر کے بعض مفسرین نے اس شکل و صورت کو قابل اعتنا نہ سمجھا اور اس کا تذکرہ ہی نہیں کیا جبکہ بعض اس ہیئت میں کوئی فضیلت نہیں دیکھتے۔ اس عنوان سے ایک تحقیقی مضمون ’’آیہ مباہلہ اور برصغیر کے مفسرین‘‘ البصیرہ کے چیئرمین جناب ثاقب اکبر نے حال ہی میں تحریر کیا ہے، جو پڑھنے کے لائق ہے۔ اس مضمون میں جناب ثاقب اکبر نے برصغیر میں شائع ہونے والی مختلف تفاسیر کو سامنے رکھتے ہوئے آیہ مباہلہ کے حوالے سے مفسرین کے نقطہ نظر کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تحقیقی مقالہ میں درج ذیل تفاسیر سے استفادہ کیا گیا ہے:
مولانا ابو محمد عبدالحق الحقانی دہلوی (م1642ء)، تفسیر فتح المنان، المشھوربہ تفسیر حقانی، مولانا سید صدیق حسن بھوپالوی(م1890ء )، ترجمان القرآن بلطائف البیان، سر سید احمد خان (م 1898ء) تفسیر القرآن، مولانا سید احمد حسن(م1919ء )، احسن التفاسیر، مولانا اشرف علی تھانوی(م1943ء )، تفسیر بیان القرآن، علامہ شبیر احمد عثمانی(م1949ء )، تفسیر عثمانی، مولانا مفتی محمد شفیع (م 1972ء )، معارف القرآن، مولانا سید ظفر حسن امروہوی(م تقریباً 1977ء)، تفسیر القرآن، مولانا سید ابو الاعلٰی مودودی(م 1979ء)، تفہیم القرآن، غلام احمد پرویز (م 1985ء)، مطالب الفرقان، علامہ سید علی نقی النقوی(م1988ء )، تفسیر فصل الخطاب، مولانا محمد ادریس کاندھلوی( م1982ء) معارف القرآن، مولانا امین احسن اصلاحی(م1997ء)، تدبر قرآن، پیر محمد کرم شاہ الازہری(م1997ء)، ضیاء القرآن، ذیشان حیدر جوادی(م 2000ء)، ترجمہ و تفسیر قرآن مجید، مولانا شیخ محسن علی نجفی(دامت برکاتہ)، الکوثر فی تفسیر القرآن۔

جناب ثاقب اکبر نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا:  "سادہ سا طریقہ تو یہ تھا کہ واقعہ جیسے رونما ہوا، اسے ویسے ہی مان لیا جاتا۔ اللہ اور رسولؐ نے جسے جو مرتبہ اور فضیلت بخشی اسے تسلیم کر لیا جاتا، کس نے کسی واقعے سے کیا نتیجہ نکالا، اسے پیش نظر رکھ کر واقعات کی کھینچ تان ایک مومن کے شایان شان نہیں۔" بہرحال یہ بھی اس واقعہ کا ایک اہم پہلو ہے جبکہ اس واقعے کے دیگر سماجی او سیاسی پہلوؤں سے بھی صرف نظر نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ واقعہ اسلام کے بیان کردہ اصول تبلیغ، مکالمہ، حسن تعامل اور برتاؤ کا بہترین نمونہ عمل ہے، جسے آج بھی مکالمہ بین المذاہب اور بین المسالک میں اپنایا جانا چاہیے۔ جب رسالت مآب ؐ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا، حضرات حسین کریمین علیہم السلام اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے ہمراہ مباہلہ کے لئے مدینہ سے میدان مباہلہ کی جانب روانہ ہوئے تو شرحبیل (عاقب کا معتمد اور نجران کا بڑا عالم) نے اپنے دوستوں سے کہا کہ خدا کی قسم! میں وہ صورتیں دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ خدا سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو یقیناً وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔ ان سے ڈرو اور مباہلہ نہ کرو، اگر آج محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مباہلہ کروگے تو نجران کا ایک بھی عیسائی اس روئے زمین پر باقی نہیں رہے گا۔ خدا کے لئے میری یہ بات ضرور مان لو، چاہے بعد میں کچھ ماننا یا نہ ماننا۔

شرحبیل کے اصرار نے نجران کے علماء کے دلوں میں عجیب اضطرابی کیفیت پیدا کر دی اور انھوں نے اپنے ایک آدمی کو پیغمبر کی خدمت میں بھیج کر ترک مباہلہ کی درخواست کی اور صلح کی التماس کی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس گزارش کو قبول کیا اور صلح نامہ لکھا گیا، جس کی عبارت حسب ذیل ہے، ایک شکست کردہ گروہ کے لئے اس قدر سہل شرائط کا حامل معاہدہ بذات خود اسلام کے تصور تقریب بین المذاہب کو بیان کرتا ہے:  یہ اللہ اور رسول اللہ ؐ کی طرف سے اہل کتاب میں سے مسیحیوں کے لئے، جو اہل نجران کے دین پر ہیں، ان کے لئے امان ہے، اس کو محمد بن عبداللہ نے جو اللہ کے رسولؐ ہیں، انہوں نے تمام لوگوں کی طرف لکھا ہے۔ اس عہد نامہ کی شرائط کو مندرجہ ذیل نکات میں پیش کیا جا سکتا ہے:
1۔ ان کی جان محفوظ رہے گی۔
2۔ ان کی زمین، جائیداد اور مال وغیرہ ان کے قبضے میں رہے گا۔
3۔ ان کے کسی مذہبی نظام میں تبدیلی نہ کی جائے گی۔ مذہبی عہدے دار اپنے اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
4۔ صلیبیوں اور عورتوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔
5۔ ان کی کسی چیز پر قبضہ نہیں کیا جائے گا۔
6۔ ان سے فوجی خدمت نہیں لی جائے گی
7۔ اور نہ پیداوار کا عشر لیا جائے گا۔
8۔ ان کے ملک میں فوج نہیں بھیجی جائے گی۔
9۔ ان کے معاملات اور مقدمات میں پورا انصاف کیا جائے گا۔
10۔ ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے گا۔
11۔ سود خواری کی اجازت نہ ہوگی۔
12۔ کوئی ناکردہ گناہ کسی مجرم کے بدلے میں نہ پکڑا جائے گا۔
13۔ اور نہ کوئی ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔

آپؐ نے ان کو تمام چیزوں کی ضمانت دینے کے بعد اس معاہدہ پر عمل درآمد کی یقین دہانی کراتے ہوئے تمام مسلمانوں کے لئے لکھا: "آپؐ کے بعد تمام مسلمانوں کے لئے اس معاہدہ کی پاسداری کرنا ضروری ہے، مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس معاہدے کو پہچانوں اس کو تسلیم کریں اور اس کی حفاظت کریں۔ کوئی بھی حکمران یا کسی بھی حکمران کا کوئی نمائندہ اس کو توڑ نہیں سکتا اور نہ ہی اس میں کوئی تجاوز کرسکتا ہے، جو اس معاہدے میں لکھ دیا گیا ہے، اس کی تمام شرائط کی پیروی کی جائے گی، جو کوئی اس میں لکھے کی پاسداری کرے گا اور اس عہد کو پورا کرے گا تو اس نے عہد کو پورا اور اس ذمہ داری کو ادا کیا، جو رسول اللہؐ کے ذمہ تھی اور جس کسی نے بھی اس کی مخالفت کی اس کو تبدیل کیا تو اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہوگا، اس نے اللہ کی امانت میں خیانت کی اور عہدِ خدا کو توڑ دیا اور نافرمانی کی اور اللہ کے رسولؐ کی مخالفت کی ایسا شخص اللہ کے ہاں جھوٹا ہے۔

واقعہ مباہلہ اور اس سے جڑے تمام تر واقعات منجملہ اہل نصاریٰ کی مدینہ میں آمد، اہل یہود کا جمع ہونا، مسجد نبوی میں ان مہمانوں کی مہمان نوازی، ان کو عبادت کا حق دینا، مدینہ میں نقل و حمل کی آزادی، ان کے دلائل کو نہایت تحمل سے سننا اور ان کو دلیل کے ذریعے قانع کرنے کی کوشش کرنا، مناظرہ کو قبول نہ کرنے پر مباہلہ کی دعوت کو قبول کرنا، مباہلہ سے پسپائی پر صلح نامہ کی ایسی شرائط جو فریق مخالف کے لئے قابل قبول ہوں کی تیاری، نہ صرف یہ کہ خود ان شرائط کو قبول کرنا بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ان شرائط کی پاسداری کو لازم قرار دینا۔ یہ تمام امور اسلام کی اعلٰی تعلیمات کا مظہر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ واقعہ مباہلہ سے ہادی، ہدایت اور روش حق کے حصول کے لئے اس کے مختلف گوشوں کو تحقیقی انداز سے مطالعہ کیا جائے۔ آج جبکہ شدت پسندی اور دہشت گردی اسلامی معاشرے میں رسوخ پاچکی ہے، یہ واقعہ ہمارے لئے مینارہ نور ہے۔ اگر ہم نے واقعہ مباہلہ کی روش کو اپنایا ہوتا تو کبھی بھی معاشرہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کی دلدل میں نہ دھنستا۔ کبھی دیگر مذاہب کے لوگ اس اعلٰی الٰہی دین سے دور نہ ہوتے۔ کبھی کسی غیر مسلم یا مسلمان کی گردن مذہبی اختلاف کی وجہ سے نہ کاٹی جاتی۔ افسوس ہم نے نہ صرف مباہلہ کے ہادیوں سے صرف نظر کیا بلکہ اس واقعہ میں موجود ہدایت اور روش حق کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا۔ خداوند کریم ان عظیم مناسبتوں کے طفیل امت مسلمہ کو برحق ہادیوں، ہدایت اور روش حق کی پہچان اور پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 570561
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش