0
Wednesday 5 Jul 2017 23:36

قطر سعودی عرب تنازعہ اور ایران

قطر سعودی عرب تنازعہ اور ایران
تحریر: عباس ملکی (سابق نائب وزیر خارجہ ایران)

5 جون 2017ء کو سعودی عرب نے قطر سے تمام زمینی، فضائی اور سمندری راستے منقطع کر دینے کا اعلان کر دیا۔ ریاض نے ان اقدامات کا مقصد سعودی عرب کی قومی سلامتی کا تحفظ بیان کیا۔ سعودی عرب کے بقول یہ اقدامات دہشت گردی اور شدت پسندی کے مقابلے میں ملک کی حفاظت کیلئے ضروری تھے۔ سعودی عرب کے بعد متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، لیبیا، ماریشس اور مالدیپ نے بھی قطر سے اپنے سیاسی تعلقات منقطع کر لئے۔ بعض ممالک جیسے ایران، چین، ترکی، کویت اور عمان نے قطر اور عرب ممالک میں پیش آنے والے تنازعے کو مذاکرات اور گفتگو کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔

دوسری طرف اسرائیل نے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے قطر کے خلاف انجام پانے والے ان اقدامات کو سراہتے ہوئے انہیں مثبت قدم قرار دیا۔ قطر کے وزیر خارجہ نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے قطر کے محاصرے پر مبنی ان اقدامات کا مقصد اسے تمام سیاسی امور میں اپنا پیرو اور مطیع بنانا ہے، گویا قطر کے پاس کوئی اختیار نہیں اور وہ اپنی خارجہ پالیسی قطر پر تھونپنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات قطر پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ مشرق وسطی میں سرگرم دہشت گرد گروہوں جیسے القاعدہ اور داعش کی مالی معاونت میں مصروف ہے اور اس نے اخوان المسلمین کے روحانی رہنما یوسف القرضاوی کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے۔ لیکن اگر یہ الزامات درست ہوں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کویت حکومت بھی اہلسنت سیاسی اسلام کی طرف رجحان رکھتی ہے اور اس کی پارلیمنٹ کے چند اراکین بھی اخوان المسلمین سے وابستہ ہیں۔ سب کو اچھی طرح یاد ہے کہ صرف محدود ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور کویت نے ہی افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر رکھا تھا۔ اسی طرح قطر پر یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ اس کے ایران سے گہرے تعلقات ہیں۔

اگرچہ خلیج فارس میں ایک ہمسایہ ملک سے اچھے تعلقات کی برقراری سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے اپنے اقدامات کا مناسب جواز نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد قطر کی کوشش رہی ہے کہ تہران سے قریبی اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ اور خطے کے دیگر موثر ممالک سے بھی مشترکہ تعاون بڑھائے۔ پانی کی پائپ لائن سے لے کر خام تیل اور گیس کے معاہدوں تک دوحہ اور تہران میں شروع ہونے والے تمام میگا پراجیکٹس میں سے تقریباً کوئی بھی پراجیکٹ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پایا۔ ان تمام سالوں میں قطر نے ایران سے قریبی تعلقات کو خارجہ سیاست کے اہداف کے حصول کیلئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے شدت پسندانہ پالیسی کی اصل وجہ اس ملک کے اندرونی مسائل اور مشکلات کی جانب پلٹتی ہے۔ قطر کے خلاف سعودی عرب کے اقدامات، صدر صدام حسین کے دور میں کویت پر عراق کے فوجی حملے سے شباہت رکھتے ہیں۔ صدام حسین نے کویت پر فوجی حملے سے قبل ایسے اقدامات انجام دیئے جن کا مقصد ان کے بقول کویت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے خام تیل کی قیمت کم کرنے اور ایران عراق جنگ کے آخری ایام میں عراق کے تیل کے ذخائر خالی کرنے پر مبنی سازش کرنے کی سزا دینا تھا۔ عزت ابراہیم نے جدہ کانفرنس میں کویت اور سعودی عرب کے حکام کو برا بھلا کہا اور انہیں سخت سزا کی وارننگ دی۔

سعودی عرب میں ملک سلمان کے خاندان اور سابق ولیعہد محمد بن نائف کے خاندان کے درمیان طاقت کی شدید رساکشی اور کشمکش پائی جاتی ہے۔ اس کھلی خاندانی جنگ کا اہم کھلاڑی محمد بن سلمان ہے جو اپنی اور اپنے باپ کی طاقت کی تکمیل کیلئے ایک ہی وقت کئی محاذوں پر لڑنے میں مصروف ہے۔ وہ گمان کرتا ہے کہ ایرانی حکام کو گالی گلوچ اور قطر کا محاصرہ کر کے شاہی دربار میں طاقت بڑھا سکتا ہے اور تمام اختیارات پر قبضہ کر سکتا ہے۔ محمد بن سلمان نے اپنے رقیب خاندان آل نائف کے قطر کے حاکم خاندان آل ثانی سے قریبی تعلقات کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ اگر یہ مفروضہ صحیح ثابت ہو تو میرا گمان ہے کہ آئندہ چھ ماہ سے ایک سال تک ملک سلمان اور اس کے بیٹے محمد بن سلمان کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہو گا اور وہ اپنے تمام حریفوں پر غلبہ پا لیں گے۔ اس وقت سعودی عرب اپنی روایتی سیاست کی جانب واپس لوٹ آئے گا جو قدامت پرستی پر مبنی ہے۔

ایران کیلئے مناسب رویہ یہ ہے کہ وہ صدر صدام حسین کے دور میں عراق کی جانب سے کویت پر فوجی حملے کے دوران اپنائی گئی پالیسی کی طرح اب بھی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے۔ موجودہ حالات میں ایران کیلئے بہترین اسٹریٹجی "اسٹریٹجک تحمل اور بردباری" اور فریقین میں سے کسی ایک کی حمایت نہ کرنا ہے۔ لہذا ایران کو موجودہ حساس اور نازک صورتحال درک کرتے ہوئے جذباتی اقدامات سے پرہیز کرنا چاہئے اور سعودی عرب کو یہ پیغام دینا چاہئے کہ وہ خطے میں تناو میں اضافہ اور فوجی ٹکراو کا خواہاں نہیں اور اسے خطے کے مستقبل کیلئے نقصان دہ تصور کرتا ہے۔ اسی طرح ایران کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ سفارتی چینل کھلا رہنا چاہئے اور ملک میں موجود سفارتی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔ دوسری طرف پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے قطر کو کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل اور انسانی امداد کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہئے۔ اس بار فعال غیر جانبداری خارجہ پالیسی کی مناسب اسٹریٹجی قرار پا سکتی ہے۔

اگرچہ موجودہ بحران میں ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلیج فارس کے خطے میں اس بحران کا آغاز سعودی عرب نے کیا ہے، لیکن ایران قطر سے بھرپور تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب سے تعلقات پر بھی کام کر سکتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کی جانب سے قطر کے وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک رابطہ اور ایرانی صدر کی جانب سے نائب وزیر خارجہ کے ذریعے قطر کے امیر کو بھیجا گیا پیغام مذکورہ بالا خارجہ پالیسی کے تناظر میں مثبت اقدامات ہیں۔ دوسری طرف ایران سعودی عرب سے بھی تعلقات میں بہتری کی کوشش انجام دے سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 651134
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش