1
0
Monday 5 Mar 2018 22:28

شام کا مسئلہ، حقائق کو مسخ کرنے کیلئے قرآن و حدیث کی من پسند تشریح

شام کا مسئلہ، حقائق کو مسخ کرنے کیلئے قرآن و حدیث کی من پسند تشریح
تحریر: نصرت علی شاہانی

امیر المومنین حضرت علی ؑ کے فرمان کا مفہوم ہے، حق کو پہچانو (پھر اس کے ذریعہ) اہل حق کو پہچانو۔ یعنی اصل بنیاد حق ہے مگر اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی پسند کو ”حق“ قرار دے کر منوانے کی کوشش کریں، چنانچہ ہم پہلے اپنی ذات، خاندان، قبیلہ، مذہب، مسلک، پارٹی کے مفادات کو ”حق“ قرار دیتے ہیں، پھر چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی اسے ہی حق مانیں۔ فتنہ خوارج کا بھی یہی نعرہ تھا لا حکم الا اللہ یعنی فقط اللہ کا قانون۔ مگر اس کی آڑ میں وہ حضرت علی ؑ و دیگر بزرگ صحابہ ؓ کو باطل اور واجب القتل قرار دیتے تھے، چنانچہ انہوں نے حضرت علی ؑ کو حالت ِ سجدہ میں شہید کیا۔ حضرت علی ؑ نے انہی کے بارے فرمایا "کلمة الحق یراد بھا الباطل" ان کا نعرہ حق پر مبنی مگر مصداق و مراد باطل ہے۔ اوریا مقبول صاحب نے روزنامہ 92 میں 2 اور 5 مارچ کے کالم میں شام اور غوطہ کے حوالے سے آنحضور ﷺ سے منسوب احادیث کی آڑ میں وحشی صفت داعش کے حامیوں کی وکالت اور ان سے برسر ِپیکار حقیقی مجاہدین کو دہشتگرد قرار دے کر اسرائیلی مفادات کا دانستہ یا نادانستہ دفاع کرنے میں زور ِ قلم صرف کیا ہے۔ واضح رہے حدیث فہمی، علم ِحدیث ایک عمیق و دقیق علم ہے، جو کہ اوریا مقبول صاحب کا میدان ہی نہیں۔ اقسام ِحدیث، اس کی سند، متن، راوی اور اس کا حسب و نسب، صحیح، حسن، ضعیف، متواتر حدیث، علم ِرجال، راویان ِحدیث، ان پر عبور کیلئے حد درجہ زحمت و محنت درکار ہوتی ہے۔ کسی حدیث کا ترجمہ لکھ کر اُسے حالات ِحاضرہ پر منطبق کرنا اور اس کی من پسند تشریح کرنا حد درجہ خیانت اور ناقابل ِمعافی جرم ہے۔ کسی حدیث کا مصداق ثابت کرنے میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

کالم نگار کی اکثر و بیشتر انتہا پسندوں، دہشتگردوں کی حمایت پر ذمہ دار حلقوں اور معاصر دانشور، کالم نگاروں نے بھی بارہا سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ”شام“ کی عظمت کے حوالے سے اوریا مقبول نے جن احادیث کو ذکر کیا ہے، اس بارے اہل ِعلم کی رائے ان سے قطعی مختلف ہے۔ فتنہ جعل ِحدیث ایک مستقل باب ہے۔ یہ احادیث جعلی ہیں یا ان کی سند ضعیف ہے۔ رحلت ِپیغمبر کے بعد بدقسمتی سے کبھی بھی شام پر حاکم قوتوں اور اہل ِشام کا کردار قابل ِتعریف نہیں رہا۔ (مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت ملاحظہ ہو) اہل ِشام نے جانشین ِپیامبر، خلیفہ راشد، حضرت علی ؑ سے جنگ کی، کربلا کے المناک سانحہ میں اہل ِشام کے مظالم واضح ہیں۔ بلاتفریق ِمسلک تمام مورخین نے لکھا کہ سانحہ کربلا کے اگلے سال واقعہ حرہ میں اہل ِشام کی سیاہ بختی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ جب انہی پر مشتمل فوج نے مدینہ منورہ کو تاراج کیا، مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے، سینکڑوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی گئی، مدینہ کی گلیاں بے گناہوں کے خون سے سُرخ ہوئیں۔ کالم میں ذکر کردہ حدیث کی صحت کا فیصلہ اور اس کا موجودہ اہل ِشام پر انطباق خالصتاً علمی معاملہ ہے، جس پر اوریا مقبول جیسے متنازعہ، غیر عالم شخص کو لکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ جہاں تک آخری بڑے معرکے ملحمة الکبریٰ کا تعلق ہے، وہ ہرگز موجودہ جنگ و غارتگری نہیں بلکہ نسل ِپیغمبر سے حضرت امام مہدی ؑ کے ظہور کے وقت آخری معرکہ مراد ہے۔ جس کے بعد عالَمی سطح پر حق کی حکومت قائم ہوگی۔

کالم نگار کی پریشانی اور بوکھلاہٹ کی اصل وجہ ”غوطہ“ میں محصور دہشتگرد اور ان کے ہمنواﺅں کی بے بسی ہے، جنہوں نے دیگر آبادی کو بھی انسانی ڈھال بنا رکھا ہے اور فرار کیلئے محفوظ راستہ مانگ رہے ہیں، جس کیلئے ان کا سرپرست امریکہ ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے۔ آنحضور ﷺکی حدیث اس غوطہ کی موجودہ صورتحال کے بارے ہرگز نہیں۔ مستقبل کا حال اللہ بہتر جانتا ہے۔ اوریا صاحب نے حسب ِ عادت، دہشتگردوں اور داعش سے اپنی دیرینہ ہمدردیوں کا ایک بار پھر بھونڈے انداز میں اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کے ناک میں دَم کرنیوالی مجاہد تنظیم حزب اللہ اور ایرانی پاسداران ِانقلاب کو ہدف بنایا ہے۔ وحشی داعش کیخلاف امام ِکعبہ سمیت عالَم ِاسلام کے تمام ذمہ دار علماء نے فتوے دیئے، فقط امریکہ، اسرائیل اور وطن ِعزیز میں اوریا مقبول اور برقع پہن کر فرار ہونیوالے لال مسجد کے خطیب کی رگِ حمایت وقت بے وقت پھڑکتی رہتی ہے۔ حزب اللہ اگر سنی مسلمانوں کو قتل کرتی تو لبنان میں ایک بھی سنی مسلمان نہ بچتا۔ حزب اللہ نے کسی ایک بھی مسلمان کو مسلک کی بنیاد پر تکلیف نہیں پہنچائی۔ لبنان کے سنی مسلمانوں کی اسرائیلی مظالم سے حزب اللہ نے حفاظت کی ہے۔ اوریا مقبول کے صریح جھوٹے الزام کے مطابق اگر ایرانی پاسداران ِانقلاب دہشتگرد ہوتے تو ایران میں سُنی اکثریتی صوبوں سیستان، بلوچستان وغیرہ میں سُنی بھائی امن و سکون کیساتھ نہ رہ رہے ہوتے۔

داعش کے منحوس وجود کی تشکیل کو کالم نگار نے سُنیوں کی قتل و غارت کا ردعمل قرار دیا ہے، جسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا، کیونکہ ان وحشی درندوں کے سفاکانہ مظالم کا بڑا ہدف سنی مسلمان بنے ہیں، جس میں معصوم بچوں کا قتل، زندہ انسانوں کی کھال اتارنا، انبیاء، بزرگان و صحابہؓ کے مزارات منہدم کرنے جیسے انسانیت سوز جرائم شامل ہیں۔ کالم نگار اگر مظلوموں کا ہی حامی ہے تو حرمین شریفین کے جوار میں واقع اہل ِیمن کی مظلومیت پر لکھنے سے اس کے ہاتھ شَل کیوں ہو جاتے ہیں؟ جہاں سنی عوام پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں، پورے ملک کو تہس نہس کر دیا گیا۔ اقوام ِمتحدہ کے مطابق 50 ہزار معصوم بچوں کی زندگیاں تلف ہوگئیں۔ اِن کے قاتل کون ہیں، کیا یہ سفاکانہ دہشتگردی نہیں؟ 42 ملکی نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد نے کشمیر، فلسطین اور برما کے مظلوموں کیلئے کیا کیا ہے؟ حزب اللہ اور پاسداران ِانقلاب کے مجاہدین کو اسرائیل اور اس کے ہمنوا دہشتگرد کہتے ہیں، کیونکہ اُسے 60 اسلامی ممالک اور کسی فوجی اتحاد سے نہیں بلکہ اِنہی حقیقی دو مجاہد تنظیموں سے خطرہ ہے۔ امریکی و اسرائیلی مفادات کے ترجمان اور اُنہی کی زبان بولنے والے کالم نگار کے بعید از حقائق تجزیوں سے کوئی منصف مزاج مسلمان متفق نہیں ہوسکتا اور نہ ہی احادیث ِپیامبر کی غلط تشریح پر روزِ قیامت اللہ و رسول معاف کریں گے۔ اوریا صاحب ایک عرصہ سے مذہبی فرقہ واریت، مسلماتِ دین کی توہین اور دہشتگردی کی بالواسطہ حمایت کرکے مذہبی رواداری اور قومی سالمیت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ اخبارات اور میڈیا کے ذمہ داران اپنی مسئولیت کا احساس کریں اور دہشتگردی و فرقہ واریت کی کاری ضربوں سے چھلنی جسد ِامت کے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں۔
خبر کا کوڈ : 709298
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

محمد اشرف ملک
Iran, Islamic Republic of
ما شاء الله، کمال کا تجزیه
ہماری پیشکش