0
Saturday 28 Jan 2017 04:21

نائیجیریا، فوج کے حملے اور عوامی ردعمل

نائیجیریا، فوج کے حملے اور عوامی ردعمل
تحریر: آئی اے خان

سعودی فوج کا سات رکنی اعلٰی سطحی وفد ان دنوں نائیجیریا کے دورے پر ہے۔ جس کی قیادت چیف انٹیلی جنس میجر جنرل یحییٰ احمد میسیری کر رہے ہیں۔ سعودی وفد نے نائیجیرین ائیر فورس (این اے ایف) ہیڈکوارٹر کا خصوصی دورہ کیا اور فضائیہ کے چیف سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ نائیجیرین عسکری ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ نائیجیرین فوج سعودی عرب کے ساتھ تربیت اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں اضافہ کرے گی۔ نائیجیرین فضائیہ کا ایک ’’کارنامہ‘‘ ابھی چند روز قبل ہی منظر عام پر آیا تھا کہ جس میں سینکڑوں افراد نشانہ بنے تھے۔ سعودی فوجی وفد کے دورے سے محض دو ہفتے قبل نائیجیرین ائیرفورس نے مہاجرین کے ایک کیمپ پر بمباری کی تھی، جس میں تقریباً ایک سو سے زائد افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ کیمرون کی سرحد کے قریب ہونے والے اس حملے کے بعد نائیجرین فوج نے پہلی مرتبہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کیا تھا۔ مہاجرین کے کیمپ پر ہونے والی اس بمباری میں ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز اور ریڈکراس کے تقریباً بیس نمائندے بھی نشانہ بن گئے تھے۔ گرچہ اس قابل مذمت فضائی حملے کا خارجی ردعمل زیادہ سامنے نہیں آیا، کیونکہ نائیجرین فوج نے موقف اپنایا کہ یہ حملہ بوکو حرام کے دہشتگردوں کے جمع ہونے کی اطلاع پر کیا گیا تھا۔ ماہرین کے خیال میں نائیجیرین فوج نے یہ غلطی بھی محض اس لئے تسلیم کی، کیونکہ اس حملے میں عالمی امدادی تنظیموں کے اہلکار براہ راست نشانہ بنے تھے۔

ایک ایسے موقع پر جبکہ نائیجرین فوج بالخصوص فضائیہ کو عالمی ذرائع ابلاغ میں کڑی تنقید کا سامنا ہے، سعودی عرب کا اعلٰی سطحی فوجی وفد نائیجرین ائیر فورس کی صلاحیتوں کا برملا اعتراف کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے کا اعلان کر رہا ہے، جو کہ ایک سوالیہ نشان ہے۔؟ نائیجرین فوج کو اس حملے سے قبل جلوسہائے عزا، یوم القدس کے اجتماع، عوامی اجتماعات اور رات گئے اپنے ہی پرامن شہریوں پر غیر انسانی حملوں کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا تھا، یہاں تک کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی نائیجیرین فوج کو شیعہ قتل عام میں ملوث قرار دیا تھا۔ ایک رائے یہ بھی ہے چونکہ سعودی عرب اور نائیجیرین فوج میں ’’غلطی سے بمباری‘‘ کی قدر مشترک ہے، اس لئے اعلٰی سطحی فوجی وفد نے نائیجرین فضائیہ کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کرکے فضائیہ کی پیٹھ ٹھونکی، یاد رہے تین ماہ قبل سعودی افواج نے یمن میں ایک جنازے کے اجتماع پر بمباری کرکے سینکڑوں مسلمانوں کو شہید اور زخمی کر دیا تھا۔ سعودی عرب نے بھی ’’غلطی سے بمباری‘‘ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے معافی مانگی تھی، تاہم ’’بمباریاں ناقابل معافی اور ناقابل تلافی ہوتی ہیں۔‘‘

مہاجر کیمپ پر غلطی سے حملے میں نائیجرین فوج نے جس تنظیم ’’بوکو حرام‘‘ کو مورد الزام ٹھہرایا، اس کے متعلق 2015ء میں نائیجیرین وزیر دفاع یہ اعلان کرچکے ہیں کہ بوکو حرام کا نائیجرین فوج نے صفایا کر دیا ہے اور یہ تنظیم اب بڑے حملوں کی سکت باقی نہیں رکھتی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اعلان کے بعد بھی کئی سرحدی علاقے تاحال نوگو ایریاز اور سینکڑوں افراد بوکو حرام کے حملوں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ گذشتہ دنوں نائیجرین فوج کے ہی پندرہ افسران کو اس شبہ میں گرفتار کر لیا گیا کہ وہ بوکوحرام کی مدد کر رہے تھے۔ بوکو حرام نے 2015ء کے شروع میں القاعدہ میں انضمام کا اعلان کیا تھا، جبکہ میونخ میں ہونے والی سکیورٹی کانفرنس میں صومالیہ کے صدر حسن شیخ محمود نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بوکو حرام کے جنگجوؤں نے حرکۃ الشباب کے تعاون سے صومالیہ میں بھی تربیت حاصل کی تھی اور واپس نائیجیریا لوٹ گئے، جبکہ حرکۃ الشباب (افریقی القاعدہ) صومالی حکومت کے خلاف سرگرم ہے۔ متعدد میڈیا رپورٹس میں یہ کہا گیا کہ افریقی تنظیم حرکۃ الشباب کو سعودی عرب کی مدد و حمایت حاصل ہے۔ عالمی شہرت یافتہ سیاسی تجزیہ کار نائل بوئی نے اپنے ایک مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ ایک طرف تو امریکہ بوکو حرام کے مظالم کو بنیاد بنا کر نائیجیریا میں انسانی ہمدردی کا بہانہ بنا کر امداد لے جا رہا ہے اور دوسری طرف بوکو حرام کے دہشت گردوں کو خفیہ طور پر مالی مدد اور عسکری تربیت فراہم کرنے کیلئے امریکہ اپنے دو قریبی اتحادیوں کو استعمال کر رہا ہے۔

نائل بوئی نے اس ضمن میں برطانیہ اور سعودی عرب کا نام لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بوکو حرام کو ان ممالک میں قائم مراکز سے مدد ملتی ہے اور مغربی ایجنسیوں اور نیٹو کے حمایت یافتہ کچھ دہشت گرد گروپوں کے بھی بوکو حرام سے مراسم ہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب جن دہشت گرد گروہوں کی کمر توڑنے پر نائیجیرین فوج کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے، اس دہشتگرد گروہ ’’بوکو حرام‘‘ کو بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ سعودی عرب کی مدد حاصل رہی ہے۔ نائیجرین فوج کا دوسرا بڑا کارنامہ جو کہ سعودی عرب کیلئے باعث اطمینان ہے، وہ ’’تشیع ‘‘ کیلئے نائیجرین فوج کی غیر انسانی کارروائیاں ہیں۔ نائیجیریا میں فوج یا پولیس کے ہاتھوں شیعہ مسلمانوں کا بے گناہ خون متعدد بار بہایا گیا ہے۔ اگر نائیجیرین فوج اور پولیس کی فائرنگ و تشدد سے شہید ہونے والے اہل تشیع مسلمانوں کی کل تعداد کا اندازہ کریں تو یہ ہزاروں میں بنتی ہے۔ حالیہ اربعین حسین (ع) جب دنیا بھر میں جلوس ہائے عزا و مجالس برپا تھیں، ایسے وقت میں نائیجیرین فوج نے ’’کانو‘‘ شہر میں جلوس عزا پر براہ راست آنسو گیس اور فائرنگ شروع کر دی۔ مختلف میڈیا ذرائع نے اس بربریت میں شہید و زخمی ہونے والوں کی تعداد پچاس سے زائد بتائی۔ نائیجیرین پولیس نے بھی ان حملوں کی تصدیق کی۔

نائیجیریا کی اسلامی تحریک نے ایک بیانیہ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس ملک کے شیعہ ایام اربعین کی مناسبت سے جلوس عزا نکال رہے تھے کہ سکیورٹی دستوں نے انہیں وحشیانہ حملے کا نشانہ بنا دیا۔ اسلامی انسانی حقوق کونسل کے مطابق شمالی نائیجیریا میں پولیس کی فائرنگ میں پچاس عزادار شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس نے پرامن عزاداروں کو کانو شہر کے باہر ایک شاہراہ پر گھیر کر نشانہ بنایا ہے اور عزاداروں پر پہلے آنسوگیس کے گولے پھینکے پھر براہ راست فائرنگ شروع کر دی۔ علاوہ ازیں یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس شدید عوامی ردعمل کے خوف سے شہداء کی لاشیں اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئی ہے۔ قبل ازیں نائیجیریا کی فوج نے صوبہ کاتسینا کے شہر فونتوا میں یوم عاشور کے جلوس پر بھی فائرنگ کی تھی، جس میں نو عزادار شہید اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے قبل بارہ اور چودہ دسمبر دو ہزار پندرہ کو نائیجیریا کی فوج نے زاریا شہر میں عزاداروں کا قتل عام کیا تھا، جس میں سینکڑوں عزادار شہید ہوگئے تھے، جن میں نائیجیریا کی اسلامی تحریک کے سربراہ شیخ ابراہیم زکزکی کے تین بیٹے بھی شامل تھے۔ ان حملوں کے دو ماہ بعد صوبہ کادونا میں ہی ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی تھی۔ جس میں سے سو کے قریب لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ ان لاشوں کے متعلق انکشاف ہوا تھا کہ یہ ان تشیع مسلمانوں کی لاشیں ہیں، جو زاریا میں نائیجیرین فوج کے ہاتھوں شہید کر دیئے گئے تھے اور ان کی لاشیں نائیجیرین فوج اپنے ساتھ لے گئی تھی۔

نائیجیریا میں عیسائیت اور دیگر مذاہب کی شرح تسلسل کے ساتھ کم ہو رہی ہے جبکہ اسلام مسلسل پھیل رہا ہے۔ ایران میں انقلاب اسلامی کے بعد سے ہی شیخ ابراہیم زکزاکی جو کہ اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا کے سربراہ ہیں، فکر امام سے قریب ہوئے۔ 1980ء سے پہلے نائیجیریا میں تشیع نہ ہونے کے برابر تھی، لیکن پھر شیخ ابراہیم زکزاکی نے اسلام ناب محمدی کی ترویج کرنا شروع کی۔ جس کے نتیجے میں گذشتہ تین دہائیوں میں نائیجیریا میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ 50 لاکھ افراد نے تشیع اسلام قبول کیا۔ تشیع اسلام کا یہ پھیلاؤ ایک جانب عیسائیت کیلئے خطرے کی گھنٹی تھا تو دوسری جانب امریکہ و آل سعود کو بھی رفتہ رفتہ اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگے۔ اب اس خطرے سے نمٹنے کیلئے امریکہ، اسرائیل اور آل سعود نے دو طرفہ حکمت عملی اختیار کی۔ ایک جانب بوکو حرام نامی تنظیم کو وسائل سے لیس کرکے نائیجرین عوام کو اسلام سے متنفر کرنے کی صریحاً کوشش کی اور اسلام کی وہی تصویر عوام میں پیش کی جانے لگی جو پاکستان، افغانستان میں طالبان، عراق و شام میں داعش یا دیگر ملکوں میں القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں پیش کرچکی تھیں۔ دوسری جانب بڑھتے ہوئے تشیع اسلام کی راہ روکنے کیلئے ریاستی تشدد کا استعمال شروع ہوا۔

جس میں سب سے پہلے یوم القدس کے جلوس کو نائیجیرین فوج نے نشانہ بنایا۔ جس میں تیس سے زائد افراد شہید ہوئے، مگر یہ اس لہو کی ہی تاثیر تھی کہ اس کے بعد ہونے والے اربعین کے اجتماع میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ جس نے سامراج کی نیندیں اڑا دیں۔ اس کے بعد سے نائیجیرین فوج اور پولیس کی جانب سے اہل تشیع مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اہل تشیع مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے نائیجیرین حکومت اور فوج پر آل سعود اور امریکہ کی مہربانیوں میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بوکو حرام نامی دہشتگرد گروہ جو کہ دھماکوں، حملوں، ظلم و تشدد، بچیوں کے اغوا، ان کی خرید و فروخت میں مصروف اور داعش و القاعدہ والے مظالم روا رکھے ہوئے ہے، اس کے خلاف نائیجیرین فوج خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ فرار ہوکر واپس آنے والی چند بچیوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بوکو حرام کے دہشتگرد لمحہ بہ لمحہ فوج کی نقل و حرکت اور ان کے آئندہ پروگرام سے آگاہ ہیں۔ تاہم نائیجیرین حکومت مجرموں و ظالموں کے خلاف ریاستی قوت کے استعمال کے بجائے اہل تشیع مسلمانوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے یا پھر ’’غلطی سے بمباری‘‘ کرکے غریب الوطن افراد کو نشانہ بنا رہی ہے۔ سعودی ایماء پر نائیجرین فوج کی جانب سے اہل تشیع کیخلاف طاقت کا بے محابا استعمال نہ صرف نائیجرین حکومت کیخلاف عوام میں نفرت کا باعث بن رہا ہے بلکہ نائیجیریا کے عوام اپنی فوج کو کرائے کی فوج محسوس کرنے لگے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 604102
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش