0
Tuesday 13 Mar 2018 21:53

الکرامہ تحریک، سعودی عرب میں ابھرنے والا نیا حکومت مخالف اتحاد

الکرامہ تحریک، سعودی عرب میں ابھرنے والا نیا حکومت مخالف اتحاد
تحریر: محمد علی

سعودی عرب میں گذشتہ چند ماہ کے دوران ایسی نئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جو پہلے سے مختلف نوعیت کی ہیں۔ اس دوران حکومت مخالف متحرک عناصر نے ایک نئے سیاسی اتحاد کی تشکیل کی خبر دی ہے جس کے بنیادی اہداف سعودی حکومت سے اپنے برحق اور جائز مطالبات کے حصول کو یقینی بنانے پر استوار ہیں۔ سعودی عرب کے حکومت مخالف سیاسی سرگرم رہنما "معن الجربا" نے "الکرامہ تحریک" نامی نئے سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سیاسی تنظیم کی تشکیل کا مقصد سعودی عوام کے جائز حقوق کا حصول ہے جن میں آئین بنانا اور شہری حقوق کو یقینی بنانا بھی شامل ہے۔ معن الجربا نے اس خبر کا اعلان آیت اللہ شیخ باقر النمر کی شہادت کی دوسری سالگرہ کے موقع پر لبنان کے دارالحکومت بیروت میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے شہید باقر النمر کے اصولوں کو اپنا منشور بنا رکھا ہے اور انہیں کے مشن کو آگے لے کر چلنے کا عزم کر رکھا ہے۔

معن الجربا نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ الکرامہ تحریک کی بنیاد درحقیقت آیت اللہ شہید النمر کے تفکرات اور فرامین پر ہی استوار کی گئی ہے اور ہم اس عظیم شہید سے وراثت کے طور پر حاصل ہونے والے علم اور دانش کو ہی اپنی تحریک کا سنگ بنیاد قرار دیں گے۔ شہید آیت اللہ النمر انسانی عزت اور احترام کے حصول کی راہ میں شہید ہوئے اور ہم اسی راہ کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ معن الجربا نے کہا کہ شہید آیت اللہ نمر نے پوری زندگی انسانی عزت اور احترام پر زور دیا اور اسے خداوند متعال کی جانب سے قیمتی تحفہ قرار دیا اور تاکید کی کہ کسی قوت کو اسے پامال کرنے کا حق حاصل نہیں۔ الکرامہ تحریک کے منشور میں مختلف قسم کے موضوعات جیسے ملک میں اصلاحات کا اجرا، شہری حقوق کی ضمانت فراہم کرنا، مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام اور عرب دنیا کے اہم ترین ایشو کے طور پر قبول کرنا اور لبنان اور فلسطین میں غاصب صہیونی رژیم کے خلاف جاری اسلامی مزاحمتی گروہوں اور تحریکوں کی حمایت کرنا شامل ہیں۔

الکرامہ تحریک کے منشور میں اس تحریک کو ایک عوامی اور حکومت مخالف تحریک قرار دیا گیا ہے جس کی سرگرمیوں کا مرکز سعودی عرب ہو گا اور اس کا اہم ترین ہدف عوام کے جائز حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔ لہذا یہ تحریک سعودی معاشرے کے تمام طبقات میں ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو کر عزت، احترام، عدالت، مساوات اور انسانی حقوق کی علمبردار ہے۔ اسی بنیاد پر الکرامہ تحریک کے بنیادی مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ ہر قسم کی فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر اسلامی شریعت کی روشنی میں ملک کا ایک آئین تشکیل دیا جائے۔ الکرامہ تحریک نے اپنے اہداف کے حصول کیلئے پرامن طریقہ کار اپنانے کا فیصلہ کیا ہے اور پرامن عوامی احتجاج کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہونے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ منشور میں تاکید کی گئی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ صرف عوام ہیں اور عوام ہی ملک پر حکمفرما سیاسی نظام کا تعین کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

الکرامہ تحریک کے دستور میں خطے میں جاری مزاحمتی تحریکوں کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے اور سماجی انصاف، آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی حمایت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے مقابلے کو قومی اور اسلامی اہداف کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔ لہذا الکرامہ تحریک ایک قومی – عوامی – عربی تحریک کے طور پر سامنے آئی ہے اور ایک سیاسی جماعت کے طور پر سامنے نہیں آئی۔ یہ تحریک مسئلہ فلسطین اور قدس شریف کو اپنا، عرب اقوام اور ممالک اور امت مسلمہ کا اہم ترین مسئلہ قرار دیتی ہے اور اس تناظر میں فلسطین کی قومی سلامتی اور علاقائی سالمیت پر زور دیتی ہے۔

الکرامہ تحریک کے بانی: انقلابی تحریک عنقریب زور پکڑنے والی ہے
الکرامہ تحریک کے بانی معن الجربا کہتے ہیں کہ ان کی احتجاجی تحریک بالکل نئی قسم کی تحریک ہے اور سعودی عرب میں اب تک جتنی روایتی اور احتجاجی تحریکیں تشکیل پائی ہیں ان سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ انہوں نے انتہائی پراعتماد اور ٹھوس لہجے میں کہا کہ وہ ظالم بادشاہوں اور آمر شہزادوں کے کان میں حق کی آواز پہنچانے میں کسی قسم کی سستی اور کوتاہی نہیں کریں گے کیونکہ ملک کے سیاسی میدان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے مقابلے میں خاموشی توڑ کر صدائے احتجاج بلند کرنے کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ معن الجربا نے 2006ء میں حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیل کی فوجی شکست کے بعد سعودی عرب میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ اس دوران انہیں سعودی انٹیلی جنس اور سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے شدید چیلنجز کا مقابلہ کرنا پڑا۔

اپنی سیاسی سرگرمیوں کے دوران معن الجربا نے سعودی عرب میں سرگرم آمریت اور استبداد کے خلاف تمام سیاسی تحریکوں کے سربراہان سے رابطہ کیا اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی سیاسی فعالیت کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور حالیہ دور کو 2006ء سے بہت زیادہ مختلف قرار دیتے ہیں۔ معن الجربا کی سیاسی سرگرمیوں کا پہلا حصہ سابق سعودی فرمانروا ملک عبداللہ کے دور میں انجام پایا۔ وہ اس دوران سعودی عرب میں ہی مقیم تھے اور سعودی فرمانروا سے رشتہ داری ہونے کے سبب کچھ حد تک سکیورٹی کا احساس کرتے تھے۔ یاد رہے ملک عبداللہ نے معن الجربا کی پھوپھی زاد بہن سے شادی کر رکھی تھی جبکہ سابق سعودی وزیر داخلہ شہزادہ نایف بن عبدالعزیز نے بھی ان کی خالہ زاد بہن سے شادی کر رکھی تھی۔ لیکن اس رشتہ داری کا فائدہ زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ پایا۔

شروع میں سعودی حکام کی جانب سے معن الجربا کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لہذا ان کی ویب سائٹ "حوار و تجدید" (گفتگو اور تجدد) بند کر کے انہیں حکومتی اخبار "عکاظ" میں فعالیت انجام دینے کی پیشکش کی گئی۔ وہ خود اس بارے میں یوں وضاحت دیتے ہیں:
"مجھے معلوم تھا کہ میری ویب سائٹ بند کر دی جائے گی کیونکہ میں اس میں حکومت کی پالیسیوں اور اہداف کی حمایت نہیں کرتا تھا۔ میں ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اپنے تمام مقالات اور مطالب میں اہل تشیع اور اہلسنت کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو حل کرنے کی ضرورت، مسلمان فرقوں کے پیروکاروں کے درمیان اتحاد کی فضا قائم کرنے کیلئے کوششوں کی ضرورت اور شیعہ سنی اتحاد جیسے موضوعات پر زور دیتا تھا۔ حکومت اسے سرکاری سطح پر اسلامی مزاحمت کی حمایت اور مدد قرار دیتی تھی۔"

سعودی حکومت کی جانب سے معن الجربا کی ویب سائٹ بند کر کے انہیں ایسے نئے کام کی پیشکش کرنا جس میں آزادی اظہار کی کوئی گنجائش نہ تھی درحقیقت انہیں شدید دباو کا شکار کرنے کے مترادف تھا۔ لہذا انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور 2014ء میں کھل کر اسلامی مزاحمتی بلاک اور شام کے صدر بشار اسد کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ البتہ ایک سال پہلے یعنی 2013ء میں شام کا بحران اپنے عروج تک پہنچ چکا تھا اور بین الاقوامی سطح پر اس کی حقیقت کافی حد تک فاش ہو چکی تھی۔ جب امریکہ نے شام پر براہ راست فوجی حملے کی دھمکی دی تو معن الجربا نے اسلامی مزاحمت کی حمایت کیلئے عرب قبیلوں کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اس کام کیلئے خود سعودی عرب کے اندر اور دیگر عرب ممالک جیسے عراق، اردن اور شام میں بڑی تعداد میں مختلف قبیلوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں۔ انہیں اس کام میں کافی کامیابیاں بھی نصیب ہوئیں اور وہ مختلف قبیلوں خاص طور پر اپنے رشتہ دار قبیلے "شمر" کے ساتھ معاہدے کرنے میں کامیاب ہوئے۔

الکرامہ تحریک کے بانی معن الجربا کہتے ہیں کہ وہابیت کبھی بھی اہلسنت کا نمائندہ فرقہ نہیں رہا بلکہ خود اہلسنت کی نظر میں یہ ایک انحرافی فرقہ ہے جس کی بنیاد ابن تیمیہ نے رکھی۔ ابن تیمیہ کے متحجرانہ نظریات کو اس کے زمانے میں موجود تمام مسلمان علماء نے مسترد کر دیا۔ معن الجربا نے بھی وہابی طرز تفکر کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مستبد حکومت کی جانب سے تمام تر سختیوں اور جبری اقدامات کے باوجود عرب دنیا اور عالم اسلام میں سرگرم تمام اسلامی مزاحمتی تنظیموں کی کھل کر حمایت کا اعلان کیا۔ معن الجربا اس بارے میں کہتے ہیں:
"میری نظر میں خطے میں مزاحمتی تحریکوں کی حمایت اقدار اور عقیدے کی بنیاد پر استوار ہے۔ میں اسے اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ دینی فریضہ خداوند متعال کی جانب سے مجھے سونپا گیا ہے۔ حق بات کہنے کا فریضہ، خاص طور پر اس وقت جب میں دیکھ رہا ہوں کہ سب اپنی جان کے خوف سے یا تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یا پھر حکومت کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں حق کا اظہار واجب کفائی سے واجب عینی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔"

ظالمانہ نظام کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم
معن الجربا کہتے ہیں کہ ان کی سیاسی سرگرمیاں اتنی آسان بھی نہیں تھیں بلکہ انہیں بہت سے خطرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب تک سعودی سکیورٹی ادارے انہیں کئی بار جیل میں ڈالنے اور ان کی شہریت ختم کرنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ سال تک ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل رہا ہے۔ لیکن انہوں نے اپنا راستہ جاری رکھا ہے اور اس ظالمان نظام کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں جو اپنے ہی شہریوں سے غلاموں کی طرح پیش آتا ہے۔ الکرامہ تحریک کے بانی سعودی عرب کے تیزی سے بدلتے سیاسی حالات خاص طور پر اس ملک کو درپیش اقتصادی بحران اور سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے وسیع پیمانے پر سیاسی مخالفین کی گرفتاریوں کے پیش نظر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سعودی عرب میں تشکیل پانے والی احتجاجی تحریک روایتی انداز میں نہیں چلائی جائے گی بلکہ اسے جدید انداز میں آگے بڑھایا جائے گا۔

انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا: "ہم احتجاجی مظاہروں، دھرنوں، سڑکیں بند کرنے، ٹائر جلانے وغیرہ جیسے طریقے استعمال نہیں کریں گے لیکن اس کی بجائے ایسے جدید طریقے بروئے کار لائیں گے جن کے ذریعے عوامی ناراضگی اور اعتراض بھی ظاہر کیا جا سکے گا اور حکومت بھی طاقت کے زور پر عوام کو کچلنے سے قاصر رہے گی۔" ان کے بقول روایتی احتجاجی طریقوں جیسے سڑکوں پر احتجاجی ریلیاں نکالنے کی بجائے میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی احتجاجی مہم چلائی جائے گی۔ الکرامہ تحریک نے اپنی تنظیم باقاعدہ طور پر جنیوا میں رجسٹر کرا رکھی ہے۔ معن الجربا کہتے ہیں کہ سعودی حکومت عوامی احتجاج پر پردہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کرے گی لیکن اگر حکومت کے خلاف قبیلوں کی سطح تک احتجاج شروع ہو گیا تو اس کا مقابلہ کرنا سعودی حکومت کے بس میں نہیں ہو گا۔ لہذا ہمارے اہم ترین اہداف میں سے ایک ملک کے سیاسی نظام میں قبیلوں کے کردار کو زندہ کرنا اور اسے موثر بنانا ہے۔

گرفتاری اور سزائے موت، مخالفین سے مقابلے کیلئے بن سلمان کی پالیسی
معن الجربا کہتے ہیں: "سعودی رژیم کی جانب سے عوام کے خلاف شدید دباو اور بے رحم انداز اس بات کا باعث بنا ہے کہ عوام اپنے اعتراضات بیان کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا رخ کریں اور جان بوجھ کر اپنے لیڈران کے نام ظاہر نہ ہونے دیں۔ اس کی ایک واضح مثال حال ہی میں حکومت کی جانب سے پانی، بجلی اور صحت کے اخراجات بڑھانے پر تشکیل پانے والی عوامی احتجاجی تحریک تھی۔ لیکن اس کے باوجود سعودی عوام کو حکومت سے خوف اور وحشت پر قابو پانا ہو گا اور اپنی خاموشی توڑ کر صدائے احتجاج براہ راست طور پر حکومت کے کانوں تک پہنچانی ہو گی چونکہ یہ خوف اور وحشت حکومت کے ہاتھ میں ایک ہتھکنڈے کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کے ذریعے حکام زمینی حقائق پر پردہ ڈال کر اپنی ظالمانہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم پرامن احتجاج کی حدود سے باہر نہیں نکلیں گے۔"

الکرامہ تحریک کے بانی کا کہنا ہے کہ اگر شہزادہ محمد بن سلمان فرمانروائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ملک بھر میں شدید احتجاج اور اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس میں ہر طبقے کے افراد چاہے وہ سیاسی، مذہبی، سماجی یا عوامی حلقوں سے تعلق رکھتے ہوں شریک ہوں گے اور ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ معن الجربا کہتے ہیں کہ اگر محمد بن سلمان نئے بادشاہ بن جاتے ہیں تو خود سعودی سلطنتی خاندان کے اندر سے ان کی شدید مخالفت ابھر کر سامنے آئے گی جس طرح حال ہی میں ریاض میں شاہی محل کے اندر شہزادوں نے احتجاج کیا تھا اور نوبت مسلح جھڑپوں تک جا پہنچی تھی۔ خطے خاص طور پر مشرق وسطی میں سعودی عرب کی مہم جویانہ پالیسیوں کے بارے میں معن الجربا کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں کا نتیجہ خلیج تعاون کونسل کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات اپنے طور پر سہ ملکی اتحاد تشکیل دیں گے۔

معن الجربا کہتے ہیں کہ قطر میں ترکی اور اخوان المسلمین کا اثرورسوخ زیادہ ہے لہذا اس کے سعودی عرب سے اختلافات ہیں اور سعودی عرب کی جانب سے قطر کے خلاف شدید قسم کے اقدامات کے بعد قطر اس سے مزید دور ہو گیا ہے۔ ان کے خیال میں قطر کے بعد کویت اور اس کے بعد عمان سے بھی سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہونے والے ہیں جس کے بعد آخرکار سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان بھی شدید ٹکراو پیدا ہو جائے گا۔ الکرامہ تحریک کے بانی تمام حکومت مخالف گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس وقت سعودی عرب میں کئی قسم کے حکومت مخالف دھڑے موجود ہیں جو الگ الگ اور علیحدہ طور پر سرگرم عمل ہیں۔ معن الجربا کا کہنا ہے کہ اگر یہ گروہ موثر انداز میں اپنا کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں تو انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا پڑا گا اور یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

حکومت مخالف دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا منصوبہ
اس وقت سعودی عرب میں جو چند اہم حکومت مخالف دھڑے موجود ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1)۔ اہلسنت سلفی تحریک، 2)۔ اہلسنت اخوانی تحریک، 3)۔ اہلسنت صوفی تحریک، 4)۔ لبرل تحریک اور 5)۔ شیعہ تحریک۔
یہ منصوبہ ملک کے اندر اور باہر ہر طرز فکر اور نظریئے کی حامل حکومت مخالف تحریک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے پر مشتمل ہے۔ اس پلیٹ فارم میں ہر تحریک اور گروہ اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھے گا۔ اس پلیٹ فارم کا نام "سعودی حکومت مخالف متحدہ محاذ" رکھا گیا ہے اور اس کا بنیادی مقصد ملک کے قومی مفادات کا تحفظ بیان کیا گیا ہے۔ سعودی حکومت مخالف متحدہ محاذ نے اپنی سرگرمیوں کیلئے درج ذیل اصول بیان کئے ہیں:

1)۔ آزادی اظہار،
2)۔ سیاسی پارٹی تشکیل دینے اور سیاسی سرگرمیاں انجام دینے کی آزادی،
3)۔ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کی تشکیل جس کے ذریعے عوامی مینڈیٹ کی حامل جمہوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جا سکے،
4)۔ ملکی وسائل اور قدرتی ذخائر پر نظارت اور بیت المال کی حفاظت،
5)۔ کرپٹ حکومتی عہدیداروں کی گرفتاری اور قانونی کاروائی،
6)۔ عدالت، مساوات، برابری کا قیام اور انسانی عزت کو یقینی بنانا،
7)۔ ملک میں حکمفرما سیاسی نظام کی نوعیت کے تعین کیلئے ریفرنڈم کا انعقاد،
8)۔ تمام سیاسی گروہوں اور تحریکوں کی جانب سے عوامی مطالبات کا احترام کرتے ہوئے انہیں پورا کرنے کیلئے کوششوں کا آغاز۔

یاد رہے سعودی عرب کا شمار ایسے محدود ممالک میں ہوتا ہے جہاں نہ صرف جمہوری اداروں اور سیاسی پارٹیوں کا کوئی وجود نہیں بلکہ پارلیمنٹ، عدلیہ، ملکی آئین اور شہری حقوق جیسے امور بالکل بے معنی ہیں۔ ایسے حالات میں حکومت مخالف تحریکوں کا جنم لینا خاص طور پر ان کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا کچھ حد تک امید کا باعث ہے۔ سعودی عرب کے موجودہ حالات میں ان تحریکوں کو شدید چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ سعودی عرب کی تاریخ میں انتہائی اہم اور تاریخی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس ملک میں عظیم سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 711259
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش