0
Wednesday 17 May 2017 23:10

بلوچستان میں 2003ء سے ابتک دہشتگردی کے بڑے واقعات کی مکمل تفصیل

بلوچستان میں 2003ء سے ابتک دہشتگردی کے بڑے واقعات کی مکمل تفصیل
تحقیقی رپورٹ: نادر بلوچ

2003ء سے لیکر اب تک صوبہ بلوچستان میں دہشتگردی کے کئی دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہوئے۔ ان واقعات کی تفصیلات کے مطابق 4 جولائی 2003ء میں بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ میں ایک شیعہ مسجد پر نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکے کے دوران 54 افراد جاں بحق اور 57 زخمی ہوگئے۔ 2005ء میں بلوچستان کے علاقے فتح پور جھل مگسی میں ایک مزار پر ایک خودکش دھماکے میں 51 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ 2007ء میں دہشتگردی کے تین بڑے واقعات رہنما ہوئے، پہلا واقعہ 17 فروری کو پیش آیا، جب ڈسٹرکٹ کورٹ کوئٹہ میں کار بم دھماکہ کیا گیا، جس میں ایک سینیئر سول جج سمیت 18 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوئے۔ دوسرا واقعہ 19 جولائی کو ہوا، حب کے علاقے گڈانی بس اسٹاپ پر کار بم دھماکہ ہوا، جس میں 7 پولیس آفیسر سمیت 23 افراد جاں بحق جبکہ 50 زخمی ہوئے۔ سال کے آخری مہینے یعنی 13 دسمبر کو کوئٹہ میں آرمی چک پوسٹ پر دو خودکش بمباروں نے حملہ کیا، جس میں پاک آرمی کے اہلکاروں سمیت 8 افراد جاں بحق ہوئے۔

24 ستمبر 2008ء کو ایف سی کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا، جس میں ٹین ایجر طالبہ شاہدہ سمیت دو افراد جاں بحق اور 22 زخمی ہوئے۔ 2009ء میں ضلع پشین کے علاقے کلی کربلا میں ایک مدرسے پر خودکش حملے میں 7 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اسی طرح 30 جون کو بلوچستان کے علاقہ قلات میں آبادی والے علاقے میں خودکش حملہ ہوا، جس میں 5 افراد جاں بحق اور گیارہ زخمی ہوگئے۔ 2010ء میں دہشتگردی کے چار بڑے واقعات رہنما ہوئے، جن میں 88 افراد جاں بحق ہوئے۔ پہلا واقعہ 16 اپریل کو کوئٹہ کے سول اسپتال میں ایک خودکش حملہ آور نے خود کو اڑا کر کیا، اس واقعے میں 12 افراد جاں بحق اور 35 زخمی ہوئے۔ دوسرا واقعہ 3 ستمبر کو کوئٹہ شہر میں میزان چوک پر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی القدس ریلی پر خودکش حملہ ہوا، جس میں کم از کم 67 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ 190 افراد زخمی ہوئے۔ چھ دن بعد یعنی 9 ستمبر کو منسٹرز کالونی میں ایک خودکش دھماکہ ہوا، جس میں 6 افراد جاں بحق اور چار زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ میں بلوچستان کے وزیر خزانہ میر عاصم کرد کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ چوتھا واقعہ 7 دسمبر کو پیش آیا، جب کوئٹہ میں اس وقت کے وزیراعلٰی نواب اسلم ریئسانی پر خودکش حملہ کیا گیا، جس میں 3 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہوگئے تھے۔ اس حملے میں وزیراعلٰی محفوظ رہے تھے۔

2011ء میں بھی دہشتگردی کے چار واقعات رونما ہوئے، پہلا واقعہ 7 اپریل کو پیش آیا، جب ایک خودکش بمبار نے ڈی جی انوسٹی گیشن وزیر نثار خان کے گھر کے سامنے خود کو اڑا لیا، اس واقعہ میں پولیس کانسٹیبل سمیت 2 افراد جاں بحق اور 9 زخمی ہوگئے۔ دہشتگردی کا دوسرا واقعہ 31 اگست کو پیش آیا، جب عیدالفطر کے موقع پر کار بم دھماکے میں 11 شیعہ افراد سمیت 12 افراد جاں بحق اور 22 زخمی ہوگئے۔ تیسرا واقعہ 7 ستمبر کو پیش آیا، جب ڈی آئی جی آف ایف سی بریگیڈئیر فرخ شہزاد کے کوئٹہ گھر پر خودکش حملہ ہوا، جس میں 16 افراد جاں بحق اور 33 زخمی ہوگئے تھے۔ 2012ء میں دہشتگردی کے تین بڑے واقعات رونما ہوئے، پہلا واقعہ 18 جون کو جناح ٹاون کوئٹہ میں پیش آیا، جب آئی ٹی یونیورسٹی کے قریب ایک زور دار دھماکہ ہوا، جس میں ایک پروفیسر سمیت 7 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، دوسرا واقعہ ٹھیک 10 روز بعد پیش آیا، جب 28 جون کو ہزارہ گنجی کے علاقے میں ایران جانے والے زائرین کی بس کو خودکش بمبار نے نشانہ بنایا، اس واقعہ میں 16 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوئے۔ تیسرا واقعہ 18 اگست کو قمرانی کوئٹہ میں پیش آیا، جب کار بم کے ذریعے دھماکہ کیا گیا، جس میں سکیورٹی آفیشلز سمیت 7 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

2013 میں دہشتگردی کے 9 بڑے واقعات ہوئے، جن میں 233 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ 10 جنوری کو علمدار روڈ پر دہشتگردی کے دو واقعات میں 106 افراد لقمہ اجل بنے اور 169 زخمی ہوگئے تھے۔ اس واقعہ میں شیعہ ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ دوسرا واقعہ 23 اپریل کو پیش آیا، جب علمدا رروڈ پر ہی ایف سی کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا گیا، جس میں ایف سی اہلکار سمیت 6 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوگئے۔ 12 مئی کو زرغون روڈ کوئٹہ پر انتہائی سکیورٹی زون کے علاقے میں آئی جی بلوچستان مشتاق سکھیرا پر خودکش دھماکہ کیا گیا، جس میں 7 افراد جاں بحق اور 45 زخمی ہوگئے۔ 16 جون کو بہادر خان یونیورسٹی پر نامعلوم خودکش بماروں نے حملہ کیا، جس میں 14 فی میل اسٹوڈنٹس، ایف سی اہلکار اور ڈپٹی کمشنر عبداللہ خان سمیت 24 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس واقعہ میں 27 افراد زخمی بھی ہوئے۔

30 جون کو ہزارہ ٹاون کی امام بارگاہ علی آباد کے قریب خودکش حملہ ہوا، جس میں 29 شیعہ ہزارہ جاں بحق اور 60 زخمی ہوئے۔ 5 جولائی کو چمن کے علاقے باب دوستی پر خودکش حملہ ہوا، جس میں افغان سکیورٹی آفیسر سمیت پانچ افراد ہلاک اور 10 زخمی ہوئے۔ 11 جولائی کو ڈسٹرکٹ عبداللہ کے علاقے چمن ٹاون میں ایک اور خودکش حملے میں افغان سکیورٹی گارڈ سمیت 8 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہوگئے۔ 8 اگست کو پولیس لائن کوئٹہ میں اندوہناک واقعہ پیش آیا، جب نماز جنازہ کے اجتماع میں خودکش بمبار نے خود کو اڑ دیا تھا، اس واقعہ میں 29 پولیس اہلکار شہید اور 40 زخمی ہوئے۔ 2 اکتوبر کو ڈسٹرکٹ قلعہ عبداللہ کے علاقے چمن میں ایک خودکش حملے میں 9 افراد جاں بحق اور 16 زخمی ہوئے تھے۔

2014ء میں سال کے آغاز پر یعنی یکم جنوری کو اختر آباد کوئٹہ میں ایک مربتہ پھر شیعہ زائرین پر خودکش حملہ ہوا، جس میں 4 افراد جاں بحق اور 30 زخمی ہوگئے، دوسرا واقعہ چار اکتوبر کو پیش آیا، جب ہزارہ ٹاون میں شہری عید کی شاپنگ کر رہے تھے کہ ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکہ خیز مواد کیساتھ اڑا لیا، جس کے نتیجے میں 5 افراد شہید اور 12 زخمی ہوگئے۔ اسی طرح 23 اکتوبر کو کوئٹہ شہر میں ہی جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر خودکش حملہ ہوا، جس میں وہ بال بال بچ گئے، تاہم اس واقعہ میں ایک شخص جاں بحق اور 22 زخمی ہوگئے، مولانا فضل الرحمان صادق شہید فٹ بال گراونڈ میں ایک جلسے سے خطاب کرکے واپس جا رہے تھے کہ راستے میں یہ واقعہ پیش آیا۔ 28 دسمبر کو بلوچستان کے علاقے ژوب میں اسماعیلزئی کے مقام پر دو خودکش بمبار سرچ آپریشن کے دوران قتل کر دیئے گئے۔

2015ء کا سال بلوچستان کیلئے نسبتاً پرامن رہا، تاہم 17 جولائی کو بروہری روڈ پر بہادر خان وویمن یونیورسٹی کے قریب خودکش حملے میں دو افراد جاں بحق ہوگئے۔ 2016ء ایک مرتبہ پھر صوبہ بلوچستان کیلئے بھاری ثابت ہوا، جس میں دہشتگردی کے 7 بڑے واقعات میں 224 شہری شہید اور 434 زخمی ہوئے۔ پہلا واقعہ 13 جنوری کو سیٹلائٹ ٹاون کوئٹہ میں پیش آیا، جب گورنمنٹ ہیلتھ سنٹر کے قریب ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا، اس واقعہ میں 13 پولیس اہلکار اور ایک ایف سی جوان سمیت 16 افراد جاں بحق اور 25 زخمی ہوگئے۔ 29 جنوری کو ڈسٹرکٹ ژوب کینٹ ایریا میں ایک خودکش واقعہ میں پاک فوج کے 7 جوان زخمی ہوگئے۔ 3 فروری کو ڈسٹرکٹ قلات میں ایک خودکش بمبار نے اپنے آپ کو اڑانے کی کوشش کی، جس میں اس کے دو ساتھیوں سمیت تین افراد ہلاک ہوگئے۔ 6 فروری کو ملتان چوک کوئٹہ میں ایک خودکش حملے میں چار ایف سی جوانوں سمیت کم از کم تیرہ افراد شہید اور 38 زخمی ہوئے۔

8 اگست کو سول اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں خودکش حملے میں کم از کم 75 افراد جاں بحق اور 100 زخمی ہوئے، وکلا رہنما بلال انور کاسی پر حملہ ہوا تھا، اس لئے وکلاء کی بڑی تعداد سول اسپتال جمع ہوئی تھی جہاں پر یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ 24 اکتوبر کو کوئٹہ میں پولیس ٹرینگ سنٹر پر رات کی تاریکی میں حملہ ہوا، جس میں 64 افراد جاں بحق اور 164 زخمی ہوئے تھے، تاہم مقامی اخبارات نے اگلے روز ہلاکتوں کی تعداد 20 بتائی۔ 12 نومبر کو ضلع خضدار میں شاہ احمد نورانی کے دربار پر ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں کم از کم 53 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ 12 مئی 2017ء کو بلوچستان کے علاقے مستونگ میں مولانا عبدالغفوری حیدری کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا، جس میں تقریباً 28 افراد شہید اور 40 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس سے اگلے ہی روز یعنی 13 مئی کو گوادر کے مقام پر مزدوروں پر فائرنگ کی گئی، جس میں 9 مزدور شہید ہوئے۔ اس واقعہ کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسندوں نے قبول کی۔ یاد رہے کہ ان واقعات میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور لسانی بنیادوں پر قتل ہونے والے پنجابی شہریوں کی تعداد کا ذکر نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 637856
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش