0
Wednesday 21 Feb 2018 15:09

راؤ انوار کا دست راست گرفتار، ہیڈ کانسٹیبل نے پولیس مقابلوں کے حوالے سے تمام راز اگل دیئے

راؤ انوار کا دست راست گرفتار، ہیڈ کانسٹیبل نے پولیس مقابلوں کے حوالے سے تمام راز اگل دیئے
ترتیب و تدوین: ایس جعفری

نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار ہیڈ کانسٹیبل علی رضا نے پولیس مقابلوں کے حوالے سے تمام راز اگل دیئے، ہیڈ کانسٹیبل علی رضا کے مطابق مقابلوں کی جگہ کا انتخاب کرنا، وہاں پر عارضی کھانے پینے کا سامان رکھنے کا انتظام مبینہ طور پر انسپکٹر شعیب شیخ کرتا تھا، جبکہ مبینہ دہشتگردوں کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے دفتر کے عقب میں قائم ایک مکان میں رکھتے تھے، وہاں کا انچارج معطل سب انسپکٹر انار خان تھا، اس کے علاوہ ہیڈ کانسٹیبل چوہدی فیصل بھی معاونت کرتا تھا، گرفتار ملزم علی رضا بلوچستان پولیس کا اہلکار ہے، جو گزشتہ 10 سال سے کراچی میں ڈیوٹی دے رہا تھا، سابق ایس ایس پی ملیر کے فرار ہونے کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رزاں سال 13 جنوری کو کراچی کے شاہ لطیف ٹاؤن کے علاقے میں مبینہ پولیس مقابلے میں 4 ملزمان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے کیا تھا، ان میں ایک نوجوان نقیب اللہ محسود بھی تھا، جس کے خلاف پولیس کو کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں ملا، مقابلے میں مارے جانے والوں میں شامل نقیب اللہ محسود کی جب شناخت ہوئی، تو جعلی مقابلے کا شور مچا اور بعد ازاں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو بھی اس کا نوٹس لینا پڑا، جس کے بعد انھوں نے نقیب اللہ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت پر ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک انکوائری ٹیم تشکیل دی، جس نے تمام واقعے کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہوئے 24 گھنٹے کے اندر تحقیقات مکمل کرکے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا تھا۔ جس کے بعد نقیب اللہ محسود کے والد کی مدعیت میں سچل پولیس نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے تمام واقعے کی رپورٹ طلب کی تھی۔

جعلی پولیس مقابلے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ان کی ٹیم کے تمام افسران و اہلکار روپوش ہوگئے اور اس دوران راؤ انوار کا دست راست ہیڈ کانسٹیبل علی رضا کراچی سے فرار ہو کر کوئٹہ چلا گیا، جہاں اس نے اپنی آمد پولیس ہیڈ کوارٹر کوئٹہ میں کرائی، جس کے بعد کراچی پولیس کو اس کی اطلاع مل گئی اور پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ہیڈ کانسٹیبل علی رضا کو کوئٹہ میں چھاپہ مار کر گرفتار کرلیا۔ گرفتار ملزم علی رضا نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ نقیب اللہ محسود اپنے 2 دوستوں کے ساتھ گزشتہ ماہ 3 جنوری کو سچل کے علاقے میں واقع ایک ہوٹل پر بیٹھ کر دکان کرائے پر لینے کی باتیں کر رہا تھا اور اس موقع پر ان کی میز کے برابر میں بیٹھے ہوئے پولیس کے مخبر نے فوری طور پر سائٹ سپر ہائی وے تھانے کے ہیڈ محرر چوہدری فیصل کو اطلاع دی کہ وزیرستان سے آئے ہوئے 3 نوجوان کراچی میں روپوش ہیں، جو کہ فرضی ناموں سے یہاں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس اطلاع پر چوہدری فیصل سچل تھانے کے چوکی انچارج علی اکبر ملاح کے ہمراہ ہوٹل پر چھاپہ مار کر تینوں نوجوان کو حراست میں لے لیا، 2 نوجوانوں کو چند روز تک تفتیش کرنے کے بعد رہا کر دیا، جبکہ نقیب اللہ محسود کے بارے میں چوہدری فیصل اور چوکی انچارج علی اکبر ملاح نے سابق ایس ایس پی ملیر کو بتایا کہ نقیب اللہ کا تعلق وزیرستان اور وہ کالعدم دہشتگرد تنظیموں کیلئے کام کرتا ہے اور شہر میں دہشتگردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث بھی ہے، جس پر ایس ایس پی نے حکم دیا کہ نقیب اللہ محسود کو بھی ڈیتھ سیل پہنچا دو، جہاں پر مبینہ طور پر دیگر دہشتگرد بھی موجود تھے، اس سیل میں جانے کے بعد پکڑے گئے ملزمان کا ان کاؤنٹر لازمی ہوتا تھا۔ گرفتار ہیڈ کانسٹیبل علی رضا نے تفتیشی افسران کے سامنے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اس سیل میں وہی مبینہ ملزم جاتا تھا، جس کو بلیک قرار دیا جا چکا ہوتا ہے اور جس مبینہ ملزم کو سفید قرار دیا جائے، اس کا مطلب اسے رہا کر دو۔

اکثر و بیشتر پولیس مقابلے سپر ہائی وے اور اس کے اطراف میں ہوتے تھے، جس کیلئے جگہ کا تعین مبینہ طور پر انسپکٹر شیعب شیخ کرتا تھا، 13 جنوری کے مقابلے کی جگہ کا تعین سابق ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت نے اپنے علاقے میں کروایا تھا اور چاروں ملزمان کو بکتر بند میں بیٹھا کر چوہدری عامر اپنے جوانوں کے ساتھ جائے وقوع پر لایا تھا۔ ملزم علی رضا نے دوران تفتیش مزید انکشاف کیا کہ وہ کوئٹہ پولیس کا بھرتی ہے اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار 2001ء میں جب کوئٹہ میں تعینات ہو کر آئے تھے، تو وہ ان کے ساتھ سیکیورٹی ڈیوٹی پر مامور ہوگیا اور ان کی خدمات کرتا رہا، جبکہ راؤ انوار دوبارہ سے کراچی ٹرانسفر ہوئے، تو وہ مجھے بھی اپنے ساتھ کراچی لے آئے، جس کے بعد سے وہ ان کے ساتھ کام کرنے لگا، سابق ایس ایس پی ملیر کے تمام کاموں کی جس میں جائز اور ناجائز دونوں شامل ہیں، ان کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ گرفتار ملزم علی رضا نے تفتیش کاروں کو مزید بتایا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی کراچی سمیت پورے پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں ہے۔ سابق ایس ایس پی ملیر کی پوری فیملی بیرون ملک میں مقیم ہے، راؤ انوار کی گزشتہ 19 جنوری کو ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کے دفتر میں پہلی پیشی ہوئی تھی، اس دن میری ان سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد سے میرا ان سے کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہں ہوا۔ ملزم کا کہنا ہے کہ راؤ انوار کی ٹیم میں ایس ایچ او سہراب گوٹھ شعیب شیخ، ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت، ایس ایچ او گڈاپ سٹی خان نواز، سب انسپکٹر انار خان، ہیڈ محرر سائٹ سپرہائی وے چوہدری فیصل، خیر محمد، سچل پولیس چوکی انچارج علی اکبر ملاح اور محمد عامر نامی شخص شامل ہے، جس کا پولیس سے کوئی تعلق نہیں، ملیر میں کسی بھی قسم کا غیر قانونی کام سابق ایس ایس پی ملیر کی اجازت کے بغیر کوئی نہیں کر سکتا تھا اور راؤ انوار نے ہر کام کیلئے الگ الگ پولیس افسر و اہلکار کو مقرر کیا ہوا تھا۔ واضح رہے کہ سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے دست راست ہیڈ کانسٹیبل علی رضا کو 11 فروری کے روز کوئٹہ سے گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد مفرور پولیس افسر کی گرفتاری کے امکانات بھی روشن ہو گئے ہیں، علی رضا راؤ انوار کے جعلی مقابلوں کا چشم دید گواہ بھی ہے اور نقیب کیس میں مدد گار بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 706526
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش