0
Sunday 13 May 2018 17:23

انسانیت کیلئے مضر جسد اسلامی کا سرطانی غدود

انسانیت کیلئے مضر جسد اسلامی کا سرطانی غدود
تحریر: سید اسد عباس

مشرق وسطیٰ میں موجود بدامنی، خلفشار، جنگ اور فساد کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں اس کے پیچھے ایک ہی قوت کا مفاد نظر آئے گا۔ عالمی سطح پر دنیا کی طاقتور ریاستوں کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کا گہرا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ اسی قوت کے تحفظ اور فائدہ کے لئے یہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انسانیت دشمن اکائی اور اس کے حواری نہیں چاہتے کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی ایسا گروہ، فرد یا تنظیم طاقت پکڑے، جو آگے چل کر صہیونی ریاست کے لئے خطرہ بن جائے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور سفارتی مسائل کو دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس تناظر میں دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ ایک دہائی یا دو دہائیوں کا قصہ نہیں ہے بلکہ اس معمے کو تقریباً سو برس ہونے کو ہیں۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ، عرب اسرائیل جنگیں، عرب اسرائیل معاہدے، عرب حکمرانوں کا قتل، عرب ممالک میں آمروں کی حکومتیں، ان ممالک کے عوام کے اقتصادی، معاشی مسائل، ان کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں، عرب ممالک میں آنے والے انقلابات، عرب و عجم کا اتحاد، امت مسلمہ کا مشترکہ موقف، ایک اسلامی طاقت کی راہ میں حائل عناصر، مقاومت کی تحریکوں کے خلاف پابندیاں، مقاومتی بلاک کے خلاف علاقائی اور بین الاقوامی اقدامات سب کا تانا بانا ایک ہی سرطان سے جڑا ہوا ہے۔

ایران کے روحانی پیشوا اور عظیم و بابصیرت مسلم قائد امام خمینی نے نہایت سوچ سمجھ کر اسرائیل کو امت کے جسد میں سرطان کا نام دیا تھا۔ اسی غدہ سرطانی کے سدباب کے لئے انہوں نے یوم القدس کے نام سے ایک دن بھی مختص کیا، تاکہ نسلوں پر محیط یہ جنگ فراموشی کا شکار نہ ہو جائے۔ انہوں نے دیکھا تھا کہ عرب ممالک میں ایک نسل گزرنے کے بعد حالات یکسر بدل گئے اور اسرائیل کے وجود کو نہ ماننے والوں نے ایک ایک کرکے اس کے وجود کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے ساتھ اقتصادی و سفارتی تعلقات بھی استوار کئے۔ امام خمینی کی دور بین نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ غدہ سرطانی کے ساتھ ہونے والے معاہدے جسد امت مسلم کو پارہ پارہ کر دیں گے۔ آج کا اتحاد کل کی غلامی پر منتج ہوگا، لہذا انہوں نے ضروری سمجھا کہ ایک ایسا انٹی وائرس سسٹم امت کے جسد میں تشکیل دیا جائے، جو اس سرطان کے وائرس کی شناخت بھی رکھتا ہو اور اس کے اقدامات کو روک بھی سکے۔ امام خمینی نے نہ صرف یوم القدس کا اعلان کیا بلکہ جسد اسلامی میں موجود اس وائرس کی چالوں کی شناخت اور اس کے سدباب کے لئے عملی اقدامات بھی کئے۔

میری نظر میں یہ سرطان نہ فقط جسد امت مسلمہ کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ اس کا وجود پوری انسانیت کے لئے بھی مضر ہے۔ امریکہ، یورپ پہلے ہی اس سرطان کے زیر اثر ہیں۔ ان ممالک کی پالیسیوں بالخصوص خارجہ پالیسی کو بھلا کون آزادانہ کہہ سکتا ہے۔ امریکہ کی پوری تاریخ میں کوئی روز ایسا نہیں گزرا، جب اس کے صدور نے آزادانہ طور پر اسرائیل کے حوالے سے سوچا ہو۔ ہولوکاسٹ پر سوچنا، بات کرنا، اس پر تنقید یا تحقیق قابل تعزیر جرم ہے۔ کئی افراد اپنی جرات تحقیق کے سبب لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ معاشی، اقتصادی اور سفارتی لحاظ سے بھی دنیا کی عظیم طاقتیں مجبور و لاچار ہیں۔ کوئی ایسا شخص امریکہ یا یورپ میں اعلٰی عہدوں تک نہیں پہنچ سکتا، جو اسرائیل کے وجود کا منکر ہو یا کم از کم اسے قابل اہمیت نہ سمجھتا ہو۔ اسی صہیونی سرطان کے سبب دنیا کے یہ عظیم ممالک اور قومیں اپنی آزادی، خود مختاری، اقتدار اعلٰی، خارجہ پالیسی کو اپنے ہاتھوں سے دے چکے ہیں۔

امریکی تاریخ میں صدر اوباما وہ واحد شخص ہیں، جنھوں نے اسرائیل کی بعض باتوں کو نہ مانا، جن میں سے ایران کے ساتھ نیوکلیائی معاہدہ ایک ہے۔ اسرائیل کبھی نہیں چاہتا تھا کہ امریکہ ایران کے ساتھ کوئی معاہدہ کرے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت کے دوسرے ہی برس میں اس عالمی معاہدے سے امریکہ کے انخلاء کا اعلان کرکے اپنی غلامانہ ذہنیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ امریکہ کو بھلا ایران سے کیا تکلیف ہوسکتی ہے۔ ایران کی القدس فورس، ایران کا میزائل سسٹم، ایران کے مختلف ادارے، ایران سے جڑی ہوئی تنظیمیں، سب امریکہ کو کس لئے کھٹکتے ہیں۔؟ ایران، عراق، حزب اللہ، شام، انصار اللہ، اخوان، حماس، اسلامی تحریک نائجیریا یا کوئی اور چونکہ امام خمینی کے تشکیل کردہ اینٹی وائرس سسٹم کا شعوری حصہ ہیں، لہذا یہ اس سرطان اور اس کے عالمی محافظوں کے لئے بھی ایک خطرہ ہیں۔ امریکہ اور یورپ کو ان ممالک نیز گروہوں سے براہ راست کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہاں یہ اس سرطان کے لئے خطرناک ہیں۔ ان کے اقدامات، ان کی سوچ، نظریہ سب سرطان کے خاتمے کا سبب بن سکتے ہیں۔

یہاں ایک اور نکتہ قابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ عرب ممالک کے عوام یا دنیا کے دیگر مسلمانوں کو یہ کہہ کر تو اس اینٹی وائرس سسٹم کے خلاف نہیں کیا جاسکتا کہ یہ لوگ جسد امت میں موجود سرطان کے دشمن ہیں۔ اس کے لئے اینٹی وائرس کی کوئی ایسی خامی چاہیے، جو اسے مسلمانوں کی نظر میں مورد طعن و تشنیع بنا دے۔ اسے دشمن سازی کا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ یعنی دشمن تشکیل دینا۔ آپ کی لاعلمی، معلومات کی کمی یا فہم کی کمزوری سے استفادہ کرتے ہوئے کسی فائدہ مند یا بے ضرور چیز کو آپ کی نظروں میں نقصان دہ یا ضرر رساں بنا دیا جائے۔ ادویات اور علاج کے بارے میں یہ رویہ عام ہے، آپریشن نہ کرانا، نہیں بچے گا۔ مر تو مریض نے بیماری سے ویسے ہی جانا ہے، تاہم اسے آپریشن اور دوا سے یوں ڈرایا جاتا ہے کہ وہ اس کے قریب بھی نہیں جاتا۔ امت مسلمہ کے ساتھ بھی کچھ اس اینٹی وائرس کے حوالے سے کچھ اسی طرح کا رویہ رکھا گیا ہے۔ ایران، عراق، شام، حزب اللہ، اسلامی تحریک نائجیریا اور انصار اللہ کی خامی ان کو شیعہ مسلک کا پیروکار ہونا ہے، پس عربوں اور مسلمانوں کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ مقاومت کا یہ بلاک تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ تم پر تسلط چاہتا ہے۔ بعض عرب حکومتوں اور سادہ لوح مسلمانوں کو جتھوں کی صورت میں اس بلاک کے مدمقابل لا کھڑا کیا گیا ہے۔ اسی سے ان کا فوجی سامان کا کاروبار بھی چمک رہا ہے۔ عربوں کی دولت کو لوٹنے کا بہانہ بھی میسر ہے اور ساتھ کے ساتھ اینٹی وائرس سسٹم کو اندرونی خلفشار میں مبتلا کرکے غدہ سرطانی کی حفاظت بھی ہو رہی ہے۔

اخوان، حماس اور دوسری مقاومتی تنظیمیں جن کے لئے مسلک کا حربہ کارگر نہیں ہے، انکو دہشت گرد قرار دے کر ان کی پیش رفت کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین کی منتخب حکومت کا خاتمہ اور اس کے قائدین و کارکنان کی گرفتاریاں نیز سزائیں اسی منصوبے کا حصہ ہیں۔ بہرحال ایک بات تو یقینی ہے کہ امام خمینی کا تشکیل کردہ اینٹی وائرس سسٹم یا کوئی اور اگر اس غدہ سرطانی کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو دنیا سکھ کا سانس لے گی۔ امریکہ، یورپ، مشرق وسطیٰ، عالم اسلام میں سے بے چینی کا خاتمہ ہوگا۔ مسائل یقیناً ہوں گے، تاہم یہ مسائل کسی سرطان کے پیدا کردہ نہیں بلکہ فطری ہوں گے، جن کو حل کرنا نسبتا آسان ہوگا۔ یہ امر بہت امید افزاء ہے کہ اینٹی وائرس سسٹم کی جنگ اب غدہ سرطانی کے مرکز کی سرحدوں تک پہنچ چکی ہے۔ جسد اسلامی کی حفاظت کا وہ نظام جسے پچاس سے ستر کی دہائی کے دوران میں غدہ سرطانی کی جانب سے شکست دے کر مفلوج کر دیا گیا تھا، آج ایک مرتبہ پھر پوری قوت، طاقت اور ایمانی جذبے کے ساتھ میدان عمل میں موجود ہے۔ غدہ سرطانی کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ یہ اینٹی وائرس سسٹم پچاس اور ستر کی دہائی کے اینٹی وائرس سسٹم کی مانند نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 724434
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش