0
Wednesday 30 May 2018 06:12

القدس کی آزادی۔۔۔ گھروں کو واپسی کی تحریک

القدس کی آزادی۔۔۔ گھروں کو واپسی کی تحریک
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ارض ِمقدس فلسطین جسے انبیاء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے، ایک بار پھر تحرک، بیداری، حمیت، غیرت، ایثار، قربانی، جہاد، دعوت، اتحاد، وحدت، اخوت اور مزاحمت کی عملی تصویر بنی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب سے امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے متنازعہ اور غیر انسانی و غیر آئینی فیصلہ کہ یروشلم اسرائیل کا دارالخلافہ ہے، امریکی سفارت خانہ یروشلم شفٹ کرنے کی بات کی، فلسطین بالخصوص غزہ می ایک نئی لہر نئے انتفادہ کو دیکھا جا رہا ہے۔ اس تحریک کو اسرائیلی سرحدوں پہ بے خوف و خطر فلسطینی نوجوانوں کی یلغار کی صورت میں ہم دیکھ رہے ہیں، ایک طرف تو ٹرمپ نے دارالخلافہ تبدیل کرنے کا اعلان کیا، دوسری طرف مظلوم و ستم رسیدہ فلسطینی نوجوانوں، یہاں کی مائوں بہنوں نے اپنے وطن کی طرف واپسی مہم شروع کر دی ہے۔ جو بھی احتجاج ہوتا شدید احتجاج ہوتا اور اس میں بیسیوں لوگ شہید ہوتے ہیں، سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اس وقت تک زخمی ہیں۔ اپنے آبائی وطن، اپنی سرزمین، اپنے گھروں اپنی جائیدادوں کی طرف واپسی مظلوم فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے، جسے حاصل کئے بنا انہیں کبھی چین نہیں آئے گا۔

مگر آل سعود اور اس کے گماشتوں کو یہ بات گوارا نہیں، انہیں اسرائیل سے پیار ہوچکا ہے، یہ امریکہ و اسرائیل کی محبت مین خدا کے قہر کو بھول چکے ہیں اور امت مسلمہ کی مدد کی بجائے اسے مختلف بہانوں سے کوستے ہیں۔ فلسطین کی بیداری و تحریک اور جدوجہد کے بارے ان کا خیال ہے کہ اسے چونکہ ایران کی مدد حاصل ہے، لہذا یہ ایران کی عربوں پر حکمرانی اور تسلط کی سازش ہے اور فلسطینیوں کی اس مزاحمانہ تحریک پر سخت و سست ردعمل سعودی عرب کی طرف سے مسلسل سامنے آتا رہا ہے اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی اور کھلے عام کام کرنے بارے بہت سے حقائق سامنے آچکے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ کو سعودی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دینا اور اسرائیل کیلئے براہ راست فلائٹس کا آغاز اسی تعلقات کا نمونہ ہے، یہ تعلقات دراصل بہت پرانے ہیں، مگر انہیں پوشیدہ رکھا گیا، مگر جب نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے غیر ملکی دورہ کیلئے سعودی عرب کو منتخب کیا تو بہت سے معاہدے سامنے آئے اور اس دورے میں تحائف کی شکل میں جو کچھ امریکی صدر اور ان کی فیملی کو دیا گیا، وہ ایک ریکارڈ ہے ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے سفارت خانہ شفٹ کرنے کی جو تاریخ معین کی ہوئی تھی، وہ 15 مئی تھی، اسی دن فلسطینی ہمیشہ سے یوم نکبہ مناتے ہیں، یوم نکبہ یعنی اپنے گھر وطن کی طرف واپسی ہے۔ پوری دنیا میں اس حوالے سے مظاہرے کئے جاتے ہیں، مگر اس برس اس کی اہمیت بہت زیادہ رہی، چونکہ ایک طرف تو فلسطینی اپنی تحریک چلا رہے ہیں، دوسری طرف امریکہ کے صدر کے اعلان کے مطابق امریکی سفارت خانہ یروشلم شفٹ کیا گیا۔ فلسطین کے مظلومین گذشتہ سات دہائیوں سے عالمی ضمیر فروشوں اور صیہونی ایجنٹوں کے ہاتھوں گھروں سے بے دخل کئے جا رہے ہیں۔ خصوصی طور پہ بے غیرت عرب بادشاہوں کی ہوس اقتدار اور امریکی و اسرائیلی غلامی کے باعث ان کا خون بہایا جا رہا ہے، انہیں بنیادی ترین انسانی و بین الاقوامی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، ان ستر برسوں میں یہاں کا ہر گھر بلکہ ہر فرد متاثر ہوا ہے۔ اس کے باوجود یہاں پر بیداری ہے،ت حرک ہے، میدان میں آمادگی ہے، قربانی کا جذبہ ہے، ایثار گری کی ان مٹ مثالیں ہیں، شوق شہادت ہے، جبرو تشدد، قید و بند کی صعوبتیں ان کے اندر سے ان کا جذبہ آزادی نہیں چھین سکیں اور وہ پتھروں، غلیلوں سے دنیا کی جدید ترین فورسز کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکہ کے فیصلے کے خلاف پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کر دیا گیا تھا، یہ پہلا موقعہ نہیں تھا کہ امریکہ نے اسرائیل نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرارداد کو ویٹو کیا، اس سے پہلے جتنی بھی قراردادیں اسرائیل کی جارحیت، مظالم اور سفاکیت کے خلاف پیش کی گئیں، انہیں ویٹو ہی کیا گیا۔ اسرائیل کو اسی واسطے امریکہ کی ناجائز اولاد سے تشبیہ دی گئی اور اسے اس خنجر سے تشبیہ دی گئی، جس کا پشتہ امریکہ کے ہاتھوں میں ہے اور وہ اسے مسلمانوں کے قلب میں پیوستہ کر رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ القدس شریف اور اس کے باسیوں کے جسم پر آنے والے ہر زخم کا ذمہ دار امریکہ ہی ہے اور اس سے اس کا حساب لیا جائے گا۔ امام راحل خمینی بت شکن کی رہبری میں آنے والے اسلامی انقلاب کی شعاعوں اور کرنوں کو گذشتہ انتالیس برس سے روکنے کا مکروہ کھیل اسی لئے کھیلا جا رہا ہے کہ اس بت شکن کے فرزند القدس شریف کو اسرائیل کے ناپاک پنجوں سے آزادی نہ دلوا سکیں، مگر انہیں بھول ہے کہ وہ ایسا کرسکیں گے اور کامیاب ہو پائیں گے۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ ہم القدس شریف کو آزاد کروانے ضرور آئیں گے، القدس ہمارا ہے اور ہم ہی اس کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کو نچھاور کرکے آزاد کروائیں گے۔

پاکستان میں بھی پہلی بار امریکہ کے سامنے کسی حد تک ملی غیرت کا مظاہرہ سامنے آیا ہے، ورنہ ہمارے حکمران بھی امریکی دم چھلا ہی بنے نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران امریکی ایجنٹ نہیں ہوتے، اب یہ ان کے ایجنٹ بدوئوں کے ایجنٹ بنتے ہیں، امریکہ انہیں انہی کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے۔ ہماری افواج کے سابق چیف خریدے جاتے ہیں، انہیں مختلف انداز سے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی ہمارے ایک پاپولر جرنیل کے سپرد کی گئی، مگر یہ اتحاد اپنی افادیت کھو بیٹھا کہ اسے یمن میں مظلوموں کی بستیاں اجاڑنے کا اختیار دیا گیا۔ فلسطین کے مظلوم و ستم رسیدہ آئے روز شہادتوں کی داستانیں رقم کرنے والوں کی داد رسی کیلئے کوئی قدم اٹھانے کی اجازت نہیں، یہ تو لب کشائی بھی نہیں کرسکتے، پھر ایسے اتحاد کی سربراہی ذاتی منفعت کے ماسوا کچھ نہیں۔ پاکستان میں امریکی سفارت کاروں کی نقل حمل کو محدود اور قانون کے دائرہ میں لانا ایک مثبت پیش رفت ہے، جسے کسی بھی طور متاثر نہیں ہونے دینا چاہیئے۔ حکومت تبدیل ہونے جا رہی ہے، اگر نگران سیٹ اپ نے ایسا کیا تو قوم اس کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ امریکی سفارت کار دراصل سفارت کار کم اور جاسوس و دہشت گرد زیادہ ہوتے ہیں، یہ کئی ایک واقعات میں ثابت ہوچکا ہے۔ انہیں لگام دینا بے حد ضروری تھا، گذشتہ ادوار میں جس طرح انہیں آزادیاں فراہم کی گئیں، اس کی مثال نہیں ملتی۔

پاکستان واحد مسلم ملک ہے، جس کے سبز پاسپورٹ پہ لکھا ہے کہ اس کو رکھنے والا اسرائیل کا سفر کرنے کی اجازت نہیں رکھتا، چند دن قبل افواج پاکستان کی طرف سے ایک بیان بھی جاری ہوا کہ اسرائیل نے کوئی حماقت کی تو اسے چند گھنٹوں میں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا، یہ بات اسرائیل اور اس کے محافظ و سرپرست امریکہ کو بھی بہت برا لگی ہے، مگر ہمارے لئے یہ بہت ہی حوصلہ افزا ہے کہ ایران پہلے ہی اسرائیل کو تباہ کرنے کیلئے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر رہا ہے، اس نے اپنے فوجیوں کا بدلہ لینے کیلئے اس کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں، اسرائیل میں لوگ ایران کی دھمکیوں کے باعث تہہ خانوں میں سونے پر مجبور ہیں، یہی خوف اور ڈر ہی ان کیلئے موت کا پیغام ہے، اگر جنگ ہوگئی تو ان کی عوام کا کیا حال ہوگا، جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اہل فلسطین، فلسطین کی کربلائی مائیں اپنے بچوں کو شہادت کیلئے تیار کرتی ہیں اور اپنے حق کی آواز کو دنیا تک پہنچانے کیلئے قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں ان کربلائی جذبوں سے سرشار مائوں پہ، جو گذشتہ ستر برس سے مسلسل اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اس مقدس سرزمین کی آزادی کیلئے میدان میں بھیج رہی ہیں، ان کی لہو رنگ لاشیں وصول کر رہی ہیں، اپنی عزتوں کو پائمال ہونے سے بچانے کیلئے اپنے فرزندوں کی تربیت کربلائی مائوں کی طرح کرتی ہیں۔

اپنی آبائی زمینوں کو غاصبوں سے واپس لینے کیلئے گولیوں اور ٹینکوں سے ٹکرا جاتی ہیں۔ سلام ہے ان بہنوں پر جو نہتی ہو کر بندوق برداروں کے سامنے اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ میدان عمل میں اتری دکھائی دیتی ہیں۔ قسم بخدا یہ بہنیں ہمیں ان نام نہاد خلیفوں، شاہوں، امت کے ٹھیکیدار مذہبی جغادریوں اور بے غیرت نام نہاد خادم الحرمین اور عیاش و فحاش حکمرانوں سے زیادہ عزیز ہیں، جن کا کردار اور عمل ان مظالم پر مظلومین کے بجائے غاصبوں اور ظالمین کا دفاع کرنا ہے، ان کی زبانیں گنگ ہیں ہوس اقتدار میں جکڑے یہ بدبخت عرب شاہ ستر سال سے اپنے ہی بھائی بندوں اور قوم کے لوگوں سے غداری کر رہے ہیں اور انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے، جیسے جنگل میں بھیڑیئے کے سامنے کسی کمزور جانور کو چھوڑا جاتا ہے، مگر یہ یاد رہے کہ وطن کی طرف واپسی کی تحریک اب رکنے والی نہیں، اب اسرائیل کے خاتمہ تک یہ تحریک یونہی رواں دواں رہیگی، ہم اس دن کو قریب دیکھ رہے ہیں، جب فلسطین کی مقدس سرزمین اسرائیل کے ناپاک پنجوں سے آزاد ہوگی، شہداء کی قربانیاں رنگ لائیں گی، اجڑا ہوا فلسطین ایک بار پھر آباد ہوگا اور انبیاء کی یہ سرزمین امت مسلمہ کے تمام ممالک کے مسلمانوں کیلئے زیارت گاہ بنے گا، اہل فلسطین کے ساتھ مل کر بیت المقدس میں نماز شکرانہ ادا کی جائے گی۔۔۔۔!
خبر کا کوڈ : 728295
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش