0
Friday 17 Mar 2017 13:29

سکیورٹی فورسز اور مقامی آبادی کی قربانیوں سے فاٹا سمیت پورے ملک میں امن کی بحالی

سکیورٹی فورسز اور مقامی آبادی کی قربانیوں سے فاٹا سمیت پورے ملک میں امن کی بحالی
رپورٹ: ایس علی حیدر

قبائلی بزرگ اور حکام فروری میں پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے گروہ کو یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کر رہے تھے کہ شمالی وزیرستان ایجنسی پرامن اور عسکریت پسندی سے پاک ہے۔ بہت سے رہائشیوں کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہونا پڑا تھا جبکہ افواج عسکریت پسندوں سے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں جنگ کر رہی تھیں۔ اس کا آغاز جون 2014ء میں اس وقت ہوا جب فوج نے آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سالوں تک عارضی طور پر بے گھر ہو جانے والے افراد کے طور پر رہنے کے بعد، وہ واپس ایک پرامن شمالی وزیرستان کو لوٹے ہیں، جو کہ عسکریت پسندوں، ہتھیاروں اور خوف سے آزاد ہے۔ ہورماز گاوں سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ انجینئر فیاض داور نے کہا کہ ہم بنیادی ضروریات کی کمی میں زندہ رہ سکتے ہیں مگر امن کے بغیر نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کا شکریہ جو علاقے میں امن کو واپس لائی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ضربِ عضب سے پہلے، کوئی علاقے میں گھومنے پھرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ فیاض داور نے کہا کہ دوسرے مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے مگر امن و امان کی صورت حال سے نہیں۔

میر علی کے صحافی رسول داور نے اسلام ٹائمز سمیت دوسرے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ انتشار کو دوبارہ پھیلنے سے روکنے کیلئے، فوج ہتھیاروں کی ملکیت پر پابندی نافذ کر رہی ہے۔ فوج نے ہتھیاروں کی ملکیت پر سخت پابندی لگائی ہے۔ کچھ قبائلی افراد نے تو اپنے ہتھیار رضاکارانہ طور پر فوج کے حوالے کر دیئے ہیں۔ کچھ قبائلی ارکان جو 8 سال سے اپنے گھروں سے بے دخل تھے، وہاں پر امن کی صورتحال دیکھ کر دنگ رہ گئے ہیں، جہاں کبھی دہشتگردی اور انتشار پھیلا ہوا تھا۔ میر علی کے قریب، پتیسی اڈا سے تعلق رکھنے والے عظیم خام نے میڈیا سے بات چیت میں بتایا کہ ہم یقین نہیں کر سکتے کہ یہ وہی ایجنسی ہے، ہم رات کو بھی بغیر خوف کے گھوم پھر سکتے ہیں۔ ایک نوجوان ٹرانسپوٹر کا کہنا تھا کہ اب وزیرستان میں کوئی قتل، بم دھماکے، اغواء یا کسی کی طرف سے دھمکیاں نہیں ملتی ہیں۔

ادھر خیبر پختونخواہ کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا نے یکم فروری کو میرانشاہ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے ایک جرگہ میں قبائلی عمائدین سے خطاب کرنے سے پہلے، نئے تعمیر شدہ اسٹیڈیم، اسکول اور مارکیٹ کا جائزہ لیا۔ اقبال  ظفر جھگڑا نے کہا کہ میرانشاہ اسٹیڈیم ملک بھر میں وہ واحد اسٹیڈیم ہے، جس میں ہر کھیل کیلئے میدان ہیں، جس میں کرکٹ، فٹ بال، باسکٹ بال، والی بال اور بیڈمنٹن شامل ہیں۔ انہوں نے جرگہ کو اسٹیڈیم، اسکولوں کی بہتری اور مثالی امن کو قائم رکھنے پر مبارکباد دی۔ اقبال ظفر جھگڑا نے کہا کہ آپریشن ضربِ عضب کے باعث فاٹا میں امن بحال ہوگیا ہے۔ عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد میں سے 90 فیصد اپنے آبائی گھروں کو واپس آگئے ہیں اور باقی کے جلد ہی واپس آجائیں گے۔ گورنر کے پی کے نے مزید کہا کہ پوری قوم سکیورٹی افواج اور مقامی آبادی کی طرف سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دی جانے والی قربانیوں پر فخر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان قربانیوں نے فاٹا اور ملک کے باقی حصوں میں امن کو یقینی بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو قبائلی افراد کے مصائب کا علم ہے اور وہ اسے سلسلے میں اقدامات کر رہی ہے۔ اقبال ظفر جھگڑا نے اس سے پہلے میرانشاہ میں گورنمنٹ ماڈل اسکول میں لڑکیوں کا سیکشن قائم کرنے اور میر علی سب ڈویژن میں لڑکیوں کیلئے گرلز کالج اور گورنر ماڈل اسکول برائے طالبات قائم کرنے کا اعلان کیا۔

میر علی سے تعلق رکھنے والے بزرگ ملک گل صالح جان نے میڈیا کو بتایا کہ میں گورنر کی طرف سے قصبے میں کالج اور اسکول قائم کرنے کے اعلان کو سراہتا ہوں۔ پاکستان مارکیٹ بن گئی ہے، جس میں 150 دکانیں ہیں، اس کے ساتھ بچوں کے کھیل کا میدان، پارکنگ لاٹ اور مسجد بھی ہے۔ میرانشاہ سے تعلق رکھنے والے دکاندار سید حلیم جنہیں نئے بازار میں دکان الاٹ کی گئی ہے، نے کہا کہ وہ مستقبل کیلئے پرُامید اور خوش ہے۔ دوسری جانب حکومت نے بھی شمالی وزیرستان میں امن کی بحالی کے بعد، غلام خان سرحدی کراسنگ پر سے افغانستان کے ساتھ تجارت کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شمالی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کامران آفریدی نے دورہ کرنے والے اخباری نمائندوں کو میرانشاہ میں بتایا کہ اس راستے کو چند دنوں میں کھول دیا جائے گا، کیونکہ اس مقصد کیلئے تمام انتظامات کر لئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غلام خان روٹ جو کہ شمالی وزیرستان کو افغانستان کے صوبہ خوست سے ملاتا ہے، تجارت کیلئے بند رہا ہے، مگر اب اندرونِ ملک بے گھر افراد (آئی ڈی پیز) کی نو آبادکاری کیلئے جاری کوششوں کے حصہ کے طور پر یہ دوبارہ سے کھل جائے گا۔ کامران آفریدی نے کہا کہ معیشت کو صرف عمارتوں کی تعمیر سے بحال نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ تجارت انتہائی ضروری ہے، اس لئے ہم غلام خان گاؤں میں ٹرمینلز کی تعمیر کا انتظار نہیں کریں گے۔ ہم چھوٹے پیمانے پر تجارت سے آغاز کر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کام کو شروع کرنے کیلئے ہر روز دس ٹرک اس روٹ سے گزریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت کو بحال کرنے سے شمالی وزیرستان میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور کاروبار کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیٹیکل انتظامیہ، فوج اور کسٹم کے شعبے کو تعینات کیا جائے گا، جو بنوں اور غلام خان کی چیک پوسٹوں پر گزرنے کے اجازت نامے جاری کریں گے۔ کامران آفریدی نے کہا کہ اس کے علاوہ، ایک سروے ٹیم جو کہ سیاسی انتظامیہ کے اہلکاروں، فوج اور دوسری ایجنسیوں پر مشتمل ہے، نے گھروں اور دوسری املاک کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تباہ ہونے والے گھر کیلئے 400,000 اور جس گھر کو نقصان پہنچا ہے اسے 160,000 کا معاوضہ دیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے علاقوں میں آب پاشی کے نظام کی تعمیرِ نو کر دی گئی ہے اور ہم نے کسانوں میں بیج بھی تقسیم کئے ہیں۔ پتیسی اڈا کے قریب اسوری گاوں کے ایک کسان امجد داور نے حکومت پر زور دیا کہ وہ مزید کام کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں آب پاشی کیلئے پانی کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ کو نہروں کی مرمت کرنی چاہیئے، تاکہ وادی کو امن کی طرح سرسبز کیا جا سکے۔
خبر کا کوڈ : 619035
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش