19
0
Wednesday 28 Sep 2016 00:59

مولانا عبدالعزیز سے ملاقات اور چند معروضات

مولانا عبدالعزیز سے ملاقات اور چند معروضات
تحریر: نادر بلوچ

عید الاضحٰی سے چند روز قبل لال مسجد کے خطیب اور جامعہ حفصہ کے روح رواں مولانا عبدالعزیز سے جامعہ حفصہ میں ملاقات ہوئی، اس ملاقات کا اہتمام ڈان اخبار کے سینیئر صحافی قلب علی نے کیا، جو خود لاپتہ افراد کے حوالے سے معلومات اور موقف لینا چاہتے تھے۔ سات ستمبر کو ہم دونوں جامعہ حفصہ پہنچے، تاہم وہاں ایک مولانا صاحب نے یہ کہہ کر ہمیں بھگا دیا کہ ہم میڈیا سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ ہم مزید کسی مسئلے میں الجھنا نہیں چاہتے، مولانا احتشام نے آپ لوگوں کو بلاکر زیادتی کی ہے، لہذا آپ جا سکتے ہیں۔ یوں قلب علی اور میں جامعہ حفصہ سے پارلیمنٹ کی طرف چلے گئے۔ ابھی پارلیمنٹ کے کیفے میں پہچنے ہی تھے کہ مولانا احتشام کا فون آیا کہ اگر آپ لوگ قریب ہیں تو مولانا عبدالعزیز سے ملاقات ہوسکتی ہے، قلب علی نے مجھ سے پوچھا کہ کیا پروگرام ہے، مل لیتے ہیں، میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اور یوں 20 منٹ بعد ہم جامعہ حفصہ پہنچ گئے، جہاں مولانا احتشام ہمارے انتظار میں کھڑے تھے۔ مولانا ہمیں ایک کمرے میں لے گئے، جہاں کچھ دیر بعد مولانا عبدالعزیز صاحب بھی تشریف لے آئے۔

مولانا عبدالعزیز نے سلام دعا کی اور آنے کا مقصد پوچھا۔ اس پر قلب علی نے موضوع پر آتے ہوئے کہا کہ مولانا ابھی اگست کا مہینہ ختم ہوگیا ہے اور عدالتوں میں سالانہ تعطیلات بھی ختم ہونے والی ہیں، اس لحاظ سے مسنگ پرسنز کے کیسز دوبارہ لگ رہے ہیں، اس بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ خیر اس موضوع پر مولانا عبدالعزیز نے انہیں تمام تفصیلات فراہم کیں، اس دوران مولانا کی جانب سے خالص دودھ اور سیب کے ساتھ ہماری تواضع بھی کی گئی۔ بحث جاری تھی کہ میں نے بھی چند سوالات پوچھ لئے۔ استفسار کیا کہ مولانا کیا وجہ ہے کہ آپ کا شمار بھی ان علماء میں ہوتا ہے جو تکفیر کے قائل ہیں، علماء دیوبند کی بڑی تعداد اس مسئلہ پر آپ کے موقف کی تائید نہیں کرتی۔ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، کیا ایک مسلمان ریاست میں یہ مناسب طرز عمل ہے؟ اس پر مولانا نے کہا کہ یہ انتہائی حساس مسئلہ ہے، اس پر بات نہ کی جائے تو بہتر ہے، میں نے کہا کہ مولانا آپ تو اس کا اظہار ایک ٹاک شو میں کرچکے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ممکن ہے کہ اس ٹاک شو کے بعض مندرجات کی ایڈٹنگ کی گئی ہو، اس لئے آپ کا مکمل موقف سمجھنا چاہتا ہوں۔

مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ شیعہ حضرات حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کو مسلمان نہیں سمجھتے ہیں، اسی لئے میں اس چیز کا قائل ہوں۔ دوسرا آپ نے جس ٹاک شو کا حوالہ دیا ہے تو میں یہ بتا دوں کہ اس ٹاک شو میں مجھے نہیں بتایا گیا تھا کہ دوسری طرف خانم طیبہ بخاری ہیں، اگر ان کا پتہ چل جاتا تو میں اس ٹاک شو میں شریک نہ ہوتا۔ اس پر عرض کیا کہ جناب اہل تشیع کے تمام صاحب سند علماء ایسے کسی موقف کی حمایت نہیں کرتے۔ وہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ یہ تینوں شخصیات مسلمان نہیں تھیں۔ یہ رائے آپ نے کہاں سے بنا لی ہے۔ شیعہ کے رہبر اعلٰی آیت اللہ خامنہ ای نے تو باقاعدہ اس پر فتویٰ بھی دیدیا ہے اور امہات المومنین کی توہین کے عمل کو حرام قرار دیدیا ہے، اس کا تو آپ لوگ خیر مقدم کرتے، پھر یہ عمل کیوں؟ مولانا نے کہا کہ اس پر بےتحاشا ویڈیوز یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر پڑی ہیں۔ میں نے کہا کہ جناب چند جاہل لوگ جو کسی کے ایجنٹ بھی ہوسکتے ہیں، جو تفرقہ چاہتے ہوں اور اہل تشیع کے لبادے میں موجود ہوں، ان کی باتوں پر آپ کیسے ایک پورے مکتب کی تکفیر کرسکتے ہیں، کیا آپ کی نگاہ میں وہ لوگ بھی کافر ہیں، جو تینوں محترم شخصیات کو مسلمان سمجھتے ہیں؟ اس پر مولانا عبدالعزیز نے جواب دیا کہ نہیں، وہ کلی طور پر اس کے قائل نہیں ہیں، جو ان تینوں شخصیات کو مسلمان سمجھتے ہیں، میں انہیں مسلمان ہی سمجھتا ہوں، میں ان کی تکفیر کا قائل نہیں ہوں۔

غازی فورس اور آپریشن ضرب عضب پر مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ غازی فورس کوئی وجود نہیں رکھتی، ممکن ہے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے واقعہ کے بعد کچھ لوگوں نے انتقاماً کچھ ایسے اقدامات کئے ہوں، لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ نے جو بھی عدالتی سسٹم بنایا ہوا ہے، خواہ اب وہ فوجی عدالتیں ہی کیوں نہ ہوں، ان میں ملزمان کو پیش تو کریں، ان پر الزام ثابت کرکے پھر پھانسیاں دیں، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پولیس مقابلہ ظاہر کرکے لوگوں کا مار دیا جائے۔ اس وقت آپ دیکھیں کہ ریاست پاکستان سے کوئی بھی خوش نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اہل تشیع اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کے ساتھ بھی زیادتی ہو رہی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ پہلے لوگ خوش تھے کہ دیوبندی مر رہے ہیں، لیکن اب سب کی باری لگی ہوئی ہے۔ سچ پوچھیں تو مجھے ریاست خانہ جنگی کی طرف جاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ کا جو بھی سسٹم ہے، کم از کم اس کے مطابق تو سزائیں دیں اور عمل کریں۔ ماورائے عدالت کام کیوں انجام دیتے ہیں۔؟

مولانا عبدالعزیز نے ہمیں اپنا پرنٹنگ پریس بھی دکھایا، جہاں مختلف موضوعات پر لیٹریچر چھپتا ہے، ایک ٹیم جو مسلسل اس پر کام کرتی ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کے فائدے سے لیکر مختلف دینی موضوعات پر کتابیں اور بروشرز پرنٹ کئے جاتے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز نے آخر میں اس پرنٹنگ پریس پر چھپنے والی چند کتابیں بھی ہمیں گفٹ کیں۔ ملاقات کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ اگر مختلف مکاتب فکر کے علماء ایک دوسرے کی طرف آئیں، اپنے نظریات پر مشتمل کتابیں اور لیٹریچر کا تبادلہ کریں اور طرفین کی جانب سے بغیر تعصب کے علمی انداز میں ایک دوسرے کو سمجھیں تو بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اگر بعض غلط فہمیوں کی وجہ سے مولانا تکفیر کے قائل ہیں، ان غلط فہمیوں کو دور کیا جانا چاہیے، خود شیعہ علماء کو اپنے آپ کو اس حد تک محدود نہیں کرنا چاہیے کہ معاشرے میں غلط فہمیاں جنم لیں اور اس کا ازالہ بھی نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان اس حوالے سے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے سے ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اگر ملی یکجہتی کونسل یہ بیڑا اٹھائے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء ان جگہوں پر جائیں، جہاں یہ مسائل درپیش ہیں اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں تو میرے خیال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بہت بہتر کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ تکفیرت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، انہیں یہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ حتٰی مولانا احمد لدھیانوی کو بھی ٹیبل پر یٹھانا ہوگا۔ اگر کچھ لوگ ان کوششوں کے باوجود بھی تکفیر کرتے ہیں تو پھر ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ہی انہیں ملت اسلامیہ سے جدا کر دینا چاہیئے، کیونکہ پھر ثابت ہو جائے گا کہ یہ عناصر کسی ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ راقم نے اس موضوع پر شیعہ علماء کونسل کے رہنما علامہ عارف واحدی سے بھی بات کی تھی کہ مولانا احمد لدھیانوی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر علامہ ساجد نقوی صاحب یہ یقین دہانی کرا دیں کہ تشیع کی طرف سے اصحاب رسول کی تکفیر اور توہین نہیں ہوگی تو ان کی جماعت شیعوں کو کافر کہنا چھوڑ دے گی۔ لہذا ملت اسلامیہ کے وسیع تر مفاد میں یہ اقدام کریں، تاکہ تکفیر جیسی لعنت سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکے۔ اس پر جو علامہ عارف واحدی نے کہا کہ انہیں فریق مخالف پر اعتبار نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ وہ کسی بھی ملاقات کو غلط رنگ دینا شروع کر دیں۔

خیر میری دیوبند علماء سے التجا ہوگی کہ وہ اس اعتماد کو بحال کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ اسی موضوع پر ہی میری مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس سے بھی بات ہوئی، اس پر انہوں نے کہا تھا کہ اگر علامہ ساجد نقوی صاحب یہ اقدام کرتے ہیں تو ہم انہیں مکمل سپورٹ کریں گے۔ اگر کوئی بھی فرد ہماری کوششوں سے غلط کام سے باز آ جاتا ہے تو ہمیں یہ کوششیں جاری رکھنی چاہیئے۔ میری تمام مکاتب فکر کے علماء سے التجا ہوگی کہ خدارا بہت کشت و خون ہوچکا، اب اس وطن کو امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کیا وجہ ہے کہ مسیحیت میں بھی بےپناہ فرقے ہیں، لیکن وہاں ایک دوسرے کی تکفیر اور مارا ماری نہیں ہے، اسی طرح ہندوں کو ہی دیکھ لیں، ان میں کئی فرقے موجود ہیں، لیکن کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے ایک دوسرے کے قتل کا فتویٰ دیا ہو یا مارا ہو۔ اسی طرح یہودیوں کے کئی فرقے ہیں، لیکن کبھی خبر نہیں پڑھی کہ کسی یہودی نے مخالف سوچ والے کو قتل کر ڈالا ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جن کا قرآن کہہ رہا ہے کہ تفرقے میں مت پڑو، لیکن وہ قوم تفرقے کی گہرائیوں کو چھو رہی ہے۔ وہ اسلام جو ایک انسان کے قتل کو تمام انسانوں کا قتل قرار دیتا ہے، وہاں آج جنگ و جدل جاری ہے۔
خبر کا کوڈ : 570883
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نذر حافی
Iran, Islamic Republic of
برادر نادر بلوچ صاحب آپ کی ملاقات کا احوال جان کر خوشی ہوئی اور میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بہت سارے مسائل ہمارے علمائے کرام کی ملاقاتوں سے بھی حل ہوسکتے ہیں۔
خداوند عالم آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور امت مسلمہ کو ملت واحدہ میں تبدیل کر دے۔
والسلام
محمدعلي شريفي
Iran, Islamic Republic of
نادر بلوچ صاحب آپ نے درست فرمايا: جب تك ٹهنڈے دماغ سے ايك دوسرے كے مذهبي عقايد كو نهيں پڑهيں گے، اس طرح كي غلط فهمياں هميشه رهيں گي، لهذا ضروري هے کہ عام لوگوں كي باتوں كو بنياد بنانے كے بجائے اس مذهب كے اعتقادات كو انكي معتبر كتابوں سے پڑهيں۔
علی اصغر عمران
Pakistan
یہ حقیقت ہے کہ ہر مسئلہ کا حل جب بھی نکلے گا ٹیبل ٹاک سے ہی نکلے گا، چاہے آپ کے جانی دشمن ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر مخلص علماء میدان عمل میں اس کام کو انجام دینا چاہییں تو شاید ریاست بھی ایسے افراد کی پشت پناہی چھوڑ دے۔ یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ ریاستی ادارے بھی ایسے افراد کے پشت پناہ بنے نظر آتے ہیں اور معاملات کو سلجھانے کی بجاۓ الٹا الجھا دیتے ہیں۔ جس طرح حالیہ شیخ محسن نجفی، شیخ شفا نجفی، آغا امین شہیدی اور آغا راجہ ناصر عباس کی زبان بندی و انجماد بنک اکاونٹس جو کہ بلاوجہ اور ایک جاہلانہ فیصلہ ہے۔ اگر ریاست اس حوالے سے مخلص اور سیریس ہو جاۓ تو یہ مسائل حل ہوں کہ کیونکہ ایسے افراد یا تنظیموں جو تکفیر کرتی ہیں، کے پیچھے بھی ادارے، ممالک اور افراد ہوتے ہیں، جو ایسے افراد کو اکساتے ہیں۔ صرف ان افراد کے یہ اپنے فیصلے نہیں ہوتے، یہ صرف کٹھ پتلیاں ہوتی ہیں۔
طاہر یاسن طاہر
Pakistan
عمدہ اور دل کو چھوتی ہوئی تحریر۔۔۔نادر بھائی مگر تکفیر کا مسئلہ کلی طور حل ہونے والا نہیں۔۔جہاں ایک طرف سے ایک پوری ریاست کے باسیوں کے خلاف فتویٰ آجائے وہاں تکفیر کے قائل اسے اپنی ’’دینی کامرانی‘‘ سمجھتے ہوئے اس فتنے کی آبیاری کے لئے مزید تیزی سے کام کریں گے۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اپنے فقہی عقائد کو تھامے ہوئے دوسروں کے عقائد کا احترام کیا جائے۔۔ اختلافات کی نوعیت علمی ہے، انھیں گلی کوچوں کے لونڈوں کے ہاتھ نہ دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔ایک دوسرے کی بات سمجھے بغیر کہہ دینا کہ فلاں ۔۔فلاں کی توہین کرتا ہے، کسی بھی طور علمی رویہ نہیں۔
فیصل عمران چوہدری
Sri Lanka
برادر بزرگوار انتہائی قابل احترام نادر عباس بلوچ، ان علماء کا مسئلہ تکفیر کرکے اپنی دکاندار کو فروغ دینا ہے، اگر ان کو صرف انہی شخصیات کے مسلم ہونے تک کا مسئلہ ہو تو ممکن ہے بات ہوسکے، لیکن وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلیں گے اور بہت کچھ ڈیمانڈ کریں گے۔ اگر وہ ہماری تکفیر چھوڑ دیں تو ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔ لیکن خدا سے دعا گو ہیں ہم امن آئے اور کفر کی فیکٹریاں بند ہوں۔۔۔ ہمیں اپنی حجت تمام کرنا ہوگی۔۔۔
Iran, Islamic Republic of
نہایت ہی معذرت، اگر آپ صدر اسلام میں ہوتے تو حتماً امام حسین کو بهی یزید سے ایک ٹیبل پر بیٹهنے کا مشوره دیتے اور کہتے مذاکرات کرو ؟!!! یہ لوگ گستاخ امام زمان اور شیعہ کو علناً کافر کہتے ہیں اور یہ افراد عوام نہیں بلکه آئمہ کفر ہیں، جو جان بوجھ کر عمداً کفر و جہالت و فساد فی الارض کی راه پہ گامزن ہیں، ان کا راه حل تلوار ذولفقار اور شیوه امام علی ہے اور یہ تمام اس دور میں خوارج کا مصداق ہیں۔ لہذا شیعہ قیادت اور نمائنده ولی فقیہ کی پالیسی بلکل درست ہے۔
ارشاد ناصر
Pakistan
تکفیر کا ایشو اتنا سادہ نہیں نادر بھائی، یہ اب عالمی ایشو ہے، یہ تکفیر اب چینلز پر بھی ہوتی ہے جسے دنیا دیکھتی ہے، پاکستان کے تکفیری ملا اس دن بھوکے مر جائیں گے جب انہوں نے ہماری تکفیر سے ہاتھ اٹھا لیا۔ باقی یہ بات بھی اہم ہے کہ کسی نا کسی سطح پر ہر ایک سے روابط رکھے جائیں، تاکہ بوقت ضرورت کام آئیں۔ ارشاد حسین ناصر
Iran, Islamic Republic of
یزید اور یزیدیت زنده باد کہنے والوں کے ساتھ روابط؟! ناصر صاحب کیا ہوگیا آپ کو؟!! روابط، ضوابط کے تخت ہوتے ہیں۔ یہ لوگ خوارج ہیں، معذرت آپ کا مقصد ابن الوقت بننا یقیناً نہیں ہوگا۔
Iran, Islamic Republic of
ملی یکجهتی کونسل کا وظیفہ گندگی کے ڈهیر پر جاکر گند کو اٹهانا اور گهر لانا ہے۔؟!! اب یزید زنده باد کہنے والوں کو بلائیں تاکہ وه پهر کوچہ و بازار میں شیعہ کافر اور امام زمانہ کی توہین کا نعره لگائیں اور شیعہ پهر قتل عام ہوں ؟!!! تمہیں ہو کیا گیا ہے، کیوں خوارج کے خلاف سیرت امام علی بهول گے ہو۔؟!!!
Iran, Islamic Republic of
عجب منطق ہے تمهاری، ایک طرف مسلم لیگ نون اور فضل الرحمن جو ولی امر مسلمین کو ایران میں ملنے آتا ہے، کے ساتھ اگر شیعہ قومی جماعت ملی یکجہتی کونسل میں ملاقات کرے تو تم اعتراض کرتے ہو اور خود کافراعظم اور گستاخ امام زمان کے جانشین کے ساتھ مذکرات کا مشوره دیتے ہو۔؟!!!
توقیر ساجد
Pakistan
افسوس، ایک شخص کو میڈیا کے پروگرام پر پابندی لگا دی گئی ہے، اس کا انٹرویو کرکے فخریہ انداز میں اس کو مظلوم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز کی اس پالیسی پر تشویش ہے۔
نادر بلوچ
Pakistan
گذشتہ ماہ العالم کو دیئے گئے انٹرویو میں جب صحافی نے سید حسن نصراللہ سے سوال کیا کہ کیا شام میں داعش سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو اس کے جواب سید حسن نے فرمایا کہ اگر مذاکرات سے کشت و خون رک سکتا ہے تو وہ خود مذاکرات میں بیٹھنے کیلئے تیار ہیں۔ اگر امام حسن علیہ السلام ملت اسلامیہ کے وسیع تر مفاد کی خاطر خلافت سے دستبرار ہوسکتے ہیں تو ہم لوگ غلط فہمیوں کے ازالے کیلئے کام کیوں نہیں کرسکتے۔؟؟؟؟
بردار یہ مولانا صاحب اتنے سادہ نہیں ہیں کہ انہیں پتہ نہ ہو کہ شیعہ مسلک کے نزدیک پہلے تین خلفاء کے بارے میں کیا خیالات ہیں۔... یہ بات انہوں نے صرف اپنی تکفیری سوچ کو جواز دینے کے لئے گھڑی ہے .... کیونکہ یہ لوگ اتنے سادہ نہیں جتنے نظر آرہے ہیں بلکہ یہ لوگ عالمی تکفیری گروہ کے پاکستان میں نمائندہ ہیں ...
عرفان علی
Pakistan
شیعہ مسلمان اپنا ایک عقیدہ رکھتے ہیں اور اس میں اصول دین میں امامت پر ایمان بھی لازمی حصہ ہے۔ امام حسن علیہ السلام کے دور میں اگر امت اسلامی اپنے وظیفے پر عمل کرتی تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ شیعہ یعنی علی ولی اللہ، یعنی علی امام، یعنی چہاردہ معصومین کی عظمت و عصمت و طہارت پر ایمان، ان کا مسئلہ وہ تین بزرگان نہیں ہیں بلکہ عقیدہ امامت سے دستبرداری کا مطالبہ ہے۔ الحمد اللہ علامہ ساجد نقوی کے دیوبندی علماء سے اچھے تعلقات ہیں اور بعض بریلوی تنظیموں سے علامہ راجہ ناصر کی ہم اہنگی، اسلامی اتحاد کے لئے اسلامی مکاتب فکر کے درمیان مکالمہ ہوگا نہ کہ تکفیریوں سے، سعودی علماء کا تازہ ترین بیان آچکا ہے کہ کسی کی تکفیر کرنا خطرناک ہے، اللہ فیصلہ کرنے والا ہے ﴿یعنی کون کافر ہے کون مسلمان﴾۔ کسی شیعہ کو اپنے مسلمان ہونے کے لئے کسی دوسرے کی سند کی ضرورت نہیں، سنی مسالک جو ایمان مجمل اور ایمان مفصل کا ورد کرتے ہیں وہ دیکھ لیں، شیعہ مسلمان ان سب پر ایمان رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ، رسول، ملائکہ، یوم آخرت وغیرہ، صحابہ کرام پر ایمان لانا دین کا حصہ نہیں ہے، رسول اکرم ص کے مطابق جو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کرے، دل سے اس پر یقین کرے، سنی کتب احادیث کے مطابق وہ مسلمان ہے۔ جب ایک کلمہ گو کو ایک صحابی نے قتل کر دیا تھا تو رسول اللہ ص بہت ناراض ہوئے تھے، صحاح ستہ کی کتب میں یہ واقعہ موجود ہے۔ جب پاکستان کے مسیحی تثلیث کا عقیدہ رکھ کر بھی اور رسول خدا ص کو نہ مان کر بھی اہل کتاب کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کے حقوق ہیں تو کیا ہم قران کو اور رسول خدا کو مانتے ہوئے بھی ان سے بھی کمتر ہوگئے کہ کوئی عقیدہ امامت کو بنیاد پر ہم پر حملہ آور ہوجائے۔ نادر صاحب یہ مائنڈ سیٹ شکست خوردگی کی علامت ہے۔ ہم اپنے عقیدے کے مطابق ہی زندگی گذاریں گے، یہ ہمارا بنیادی انسانی حق ہے، مذہبی بھی، ثقافتی بھی، شہری حق بھی اور آئینی و قانونی حق بھی۔ ہم اسلام کی شیعہ فقہ کی تشریح کے مطابق زندگی گذارنے میں آزاد ہیں اور ریاست پاکستان ان تکفیریوں کے خلاف ایکشن کی پابند ہے، جو ہمارے اس حق کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ہمیں کافر کہے یا ہمیں قتل کرے۔ ایسی کونسی آفت نازل ہوگئی ہے کہ اب تکفیریوں کے لئے نرم گوشہ پیدا ہورہا ہے۔ شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں، تکفیری نہیں۔ تکفیریوں کو تائب ہونا ہڑے گا، وہ اسلام کی مرکزی اتھارٹی تو کیا اپنے مسلک کی بھی اتھارٹی نہیں ہیں۔ جس کا ثبوت ملی یکجہتی کونسل کا موجودہ فورم بھی ہے، جہاں مسلمان مکاتب یکجا ہیں۔ یہ کہ سنی مقدسات کی توہین نہ کرنا لازم قرار دیا گیا ہے امام خامنہ ای کی طرف سے۔ یعنی کوئی نازیبا لفظ استعمال نہ کیا جائے اور اسی چیز کی ضرورت ہے کہ ہم سنی مقدسات کے حوالے سے احترام کے قائل ہوں، لیکن یہ کہ ان پر ایمان لے آنا، یہ تو خود اسلام کے واجبات میں سے نہیں ہے۔
Iran, Islamic Republic of
احسن عرفان صاحب، آپ واقعاً ان اسلام ٹائم وحدتی برادران میں مومن آل فرعون ہیں۔ اس میں کوئی غلو نہیں بلکہ ہر دور اور ہر گروه میں بالآخر انصاف پسند خدا جو مل ہی جاتا ہے حق کہنے والا۔
Pakistan
سلام۔ ارے میرے بھائی کیوں ان کو میرے پیچھے لگا رہے ہو، خدا خدا کرکے تو جان چھوڑٰی ہے۔ میں ایک گناہگار آدمی ہوں۔ ): عرفان
Iran, Islamic Republic of
سید حسن سید مقاومت کا مقصد کشت و کشتار روکنا اور تمهارا اس خارجی یزیدی خبیث کو مظلوم بنانا کس بنا پر؟!!
Iran, Islamic Republic of
سید مقاومت کی بات صرف حکم ثانوی اور مقصد کشت و کشتار روکنا جبکہ تمهاری بات کس دلیل کی بنا پر۔؟!!
Iran, Islamic Republic of
اول احکام اسلام سمجهو بعد مین نظر دو۔
ہماری پیشکش