0
Sunday 27 Aug 2017 16:19

امریکہ اور نسل پرستی کا سرطانی پھوڑا

امریکہ اور نسل پرستی کا سرطانی پھوڑا
تحریر: عبدالحمید بیاتی
امریکہ میں نسل پرستی کی لمبی تاریخ پائی جاتی ہے اور اس ملک کی تاریخ نسل پرستی سے بھری پڑی ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ میں سفید فام شہریوں کی جانب سے سیاہ فام شہریوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کیونکہ وہ خود کو ملک کا واحد مالک تصور کرتے ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہریوں کا قتل اور ان کے خلاف کوئی عدالتی کاروائی نہ ہونا، مساجد اور دینی اقلیتوں کے دیگر مذہبی مقامات پر حملے امریکہ میں نسل پرستی کے بعض واضح نمونے ہیں۔ ایسی تاریخ کی حامل ایسی سرزمین پر ایسے شخص کا برسراقتدار آ جانا جو ہر لمحہ نسل پرستی کی جلتی آگ پر تیل چھڑک رہا ہے، اس ملک میں نسل پرستانہ جرائم میں 20 فیصد اضافے کا باعث بنا ہے۔ اس ضمن میں گذشتہ ہفتے امریکہ کی ریاست ورجینیا کے شہر چارٹسوسیل میں سفید فام نسل پرست عناصر نے نسل پرستی کے خلاف مظاہرین پر ہلا بول دیا۔ ایک سفید فام نسل پرست شخص نے مظاہرین پر گاڑی چڑھا دی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور بیس زخمی ہو گئے۔

گذشتہ برس صدارتی مہم کے دوران امریکہ میں معرض وجود آنے والی فضا اور صدارتی امیدواروں کی جانب سے مسلسل لفظی جنگ اور دینی اقلیتوں کے خلاف شدت آمیز بیانات کا نتیجہ یہ نکلا کہ کم از کم امریکہ کی 9 ریاستوں میں نفرت کی بنیاد پر انجام پانے والے جرائم میں 20 فیصد اضافہ ہو گیا۔ اسی لئے 8 نومبر کے صدارتی الیکشن کے بعد نفرت کی بنیاد پر انجام پانے والے مجرمانہ اقدامات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور ان کا سلسلہ موجودہ سال بھی جاری ہے۔ بم دھماکے کی دھمکی، مختلف ادیان سے تعلق رکھنے والے افراد کے مذہبی مقامات کی بے حرمتی ان مجرمانہ اقدامات کے بعض نمونے ہیں۔

ٹرمپ، نسل پرستانہ اقدامات کے ذمہ دار
اگرچہ امریکہ کے شہروں میں نیویارک وہ شہر ہے جو 380 نفرت پر مبنی مجرمانہ اقدامات کے ساتھ سرفہرست ہے، لیکن 2015ء میں انجام پانے والے ایسے مجرمانہ اقدامات کے مقابلے میں 24 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ دوسری طرف واشنگٹن میں بھی 108 نفرت پر مبنی مجرمانہ اقدامات انجام پائے ہیں جو گذشتہ سال کی نسبت 62 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر نیویارک، واشنگٹن، شکاگو، فلاڈیلفیا، میری لینڈ، اوہیو، سیٹل، لانگ بیچ، کیلی فورنیا، سن سنٹی اور مونٹگومری میں نفرت کی بنیاد پر 1037 مجرمانہ اقدامات انجام پائے ہیں جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 23.3 فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔

اسی طرح امریکہ کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی اور مسلمانوں کے خلاف ان کے شدت پسندانہ بیانات کے بعد مختلف امریکی ریاستوں میں مساجد پر حملے اور آتش سوزی کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے سے امریکی نسل پرست عناصر کو ایک بڑی کامیابی نصیب ہوئی ہے اور اب وہ کسی ڈر خوف کے بغیر مجرمانہ اقدامات انجام دے رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور رویہ بھی امریکہ میں نسل پرستی کی شدت میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ چارٹسوسیل واقعات کے بعد ورجینیا کے اٹارنی جنرل نے کہا ہے: "ٹرمپ امریکہ میں نسل پرستانہ اقدامات کے ذمہ دار ہیں کیونکہ امریکی صدر نے براہ راست طور پر اور واضح انداز میں نسل پرست عناصر کی مذمت سے گریز کیا ہے۔"

دوسری طرف چارٹسوسیل کے میئر مائیکل سنگر نے اگرچہ اپنے ٹویٹر پیغام میں نسل پرستانہ شدت پسندی کی مذمت پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قدردانی کی ہے لیکن وہ خود کو اس حقیقت کو بیان کرنے سے نہ روک پائے کہ درحقیقت امریکی صدر کا رویہ بھی ان مشکلات کی پیدائش میں موثر واقع ہوا ہے۔ مائیکل سنگر نے اپنے شہر میں سفید فام قوم پرست عناصر کی جانب سے شدت پسندانہ اقدامات کو مایوس کن قرار دیا اور کہا کہ نسل پرستانہ تعصب پر مبنی فضا پیدا کرنے میں ٹرمپ بھی قصور وار ہیں کیونکہ انہوں نے بارہا اپنی صدارتی مہم کے دوران مسلمانوں اور لاطینی نژاد امریکی شہریوں کے خلاف شدت پسندانہ موقف اپنایا ہے۔ مائیکل سنگر نے کہا: "میں موجودہ عہدے سے غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میری نظر میں آج امریکہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں وائٹ ہاوس اور صدر ٹرمپ کے قریبی افراد کا بہت بڑا کردار ہے۔"

جمہوریت سے زیادہ لمبا ماضی
ہارورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ اور امریکی امور کے ماہر اسٹیفن لینڈمین امریکہ میں نسل پرستی کے بارے میں کہتے ہیں: "امریکہ میں نسل کی تاریخ جمہوریت سے زیادہ پرانی ہے۔ دنیا کے مغربی نصف کرہ میں غلامی کا ماضی زیادہ لمبا ہے اور صدیوں تک جاری رہا ہے۔ حتی جم کرو کی جانب سے امریکہ میں غلامی کے خاتمے کے بعد بھی ملک میں نسل پرستی اور غلامی کا سلسلہ چلتا رہا اور آج بھی ہم جنوبی فارمز میں "روایتی غلامی" کے شاہد ہیں۔ اکثر مارکیٹس اور ریسٹورنٹس میں یہ سلسلہ دیکھا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، امریکہ میں جسم فروشی کرنے والی جوان لڑکیوں کی اکثریت دوسروں کی طرف سے زبردستی اس کام (جنسی غلامی) میں دھکیل دی جاتی ہیں۔

امریکہ میں پولیس افسران بغیر کسی پریشانی کے انسان قتل کر دیتے ہیں۔ اب تک حتی ایک پولیس افسر کو بھی بیگناہ انسان قتل کرنے کے جرم میں سزا نہیں سنائی گئی۔ پولیس کی جانب سے انجام پانے والے مجرمانہ اور وحشیانہ اقدامات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ امریکہ کی تاریخ شدت پسندانہ اقدامات سے بھری پڑی ہے جس کے نتیجے میں آج بھی ایسے اقدامات انجام پا رہے ہیں۔ امریکہ میں رنگین جلد رکھنے والے افراد انتہائی وحشت ناک حد تک شدت پسندانہ اقدامات کا نشانہ بنائے جاتے ہیں جبکہ اس مشکل کے خاتمے کیلئے نہ صرف فیڈرل سطح پر بلکہ ریاستی اور علاقائی سطح پر بھی کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیا گیا۔ امریکہ میں قیدیوں کی تعداد دنیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے جن کا دو تہائی حصہ سیاہ فام اور لاطینی نژاد شہریوں پر مشتمل ہے۔ 50 فیصد قیدی ایسے ہیں جن پر عائد کئے گئے الزامات شدت پسندانہ نوعیت کے نہیں اور ممکن تھا انہیں قید نہ کیا جاتا۔ امریکہ میں جمہوریت کا کوئی نام و نشان نہیں کیونکہ یہ ملک جمہوریت کی بنیاد پر تشکیل ہی نہیں پایا۔ امریکہ کے حقیقی بانی اس بات پر عقیدہ رکھتے تھے کہ ملک چلانا صرف سرمایہ دار طبقے کا حق ہے۔ یہ طبقہ اپنی دولت اور سرمایہ بڑھانے کیلئے حتی باقی عوام کی زندگی مشکلات سے دوچار کر سکتا ہے۔"

امریکہ میں نسل پرستی کی تاریخ
برطانیہ کی نارتھ امبریا یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹوارٹ سم امریکہ میں نسل پرستی کے بارے میں کہتے ہیں: "امریکہ میں نسل پرستی کی تاریخ اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں غلامی کے دور تک جا پہنچتی ہے۔ اگرچہ آج بظاہر امریکہ میں نسل پرستی ممنوع قرار دی جا چکی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی عوام کی زندگی میں ایک مستقل قانون کی طرح جاری و ساری ہے۔ اسی وجہ سے فرگوسن مسوری اور نیویارک میں مشکلات دیکھی جا رہی ہیں۔ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں، جہاں خانہ جنگی کے زمانے تک غلامی رائج تھی، اب بھی سیاہ فام شہریوں کو دوسروں کے برابر حقوق کا مستحق نہیں سمجھا جاتا اور نسل پرستی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ نسل پرستی امریکی معاشرے میں غیر سرکاری طور پر پائی جاتی ہے۔

سیاہ فام امریکی شہریوں (خاص طور پر افریقی – امریکی سیاہ فام شہری) کا شمار امریکی معاشرے کے پست ترین افراد میں کیا جاتا ہے۔ ایسی تاریخ اور ثقافت پر غلبہ پانا ممکن نہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو افریقی نژاد امریکی شہر دیگر ہم وطن افراد کی نسبت نچلی تعلیمی سطح سے برخوردار ہیں اور نتیجتاً نچلی سطح کے عہدے ان سے مخصوص کئے جاتے ہیں۔ ان حالات کے باعث سیاہ فام شہریوں میں ثقافتی مایوسی پائی جاتی ہے اور وہ ہر قسم کی تبدیلی کے مقابلے میں مزاحمت کا اظہار کرتے ہیں۔"

امریکی صدور مملکت میں سے سابق امریکی صدر براک اوباما سیاہ فام شہری تھے۔ وہ خود سفید فام شہریوں کے نسل پرستانہ اقدامات اور زیادتیوں کا قریب سے تجربہ کر چکے تھے لہذا انہوں نے اپنے 8 سالہ دور صدارت میں امریکی معاشرے سے نسل پرستی کی لعنت ختم کرنے کیلئے بھرپور کوشش کی لیکن وہ نسل پرست عناصر پر غلبہ پانے میں ناکام رہے۔ صدر براک اوباما نے تاریخی بیان دیتے ہوئے کہا: "نسل پرستی اب بھی ایک لعنت کے طور پر امریکی معاشرے میں موجود ہے اور امریکہ کو اس کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے۔" اسی طرح انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران نسل پرستی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نسل پرستانہ سوچ امریکی شہریوں کے ڈی این اے میں پائی جاتی ہے۔

براک اوباما نے اپنی پہلی صدارتی مہم کے دوران عوام سے وعدہ کیا کہ اگر وہ صدر بننے میں کامیاب ہو گئے تو دینی اقلیتوں اور سیاہ فام شہریوں کے خلاف امریکی پولیس کے نسل پرستانہ اور شدت پسندانہ اقدامات کا خاتمہ کر دیں گے لیکن ان کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکی پولیس کے ایسے اقدامات میں نہ صرف کمی واقع نہ ہوئی بلکہ رپورٹس کی روشنی میں براک اوباما کے دور صدارت کے آخر میں سیاہ فام شہریوں، مسلمانوں اور لاطینی نژاد شہریوں کے خلاف امریکی فیڈرل پولیس کے شدت پسندانہ اقدامات میں 8 سے 20 فیصد تک اضافہ ہو گیا۔

2015ء کی مردم شماری کے مطابق امریکہ کی کل آبادی تقریباً 32 کروڑ ہے جس کا 25 فیصد حصہ دینی اقلیتوں پر مشتمل ہے۔ البتہ امریکہ کے مقامی باسیوں کا کردار بھی اہم ہے۔ امریکہ ایک ایسا ملک ہے کہاں مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہے اور بڑی تعداد میں حکومتی عہدے بھی غیر ملکی مہاجرین کے پاس ہیں۔ لہذا موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کسی بھی طرح نسل پرستی کی ترغیب یا حمایت ملک کو شدید بحران سے روبرو کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسری طرف گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران، جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالا ہے، ملک کسی نہ کسی ایشو پر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ شروع میں مہاجرت سے متعلق ٹرمپ کے نئے قوانین عوامی اعتراض کا سبب بنے۔ اس کے بعد امریکی صدر کی جانب سے سفید فام نسل پرست عناصر کی ڈھکے چھپے الفاظ میں حمایت نے امریکی معاشرے میں بے چینی کی لہر دوڑا دی۔ سیاہ فام شہریوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر اور لمبی مدت کیلئے احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف چارٹسوسیل جیسے واقعات سیاہ فام طبقے سے امریکی شہریوں کی ہمدردیاں بڑھنے کا سبب بن رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 664692
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش