0
Monday 23 Apr 2018 00:02

شام میں مشترکہ عرب فوج تشکیل دینے پر مبنی امریکی منصوبہ

شام میں مشترکہ عرب فوج تشکیل دینے پر مبنی امریکی منصوبہ
تحریر: مصطفٰی اسلامی

حال ہی میں مختلف ذرائع ابلاغ پر ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ شام میں ایک مشترکہ عرب فوج تشکیل دینے کا ارادہ رکھتا ہے جس کا مقصد خطے خاص طور پر شام کی سکیورٹی کی حفاظت کرنا ہو گی۔ اگرچہ یہ امر سابق صدر براک اوباما کی حکومت اور کمپ ڈیوڈ مذاکرات میں بھی زیر بحث آ چکا ہے لیکن اس وقت امریکہ کی جانب سے اس موضوع کو اٹھائے جانے سے مستقبل میں عرب حکومتوں خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر سے متعلق امریکی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکی حکام خطے میں اپنی فوجی موجودگی کے اخراجات عرب حکمرانوں سے حاصل کرنا چاہتے لہذا مستقبل میں انہیں ماہرین، ٹیکنالوجی اور ٹریننگ مہیا کرنے کے ذریعے آمدن وصول کریں گے۔ اسی طرح امریکی خارجہ پالیسی شمالی کوریا پر مرکوز ہوتی جا رہی ہے اور مغربی ایشیا سے فاصلہ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اب عرب فورسز اور عرب اتحاد پر زیادہ توجہ دینے لگا ہے۔

براک اوباما کی جانب سے کمپ ڈیوڈ کے ذریعے عرب نیٹو تشکیل دینے کی کوشش
مغربی طاقتوں اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کے بعد عرب ممالک پریشان اور سرگردان امریکہ کے پاس پہنچے تاکہ اپنی سکیورٹی سے متعلق امریکہ کے ارادوں سے واقف ہو سکیں۔ اس وقت عرب حکمران انتہائی شدت سے اس وہم کا شکار تھے کہ ایران خطے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ براک اوباما نے بھی کمپ ڈیوڈ میں ایک اجلاس منعقد کیا تاکہ عرب حکمرانوں کو یہ اطمینان دے سکے کہ انہیں ایران سے مقابلے میں اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا اور امریکہ ان کے ساتھ ہے۔ کمپ ڈیوڈ اجلاس امریکی صدر کی دعوت پر منعقد ہوا جس میں خلیج تعاون کونسل کے رکن چھ عرب ممالک کے اعلی سطحی حکام نے شرکت کی۔ ان ممالک میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل تھے۔ یہ اجلاس عرب ممالک اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں اہم موڑ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ بعض عرب حکمرانوں نے خطے خاص طور پر ایران سے متعلق امریکی پالیسیوں کے خلاف اعتراض کے طور پر اس اجلاس میں شرکت نہ کی۔ ان میں سے اہم ترین شخصیت سعودی عرب کے فرمانروا تھے۔

کمپ ڈیوڈ اجلاس کا ایک انتہائی اہم پہلو عرب ممالک کی جانب سے امریکہ سے "سکیورٹی کی بھیک" مانگنا تھی۔ اس زمانے میں عبدالعزیز حمد العویشق نے اس اجلاس کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا: "خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی سکیورٹی امریکی مفادات کیلئے انتہائی اہم ہے۔ امریکہ اب حتی اس بات پر تیار ہو چکا ہے کہ جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے عرب ممالک سے اپنے تعلقات کو اسٹریٹجک تعلقات کی سطح تک ترقی دے دے۔" امریکی صدر براک اوباما نے بھی کمپ ڈیوڈ میں عرب حکمرانوں سے اپنے مشترکہ اجلاس کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا: "امریکہ ہر قسم کی بیرونی جارحیت کی صورت میں اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہو گا۔" بیرونی حملے سے براک اوباما کی مراد وہ اوہام تھے جنکے تحت عرب حکمران خود کو ایران کی جانب سے فوجی حملے کے خطرے سے روبرو محسوس کرتے تھے۔

اپنے اندرونی اور بیرونی سیاسی مسائل کی روشنی میں امریکی پالیسی ساز اداروں نے عرب حکمرانوں کو اپنی سکیورٹی کا اختیار خود انہیں ہی دینے کا فیصلہ کر لیا اور حتی اس سے بھی بڑھ کر انہیں آپس میں مل کر فوجی اتحاد بنانے کی بھی اجازت دے دی گئی۔ کمپ ڈیوڈ اجلاس کے اہم ترین نتائج میں سے ایک وہ معاہدہ تھا جو امریکہ اور عرب ممالک میں انجام پایا اور اس کی رو سے ایران کے خلاف وسیع عرب اتحاد تشکیل پایا۔ براک اوباما نے اپنی ایک تقریر میں واضح طور پر کہا کہ عرب ممالک اپنی سکیورٹی کی ذمہ داری خود سنبھالیں۔ یمن کے خلاف جنگ جو سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کے تحت شروع کی گئی درحقیقت امریکہ کی جانب سے عرب حکمرانوں کو دیئے گئے اختیارات کا ہی ایک نمونہ ہے۔ یہ اختیارات خطے کی سطح پر اتحاد بنانے پر مشتمل ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور اندرونی معاملات پر توجہ
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد عرب اتحاد سے متعلق امریکی پالیسی کو مزید فروغ ملا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی زیادہ تر توجہ اندرونی مسائل پر مرکوز کر دی اور بین الاقوامی نقطہ نظر میں واضح تبدیلی ایجاد کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سطح پر امریکی سرگرمیوں کو صرف افغانستان میں چند ہوائی حملوں اور شام میں محدود میزائل حملوں تک محدود کر دیا۔ انہوں نے انہیں محدود اقدامات کے بدلے عرب حکمرانوں کو لوٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی طویل المیعاد پالیسی مغربی ایشیائی خطے پر مرکوز نہیں۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیرون ملک دوروں کا آغاز سعودی عرب کے دورے سے کیا جو درحقیقت اسی عرب نیٹو فورس یا عرب اتحاد کی حمایت پر مبنی امریکی پالیسی کا تسلسل تھا۔

اس نیٹو عرب فورس کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ اس وقت قطر ہے۔ قطر اور سعودی عرب میں اختلافات جنم لینے اور بعد میں قطر کے خلاف عرب ممالک کی پابندیوں کے نتیجے میں قطر اور سعودی عرب و دیگر عرب ممالک جیسے متحدہ عرب امارات میں دوریاں بڑھتی گئیں اور عرب نیٹو فورس کی تشکیل پر مبنی نظریہ ماند پڑتا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب دورے اور محمد بن سلمان کو ولیعہد بنائے جانے کے بعد قطر پر ایران سے تعلقات ختم کرنے کیلئے دباو بڑھا دیا گیا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک نے قطر کے خلاف شدید اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا اور اسے اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات ختم کر دینے پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی۔ قطر نے بھی سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اور اپنی خودمختاری پر ڈٹ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران کے خلاف وسیع تر عرب اتحاد کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

ٹرمپ کی جانب سے خطے سے انخلاء کی وجوہات
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خطے سے امریکی انخلاء کا عندیہ دیئے جانے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ امریکہ نے مشرقی ایشیا خاص طور پر چین کو کنٹرول کرنے کیلئے اپنی خارجہ پالیسی شمالی کوریا پر مرکوز کر رکھی ہے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ خطے میں اپنے اخراجات کم از کم حد تک لانا چاہتا ہے۔ حال ہی میں امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ "وائٹ ہاوس میں قومی سلامتی کے مشیر نے مصر کی انٹیلی جنس ایجنسی موقت کے سربراہ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور ان سے مشترکہ عرب فورس کی تشکیل کیلئے مدد مانگی۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے بھی شام کے شمالی حصوں کی تعمیر نو کیلئے اربوں ڈالر کی مدد کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ شام میں مشترکہ عرب فورس بھیجے جانے کا خواہاں ہے۔"

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ عرب ممالک سے پیسہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن امریکی سرپرستی میں مشترکہ عرب فورس کی تشکیل میں بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل لکھتا ہے کہ شام بھیجے جانے کی غرض سے تشکیل پانے والی اس مشترکہ عرب فورس کا بنیادی مقصد داعش اور ایران کی حمایت یافتہ فورسز کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ امریکی حکام کی جانب سے مشترکہ عرب فورس تشکیل دینے کے نظریئے پر عمل پیرا ہونے کی ایک وجہ شام کے تمام حکومت مخالف گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مشترکہ فورس میں عرب اور لوکل کرد فورسز بھی شامل ہوں گی تاکہ یہ اطمینان حاصل کیا جا سکے کہ داعش دوبارہ واپس نہیں لوٹے گی اور داعش کے خالی کردہ علاقوں سے ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کا بھی خاتمہ کر دیا جائے گا۔

یوں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ ایک طرف شام سے توجہ ہٹا کر پوری توجہ شمالی کوریا پر مرکوز کرنا چاہتا ہے لیکن دوسری طرف بلیک واٹر جیسی پرائیویٹ کمپنیوں کے فوجی مشیروں کی موجودگی کے بہانے عرب ممالک سے بھاری اخراجات بھی وصول کرنے کا خواہاں ہے۔ حال ہی میں بلیک واٹر کے سربراہ نے زور دیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فیصلے کا انتظار کر رہا ہے تاکہ یہ طے کر سکے کہ مشترکہ عرب فورس کی تشکیل کی صورت میں ان کی کیسے مدد کی جا سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 719833
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش