0
Thursday 27 Jul 2017 01:03

جنوبی ایشیاء میں جارحانہ انداز اختیار کرتا چین(2)

جنوبی ایشیاء میں جارحانہ انداز اختیار کرتا چین(2)
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی اور ایک دوسرے کے ساتھ 3500 کلومیٹر لمبی مشترکہ سرحد کے معاملے پر چپقلش جاری ہے۔ 1962ء میں بھی ان دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کے تنازع کی وجہ سے جنگ چھڑ گئی تھی اور 55 برس گزر جانے کے بعد بھی کئی علاقوں پر ابھی تنازع باقی ہے۔ یہ معاملہ اس وقت اٹھا جب انڈیا نے چین کی جانب سے سرحدی علاقے میں سڑک کشادہ کرنے کے منصوبے کی مخالفت کی۔ یہ علاقہ انڈیا کے شمال مشرقی صوبی سکم اور پڑوسی ملک بھوٹان کی سرحد سے ملتا ہے اور اس علاقے پر چین اور بھوٹان کا تنازع جاری ہے، جس میں انڈیا بھوٹان کی حمایت کر رہا ہے۔ انڈیا کو خدشہ ہے کہ اگر یہ سڑک مکمل ہو جاتی ہے تو اس سے چین کو انڈیا پر اسٹریٹیجک برتری حاصل ہو جائے گی۔ انڈیا کے فوجی حکام نے اس سڑک کی تعمیر پر احتجاج کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے فائرنگ نہیں شروع کی۔ ہمارے جوانوں نے صرف ایک انسانی دیوار کھڑی کر دی، تاکہ چینیوں کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔ دوسری جانب چینی حکام کا کہنا ہے کہ انڈین سرحدی گارڈز نے معمول کی سرگرمی روکنے کی کوشش کی ہے۔ اس کشیدگی کی ایک وجہ دلائی لامہ بھی ہیں۔ چین نے اپنی جنوبی سرحد پر انڈیا کے ساتھ چند متنازع علاقوں کے ناموں کو تبدیل کر دیا ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب 81 سالہ دلائی لاما نے انڈیا کے شمال مشرقی دور افتادہ علاقے اروناچل پردیش کا دورہ کیا تھا۔ چین کا کہنا ہے کہ اس دورے سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات پر منفی اثر پڑا ہے اور انہوں نے انڈیا کو چینی مقادات کو نقصان پہنچانے سے خبردار کیا۔ چین کے اس اقدام کے بعد انڈیا نے ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم انڈیا کا موقف ہے کہ دلائی لاما کا دورہ صرف مذہبی وجوہات کے لئے منعقد کیا گیا۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ دلائی لاما نے ریاست اروناچل پردیش کا دورہ کیا ہو۔ انہوں نے اس ریاست کے 1983ء، 1997ء، 2003ء میں دو مرتبہ اور 2009ء میں سرکاری دورے کئے ہیں، لیکن چین نے جارحیت کا انداز ابھی اپنایا۔

چینی ریاستی میڈیا کا کہنا ہے کہ چین نے جنوب تبت میں چھ مقامات کے نام کو سٹینڈرڈ بنا دیا ہے، جو کہ چینی علاقے ہیں، مگر ان میں سے کچھ کو ابھی انڈیا کنٹرول کر رہا ہے۔ چین نے یہ اعلان دلائی لاما کا ایک ہفتہ طویل دورہ ختم ہونے کے ایک روز بعد کیا تھا۔ یہ پہلی بار ہے کہ چین نے متنازع علاقے میں کسی مقام کا نام تبدیل کیا ہو۔ حال ہی میں انڈیا نے تائید کی تھی کہ اس کا یہ موقف برقرار ہے کہ تبت چین کا حصہ ہے۔ اب چین مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر رہا ہے، یہ امریکہ کا خطے میں اثر کم کرنے کی تدبیر بھی ہے اور چینی منصوبوں کی تکمیل کیلئے ضروری بھی۔ لیکن انڈیا نے مسئلہ کشمیر کے حل میں تعمیری کردار ادا کرنے کی چین کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک باہمی معاملہ ہے اور اس تنازعے پر پاکستان سے بات چیت کے لئے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان گوپال باگلے کہہ چکے ہیں کہ اصل مسئلہ سرحد پار سے جہاد کی سرپرکا ہے، جس کی ایک ملک کی جانب سے اعانت کی جا رہی ہے اور جس سے انڈیا، جنوبی ایشیا اور دنیا کے امن و امان کو خطرہ لاحق ہے، ہم پاکستان سے ایک باہمی طریقہ کار کے تحت مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ اس سے پہلے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش ظاہر کی تھی۔ بیجنگ میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ کنٹرول لائن پر ٹکراؤ ہو رہا ہے، اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کے امن و استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اس سے پورا خطہ متاثر ہوگا، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کے لئے چین اپنا تعمیری کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ چین کی کشمیر میں بڑھتی ہوئی دلچسپی بھارت اور امریکہ دونوں کیلئے چیلنج ہے۔ چین کی وزارت خارجہ بار بار مسئلہ کشمیر کا ذکر کر رہی ہے کہ کشمیر کی صورت حال اتنی کشیدہ ہے کہ اب بین الاقوامی برادری کی توجہ اس کی طرف مبذول ہونے لگی ہے۔

بھارت اور پاکستان جنوبی ایشیا کے اہم ممالک ہیں، لیکن کشمیر کے کشیدہ حالات کے سبب اب اس تنازع کی طرف سبھی کی توجہ مبذول ہو رہی ہے۔ جب ساری دنیا کشمیر پر دھیان دیگی تو دنیا کو چین کا کردار نمایاں نظر آئے گا۔ چین کے بڑھتے ہوئے کردار سے دونوں ممالک ایسے اقدامات کریں گے، جن سے کشیدگی کم کرنے اور خطے میں امن و استحکام کے قیام میں مدد ملے گی۔ اس مسئلے پر بھی چین کا انداز جارحانہ ہے۔ حالانکہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ جیسا کہ جب انڈیا اور چین کے فوجی سکّم کی سرحد کے نزدیک ڈوکلام خطے میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں اور چین نے دھمکی دی ہے، جس طرح بھارت کے فوجی ڈوکلام کے متنازع علاقے میں بھوٹان کی درخواست پر داخل ہوئے ہیں، اسی دلیل کی بنیاد پر تیسرے ملک کی فوج پاکستان کی درخواست پر کشمیر میں داخل ہوسکتی ہے۔ یہ ایک چینی اخبار کا اداریہ تھا اور تیسرے ملک سے ان کی مراد چین سے تھی۔ انڈیا کی طرف سے چین کے اس بیان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گيا ہے اور میڈیا بھی اس معاملے میں پوری طرح سے خاموش ہے۔ کشیدگی جاری ہے اور اس دوران انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان گوپال باگلے نے کہا ہے کہ دونوں ممالک موجودہ کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے سفارتی راستہ اختیار کر رہے ہیں، حال میں جب ہیمبرگ میں جی 20 کے سربراہی اجلاس میں انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جین پینگ کے درمیان ملاقات ہوئی تھی تو دونوں رہنماؤں نے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ لیکن چین نے نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں رہمناؤں کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی اور انہوں نے صرف مصافحہ کیا تھا۔ ساتھ ہی چین کی اس حکمت عملی کے نتیجے میں امریکہ کیساتھ تعلقات بڑھانے والے بھارتی وزیراعظم کو اندرونی طور پر تنقید کا سامنا ہے۔

انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں نے چین سے تازہ سرحدی تنازعے سے نمٹنے کے طریقے پر مودی حکومت پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ یہ اس دباؤ کا نتیجہ ہے کہ بھارتی حکومت چین اور کشمیر کے سوال پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے حق ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ چین کے سفیر برائے انڈیا لوؤ ژاوئی نے انڈین خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا ہے کہ امن قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انڈیا بغیر کسی شرائط کے اپنی افواج سرحد سے پیچھے بلا لے۔ سفارتی حلقوں میں چینی سفیر کا یہ بیان معاملات میں تیزی لانے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، لیکن بھارت عسکری لحاظ سے پھنستا جا رہا ہے۔ انڈیا کے عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ سکم وہ واحد علاقہ ہے، جہاں سے انڈیا چین پر جنگ کی صورت میں چڑھائی کرسکتا ہے اور یہ ہمالیہ کے خطے کا واحد علاقہ ہے، جہاں انڈیا کی فوج کو چین پر جغرافیائی سبقت حاصل ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈین فوج کے سابق میجر جنرل گگنجیت سنگھ نے کہا کہ چین جانتا ہے کہ اس مقام کی کیا اہمیت ہے اور وہ ہمیشہ سے ہماری برتری کو ختم کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ لیکن انڈیا کے وزیر دفاع ارون جیٹلی نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ '2017ء کا انڈیا 1962ء والا انڈیا نہیں ہے اور وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کا پورا حق رکھتا ہے۔ 1962ء میں ہونے والی جنگ میں چین نے انڈیا کو زبردست شکست دی تھی۔ لیکن چین نے اس علاقے پر اپنی سالمیت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اس کا اپنا علاقہ ہے اور انڈین فوج وہاں زبردستی داخل ہونے کوشش کر رہی ہے۔ چین نے انڈیا کو خبردار کرتے ہوئے اسے 1962ء کی جنگ میں ہونے والی شکست یاد دلائی اور کہا کہ اب کا چین اس وقت سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔
۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 656147
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش