0
Saturday 24 Dec 2016 02:28

بشار الاسد کے جرائم

بشار الاسد کے جرائم
تحریر: صابر کربلائی

بشار الاسد جو امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، جرمنی اور یورپی ممالک سمیت عرب بادشاہتوں کے نزدیک مجرم اور جرائم کا ارتکاب کر چکا ہے تو وہ جرائم کیا ہیں، ان جرائم کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس سے قبل مختصراً بشار الاسد کے اقتدار اور اس کے حوالے سے نتائج کے بارے میں خلاصہ بیان کرنا بھی ضروری ہے۔ بشار الاسد جو گذشتہ سولہ برس سے شام کے صدر ہیں، یہ صدارت انہیں تین مرتبہ ہونے والے مختلف انتخابات کے نتائج میں حاصل ہوئی ہے۔ پہلے انتخابات جو بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے انتقال کے بعد 2000ء میں ہوئے تھے، ان انتخابات میں بشار الاسد کو شام کے 99.7 فیصد عوام نے ووٹ دے کر سات برس کے لئے شام کا صدر منتخب کیا تھا، اسی طرح دوسرا انتخاب کا مرحلہ 2007ء میں انجام پایا، اس مرتبہ بھی عوام نے بڑھ چڑھ کر بشار الاسد کو ووٹ دیئے اور اگلے سات سالوں کے لئے ملک کا صدر منتخب کیا۔ اس مرتبہ بشار کو 97.6% فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد نے 1971ء سے 2000ء تک تقریباً انتیس برس شام پر صدارتی حکمرانی کی تھی۔ 2014ء میں ایسے وقت میں شام میں ایک مرتبہ پھر انتخابات منعقد کئے گئے، جب شام میں عرب بہار کے نام پر امریکی اور اسرائیلی تربیت یافتہ دہشت گرد گروہوں داعش، جبھۃ النصرہ اور احرار الشام سمیت نہ جانے ایک سو سے زائد دہشت گرد گروہ عوام سمیت سرکاری افسران اور افواج کا قتل عام کرنے اور مغربی و عربی سامراج کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوششوں میں مصروف عمل تھے۔

ان کی خواہش اور کوشش تھی کہ بشار الاسد شام کا اقتدار چھوڑ کر چلے جائیں اور شام تین حصوں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عربی و غربی سامراج کے ہاتھوں کی کٹ پتلی بن کر رہ جائے۔ بہرحال ایسے حالات میں بھی 2014ء کے انتخابات میں شام کی 88.9 فیصد عوام نے ایک مرتبہ پھر اپنے اسی صدر کو منتخب کر لیا، جس کے بارے میں مغربی و عربی سامراجی بادشاہتیں یہ پراپیگنڈا کر رہی ہیں کہ بشار الاسد عوام کا قاتل ہے اور اسے اقتدار پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ حیرت انگیز بات تو یہ بھی ہے کہ بشار الاسد کے خلاف یہ مطالبات عرب سامراج کی وہ مطلق العنان بادشاہتیں کر رہی تھیں، جن کے خود اپنے ممالک میں جمہوریت نہیں اور یہی وہ عرب سامراج کے بادشاہ تھے، جو شام و عراق میں دولۃ الاسلامیہ کے اقتدار کے خواہاں ہیں، لیکن یہی دولۃ الاسلامیہ ان کو اپنے ممالک بالخصوص جیسے سعودی عرب، امارات، خلیجی ریاستیں، قطر، ترکی وغیرہ میں نہیں چاہئیے۔ بشار الاسد کے جرائم کی فہرست مرتب کی جائے تو شاید بہت لمبی فہرست بن جائے گی، لیکن کالم میں کوشش کی جائے گی کہ اس کے چند ایسے جرائم بیان کئے جائیں، جن پر ان کو سزا ملنی چاہئیے، یا یہ کہ وہ سزا انہیں ملی ہے یا نہیں اس بات کا جائزہ بھی لینا ضروری ہے۔

جب ہم بشار الاسد کے جرائم کی بات کرتے ہیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں ان کے والد حافظ الاسد کے زمانے سے شروع کرنا چاہئیے، کیونکہ جرائم وہی ہیں جو ان کے والد کر چکے ہیں اور انہی جرائم کو آگے بڑھانے کا گناہ بھی بشار الاسد کے حصے میں آیا ہے۔ پہلا جرم جو شامی حکومت یا اسد خاندان نے کیا ہے، وہ یہ ہے کہ جب 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں کے نتیجہ میں عرب اسرائیل کے سامنے سرتسلیم خم ہوگئے تو اس موقع پر واحد شام وہ ملک تھا، جس نے 73ء کے بعد بھی اسرائیل کو اسی طرح سے اپنا دشمن سمجھا، جس طرح سے اسرائیل 1948ء کے وقت سے تھا، جب اسرائیل نے فلسطین کو غصب کرتے ہوئے عرب فلسطینیوں کو لاکھوں کی تعداد میں جلا وطن کر دیا تھا۔ دوسرا جرم جو اسد خاندان کے حصے میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ 1948ء، 1967ء اور 1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں کے نتیجہ میں اسرائیلی مظالم کا نشانہ بننے والے مظلوم فلسطینیوں کو جب اسرائیل نے امریکی سرپرستی میں ان کے اپنے ہی گھروں اور سرزمین سے بے گھر کیا تو لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں نے شام، لبنان، اردن اور مصر کا رخ کیا، تو شام آنے والے لاکھوں فلسطینیوں کو پناہ دینے، ان کے لئے باقاعدہ مہاجر بستیاں قائم کرنا، ان فلسطینیوں کو شام میں بنیادی حقوق فراہم کرنا بھی اسد خاندان کا جرم تھا اور اسی جرم کو آگے بڑھانے کا گناہ بشار الاسد نے اپنا اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی جاری رکھا۔

بشار الاسد نے تیسرے جرم کا ارتکاب یوں کیا کہ جب اقتدار سنبھالا تو یہ وہ زمانہ تھا، جب لبنان میں اسرائیلی غاصبانہ افواج کی شکست ہو رہی تھی تو اس موقع پر لبنان کو سہارا دینے اور اسرائیل کے خلاف مزید مضبوط ہونے میں مدد کرنے کے لئے بشار الاسد نے شامی افواج کو لبنان میں فوجی خدمات کے لئے کئی برس تک رکھا، جسے بعد میں رفیق الحریری قتل کیس کے بعد نام نہاد عالمی برادری کے دباؤ پر اپنی فوجوں کو واپس بلانا پڑا، حالانکہ بشار الاسد کا جرم یہ تھا کہ اسرائیل کے خلاف کامیابی حاصل کرنے والے لبنان کو ضعیفی کی حالت میں سہارا فراہم کیا اور مشکل وقت میں لبنان کی مدد کی۔ بشار الاسد کا ایک جرم یہ بھی ہے کہ اس نے اسی لبنان میں جب اسرائیل نے 2006ء میں حملہ کیا تو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی بھرپور سیاسی و مسلح معاونت کی اور اسرائیل کے خلاف اس جنگ میں لبنان کا بھرپور ساتھ دیا۔ بشار الاسد کا اگلا جرم یہ ہے کہ شام میں مقیم جہاں فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کی وہاں فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی اسلامی مزاحمتی تحریکوں بشمول حماس، حزب اللہ، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ اور متعدد فلسطینی گروہوں کو شام میں باقاعدہ دفاتر فراہم کئے گئے اور انہیں نیم سرکاری حیثیت عطا کی گئی، نہ صرف یہ بلکہ فلسطین کے مظلومین کی ہر سطح پر حمایت جاری رکھی اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی بھرپور سیاسی حمایت جاری رکھی، جو تاحال آج بھی جاری ہے۔

اسی طرح کہ نہ جانے اور کتنے ہی جرائم ہیں، جو بشار الاسد نے انجام دئیے ہیں، انہی جرائم کی پاداش میں امریکہ، اسرائیل، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر تمام یورپی ممالک نے عرب بادشاہتوں کے ساتھ مل کر بشار الاسد کو سزا دینے کا فیصلہ کیا اور وہ سزا یہ دی گئی کہ جب خطے میں عرب بہار کی لہر چل نکلی تو عربی اور غربی سامراج نے شام میں اپنے حمایت یافتہ چند گروہوں کے ذریعے شورش بپا کی، رفتہ رفتہ اس شورش کو مسلح کرنا شروع کیا، پہلے پہل تو شام کے کچھ طبقے اس شورش کو نہ سمجھے اور وہ اس میں شامل ہوگئے، لیکن جلد ہی داعش، جبھۃ النصرۃ، احرار الشام سمیت ایک سو سے زائد ان دہشت گرد گروہوں کے مذموم اور ناپاک مقاصد سے آشنا ہوگئے اور اس طرح سے جو ایک دو فیصد عوام بھی ان دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تھی، وہ بھی علیحدگی اختیار کر گئی، لیکن بشار الاسد کے جرائم یہاں بھی ختم نہیں ہوئے، انہوں نے بہک جانے والے شامی شہریوں کو عام معافی دینے کے لئے مصالحہ کے نام سے ایک وزارت تشکیل دی، تاکہ جو لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں، وہ ان عربی اور غربی سامراجی ہتھکنڈوں میں استعمال نہ ہوں اور اس طرح اس جرم کے نتیجہ میں دسیوں ہزار افراد نے شامی حکومت کے حق میں خود کو دستبردار کر دیا۔

بشار الاسد کا ایک سب سے بڑا جرم یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے وطن اور سرزمین کے دفاع کی خاطر انتھک جدوجہد جاری رکھی، پانچ سال تک مسلسل صبر اور استقامت کے ساتھ نوے سے زائد ممالک سے لائے گئے ان عربی اور غربی سامراجی ایجنٹوں سے نبرد آزما رہے، جس کے نتیجہ میں آج شام کا اکثر حصہ ان دہشت گرد گروہوں کے منحوس وجود سے پاک ہوچکا ہے۔ اگر اپنے وطن کا دفاع کرنا بھی جرم ہے تو یقیناً ایسا جرم تو ہر حکمران کو کرنا چاہئیے، میں سمجھتا ہوں کہ اسی جرم کا ارتکاب تو ہماری پاکستان کی بہادر افواج اور سکیورٹی اداروں نے بھی کیا ہے، اسی طرح کی دہشت گردی اور بالکل اسی نظریہ اور فکر کے دہشت گرد گروہوں کا سامنا پاکستان نے بھی کیا ہے، ضرب عضب آپریشن کی صورت میں جرم کے ارتکاب کے نتیجہ میں آج پاکستان کے بیشتر علاقوں سے ان منحوس دہشت گرد گروہوں کا منحوس وجود ختم ہوچکا ہے اور اس جرم کا سہرا بالآخر ہماری افواج پاکستان، حکومت اور سکیورٹی اداروں کے سر ہے، جنہوں نے اپنے وطن کے دفاع کے لئے قربانیاں دیں، تاکہ وطن عزیز کے اندر بسنے والے شہریوں کو امن میسر آسکے، پس یہی جرم شام میں گذشتہ پانچ برس سے شامی حکومت، افواج اور ان کے صدر سمیت دیگر ادارے کرنے میں مصروف عمل ہیں، جس پر نام نہاد عالمی برادری یعنی مغربی سامراج اور ان کے پٹھو عرب سامراج چیخ و پکار میں مصروف عمل ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر مغربی و عربی سامراج کے مشترکہ ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے کچھ ناعاقبت اندیش مصروف عمل ہیں، جن کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے، ورنہ سکیورٹی اداروں کو ان کے خلاف کارروائی عمل میں لانی چاہئیے۔
خبر کا کوڈ : 594246
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش