0
Monday 11 Sep 2017 07:21

قائد اعظم کے رہنما اصول

قائد اعظم کے رہنما اصول
تحریر: انصر مہدی
مرکزی جنرل سیکرٹری آئی ایس او پاکستان


تاریخ شاہد ہے کہ مخلص، دیانت دار اور باصلاحیت قیادت ہی قوموں کو بام عروج پر لے جاتی ہے اور ان خصوصیات کی حامل شخصیات بہت نایاب ہوتی ہیں۔ بقول شاعر
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ایسی ہی ایک شخصیت قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ہے، جس نے صدیوں سے ہندوؤں اور انگریزوں کے ظلم و بربریت کا نشانہ بننے والی اس قوم کی شب غلامی کو صبحِ آزادی کے انوار سے ہمکنار کر دیا اور ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی جو اسلام کا قلعہ ہو اور امن و آشتی کا گہوارا ہو، جہاں مسلمان آزادی کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ ناصرف مسلمان بلکہ دیگر تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کسی نسلی، لسانی و مذہبی تعصب کے بغیر اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔

قائداعظم انتھک محنت کے قائل تھے۔ کام، کام اور صرف کام انکا اصول تھا۔ قائد اعظم اسی انتھک محنت کے بل بوتے پر پاکستان کو دنیا کی مضبوط ترین قوم دیکھنا چاہتے تھے۔ آزادی، محبت، یقین محکم، تنظیم، تحمل اور برداشت یہ وہ اوزار ہیں، جن کی مدد سے قائداعظم نے پاکستان کا شاہکار مجسمہ تراشا۔
لیکن افسوس!
آج آدھی صدی میں پاکستان آدھا رہ گیا ہے۔ جس ریاست کے قیام کے لئے انتھک جدوجہد کی گئی، ہم اس کی تخلیق کے مقاصد ہی نہ پورے کر سکے۔ دستور کی تدوین سے لیکر جمہوری اداروں کی تشکیل ہو یا ملکی استحکام سے لے کر داخلی و خارجی پالیسیوں کی ترتیب ہو، سب کچھ ادھورا پڑا اپنی تکمیل کیلئے کسی قائداعظم کا منتظر ہے۔ حوسِ اقتدار میں گرفتار حکمران قائد اعظم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے الجھ کر گروہوں میں بٹ گئے۔ پاکستان کو ترقی دینے اور قائداعظم کی خواہش کے مطابق ڈھالنے کے بجائے نسلی، لسانی، علاقائی اور صوبائی تعصبات کا شکار کر دیا۔ اقتصادی بحران، دہشت گردی، مہنگائی، کرپشن، اقرباء پروری اور قتل و غارت گری نے ہمیں اپنی ہی نظروں سے گرا دیا ہے اور وہ سنہری اصول جن کی بنیاد پر پاکستان کو حاصل کیا گیا، یعنی محبت، یقین محکم، تحمل اور برداشت آج ہم نے خود ان اصولوں کا گلا اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا ہے۔

آج وہی حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں، جو کئی دہائیاں قبل پاکستان کے مقدس وجود سے پہلے برصغیر کے تھے۔ وہی حکمرانوں کی عیاشیاں، اقرباء پروریاں اور ظلم و ستم، مایوسی کے اُس دور میں بھی قائداعظم کی توجہ کا مرکز طلباء تھے اور قائداعظم کی تمام تر امیدیں اُس وقت کے طلباء سے وابستہ تھی۔ آپ طلباء کو ہی قوم کا حقیقی معمار قرار دیتے تھے۔ قائداعظم اکثر تعلیمی اداروں میں جا کر طلباء سے ملتے اور ان کے خیالات سنتے اور اُن کی رہنمائی فرماتے۔ اپریل 1948ء کو پشاور میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرے نوجوان دوستو! آپ اپنی شخصیت کو محض سرکاری ملازم بننے کے خول میں محدود نہ کیجئے۔ اب نئے میدان، نئے راستے اور نئی منزلیں آپ کی منتظر ہیں۔ سائنس، تجارت، بنک، بیمہ، صنعت و حرفت اور نئی تعلیم کے شعبے آپ کی توجہ اور تجسس کے محتاج ہیں۔" آج بھی قائد اعظم کے بتائے اصول ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ آج کا دن 11 ستمبر یوم وفات قائد اعظم ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم طلباء اپنا تمام تر وقت حصولِ علم کے لئے وقف کریں اور اپنے ملک کیلئے حقیقی معنوں میں اثاثہ بنیں اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنالیں۔
قائد اعظم زندہ باد!
پاکستان پائندہ باد!
خبر کا کوڈ : 668302
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش