0
Tuesday 31 Oct 2017 22:24

شام کو تقسیم سے محفوظ رکھنے میں موثر عوامل

شام کو تقسیم سے محفوظ رکھنے میں موثر عوامل
تحریر: امین حطیط (عرب تجزیہ کار)

شام اور اس کے اتحادیوں کی اپنے اور خطے کے خلاف شروع کی گئی جارحانہ جنگ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں اور عراق میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے خاتمے کے باوجود ان ممالک کو تقسیم کرنے کا خواب بدستور امریکی صہیونی سازشی ٹولے اور خطے میں ان کے ہرکاروں کے ذہن میں موجود ہے اور وہ اپنی حتمی شکست سے بچنے اور گذشتہ سات برس کے دوران خطے کی اقوام سے ٹکراو پر ہونے والے اخراجات پورا کرنے کا واحد راستہ اسی مقصد کی تکمیل میں دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور ان کے پٹھو اپنے حوصلے بڑھانے اور اپنے حمایت یافتہ علیحدگی پسند اور دہشت گرد عناصر کی حوصلہ افزائی کیلئے ایسے واقعات اور حقائق کی جانب اشارہ کر رہے ہیں جو ان کیلئے امیدواری کا باعث ہیں اور ان کی مدد سے وہ شام اور عراق کی علاقائی سالمیت کو ٹھیس پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد شام اور عراق کو تقسیم کر کے ایسے چھوٹے کمزور ممالک میں تقسیم کرنا ہے جو خطے میں موثر اسٹریٹجک کردار ادا کرنے سے قاصر ہوں۔

امریکی صہیونی بلاک خطے میں ممالک کی تقسیم کو ممکن بنانے کیلئے درج ذیل موارد کو اپنے لئے امیدواری کا باعث قرار دے رہے ہیں: شام میں موجود امریکہ کے 11 فوجی اڈے کو شمال مشرقی حصے سے لے کر جنوب مشرقی حصے تک پھیلے ہوئے ہیں، عراق میں موجود امریکہ کے 7 فوجی اڈے، عراق اور شام میں موجود امریکہ کے 15 ہزار فوجی۔ ان تمام فوجی اڈوں میں موجود افراد اور فوجیوں کا اصل مشن مقامی علیحدگی پسند عناصر اور تحریکوں کی مدد کرنا ہے۔ ان امریکی سرگرمیوں کی تازہ ترین مثال عراق کے زیر انتظام کردستان میں دیکھی گئی ہے۔ امریکی حکام خطے کے ممالک کو توڑ کر ان میں موجود قدرتی وسائل خاص طور پر تیل اور گیس کے وسیع ذخائر پر قبضہ کرنے کے خواہاں ہیں۔ مزید برآں، امریکہ خطے کے ممالک پر اپنا سیاسی اثرورسوخ بڑھا کر حکومتی فیصلوں پر بھی اثرانداز ہونا چاہتا ہے۔

عراق اور شام میں امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی کے علاوہ شام کے شہر ادلب میں ترکی کی فوجی موجودگی بھی قابل غور ہے۔ سیاسی ماہرین کی نظر میں ادلب میں ترکی کی فوجی موجودگی ایک درپردہ قبضے کی مانند ہے اور ترکی یہ قبضہ ختم کرنے عوض شام کے آئندہ سیاسی نظام سے اپنا حصہ وصول کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر ترکی کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ علاقائی سطح پر ایک خودمختار ریاست تشکیل دینے کی کوشش کرے تا تاکہ اس طرح اس خطے کا کنٹرول شام کی مرکزی حکومت کے پاس واپس جانے سے روک سکے۔ یہ امر شام کی تقسیم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

وہ ممالک جن کیلئے شام کی علاقائی سالمیت اور وحدت اہم ہے اور اس پر زور دیتے ہیں اس بارے میں بعض امور کے بارے میں پریشان ہونے اور اس کی وارننگ دینے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن وہ قوتیں جو شام کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں اس حقیقت کو فراموش کر چکی ہیں کہ حلب، دیر الزور، سویدا، درعا یا شام کے دیگر حصوں میں ان کے اس خواب پر کیا گزری۔ درج ذیل نکات پر غور کرنے سے شام کی تقسیم کی آس لگائے بیٹھی قوتوں کے تمام امیدوں پر پانی پڑ جائے گا اور ممکنہ تقسیم سے پریشان ممالک کی پریشانی دور ہو جائے گی:

1۔ وہ فوجی اڈے جو امریکہ نے عراق اور شام میں دہشت گرد گروہ داعش سے مقابلے کے بہانے قائم کر رکھے ہیں بہت جلد اپنی افادیت کھونے والے ہیں کیونکہ داعش اب اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور اس دہشت گرد گروہ کے مکمل خاتمے کے بعد منطقی طور پر ان ممالک میں امریکہ کی فوجی موجودگی غیر قانونی قرار پائے گی اور اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ داعش کے خاتمے کے بعد امریکہ سے شام حکومت کا جائز اور قانونی مطالبہ داعش مخالف اتحاد ختم کر کے اس ملک سے فوجی انخلاء ہو گا اور امریکہ یہ مطالبہ ماننے سے انکار کرتا ہے تو وہ بلا شبہہ ایک جارح اور قابض قوت قرار پائے گا اور اسی تناظر میں اس سے باقی معاملات انجام پائیں گے۔ لہذا امریکہ کو داعش سے مقابلے کے بہانے شام میں بنائے گئے تمام فوجی اڈے ختم کرنا پڑیں گے۔ اس صورتحال کے تحقق میں اب بہت کم وقت رہ گیا ہے اور شام سے داعش کے خاتمے میں صرف چند ہفتے ہی باقی بچے ہیں۔

2۔ امریکہ خطے میں علیحدگی پسندی کی تحریکوں کو ہوا دے رہا ہے لیکن اس مسئلے میں خطے کی سطح پر اس کے حامیوں کی تعداد انتہائی محدود ہے۔ صرف کردوں کی بعض تنظیمیں امریکہ سے تعاون کر رہی ہیں لیکن وہ بھی محدود حد تک امریکہ کا ساتھ دے رہی ہیں۔ حال ہی میں عراق کے زیر انتظام کردستان میں علیحدگی پسند عناصر کو ہونے والی شدید شکست نے ان کے حوصلے پست کر دیئے ہیں۔ دوسری طرف شام کے شمال مشرقی حصے میں مقیم عرب قبائل بھی اس امریکی سازش کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اور ملک کی علاقائی سالمیت کی خاطر حکومت سے تعاون کر رہے ہیں۔ اسی طرح شام کی مسلح افواج اور اس کے اتحادی ممالک ہر قسم کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔

3۔ شام کے صوبے ادلب میں ترکی کی فوجی مداخلت کے مسئلے میں اگرچہ ترکی نے آستانہ کانفرنس کے نتائج سے ہٹ کر اپنے مخصوص منصوبے کے تحت عمل کرنا شروع کر دیا ہے لیکن دمشق کی جانب سے واضح موقف اپنانے کے بعد شام کے اتحادی ممالک نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔ یہ امر انقرہ کیلئے ایک قسم کی وارننگ تصور کیا جا رہا ہے کہ وہ فریب کاری اور سیاسی بغاوت کے ذریعے ایسے اہداف حاصل نہیں کر سکتا جنہیں وہ براہ راست طور پر حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسی طرح شام آرمی اور اس کی اتحادی فورسز مشرقی سرحدوں سے دہشت گرد عناصر کے خاتمے کے بعد "البوکمال" کی جانب پیشقدمی کریں گی تاکہ اس طرح مستقل طور پر ادلب اور ملک کے شمال مشرقی حصوں سے بھی دہشت گرد عناصر کا مکمل خاتمہ کر کے قومی سلامتی اور علاقائی سالمیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

4۔ شام کے جنوبی حصے میں اسرائیل اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ حمایت یافتہ دہشت گرد عناصر کی مدد سے ایک سکیورٹی بیلٹ بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس اسرائیلی منصوبے کی شکست مختلف وجوہات کی بنا پر انتہائی واضح امر ہے۔ اسرائیل نے خطے میں اپنے مفادات کے حصول کیلئے امریکہ کی مدد اور روس کی پناہ بھی حاصل کی لیکن اس کے باوجود وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ شام کے جنوبی حصے میں آرمی اور اتحادی فورسز نے مورچے سنبھال رکھے ہیں اور اب تک تمام جارحانہ اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ مزید برآں، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اس حقیقت کو بھی درک کر چکی ہے کہ اسلامی مزاحمتی بلاک اپنی سرزمین اور حقوق کے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

مختصر یہ کہ شام کی علاقائی سالمیت اور خود ارادیت کے حامی ممالک اور قوتوں کو لاحق پریشانی اپنی جگہ درست لیکن یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ شام اپنے خلاف شروع کی گئی عالمی جنگ میں کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے اور اپنے خلاف انجام پانے والی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے چکا ہے۔ حالیہ بحران میں شام کی فتح کا اعتراف اسرائیل سمیت اس کے دشمن ممالک بھی کر چکے ہیں۔ شام اپنے اتحادی ممالک کی مدد اور حمایت سے ملکی اتحاد اور علاقائی سالمیت کی بھرپور حفاظت کرے گا اور اس ضمن میں کسی بھی اقدام سے دریغ نہیں کرے گا۔
خبر کا کوڈ : 680547
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش