0
Wednesday 15 Aug 2018 17:53

جشن آزادی کی خوشگوار خبریں

جشن آزادی  کی خوشگوار خبریں
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

یہ 2014ء کی بات ہے کہ اگست کا مہینہ تھا،  میں وطن واپسی کے لیے  مشہد ائر پورٹ پر موجود تھا ،جہاز موسمی خرابی کی وجہ سے تاخیر کا شکار تھا۔ وقت گزارنے کے لیے  وہاں موجود مسافروں سے گپ شب کرنے لگا۔ میرے ساتھ ایک ہزارہ  قبیلے سے تعلق رکھنے والے تاجر موجود تھے، جو فیملی کے ساتھ مشہد آئے تھے، اب واپس پاکستان آ رہے تھے۔ اس وقت کوئٹہ کے حالات بہت خراب تھے اور آئے دن لوگ شہید ہو رہے تھے۔ میں نے ان سے اظہار ہمدردی کیا کہ بطور پاکستانی ہمیں اس بات پر شرمندگی ہے کہ چھوٹے سے علاقے میں موجود ایک چھوٹی سے کمیونٹی کو صرف مذہب کی بنیاد پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ وہ ہزارہ تاجر بتانے لگا کہ اس مرتبہ چودہ اگست وطن سے دور آیا، یہاں نہ پاکستانی اخبار ہیں اور نہ ہی چینلز دیکھ سکا، میری بیوی نے سبز اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے، جب میں نے کافی دیر تک کچھ نہیں کہا تو اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے آج کونسا دن ہے؟ میں نے ذہن پر زور دیا اور کہا ہاں آج تو چودہ اگست ہے۔ اس پر میری بیوی نے کہا جشن آزادی مبارک ہو۔ سچ پوچھیں تو میں آج بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں، تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ دشمن نے جس قوم کے بچوں، بزرگوں، خواتین کو اجتماعی طور پر قتل کیا، وہ اس قتل عام میں دیار غیر میں بیٹھ کر  بھی  وطن سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ ہمارے لیے جشن آزادی منانا بہت آسان ہے، مگر جب قبیلے کے ہر گھر سے دو جنازے نکل چکے ہوں تو جشن آزادی مبارک کہنا بڑے دل گردے کا کام ہوتا ہے۔ یہ وطن سے محبت چیز ہی ایسی ہے، جو انسان کی روح میں داخل ہوتی ہے، جیسے انسان کے جسم سے روح چلی جائے تو انسان مردہ ہو جاتا ہے، اسی طرح  وطن کی محبت روح سے نکل جائے تو روح بے کار ہو جاتی ہے۔

سیدا لانبیاءؑ خاتم المرسلین حضرت محمدﷺ پر جب کفارِ مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے، تو آقائے نامدار نے کفار و مشرکین کی امانتیں امیر المومنین حضرت علیؑ کے سپرد کیں اور انہیں اپنے بستر پر سلا کر مکہ سے نکل پڑے۔ تاریخ نے لکھا  کہ نبی مکرمﷺ جب وادی مکہ سے نکل رہے تھے تو  بار بار مڑ کر وادی مکہ کو دیکھتےتھے۔ سیرت نگاروں کے مطابق صبر و حوصلے کا کوہِ گراں نبی مکرمﷺ کی ذات گرامی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آنسو کیوں جاری نہ ہوتے؟ وہ سرزمین جس پر خانہ خدا ہے، جس جگہ آپ  کے جد حضرت  اسماعیلؑ اور حضرت ابراہیمؑ کی یادگاریں ہیں، جہاں آپ کے دادا حضرت عبدالمطلبؑ نے زندگی گزاری، جہاں آپؐ نے اپنے چچا حضرت ابوطالبؑ کی سرپرستی اپنا بچپن اور جوانی گزاری اور جہاں خود حجاج کی خدمت کیا کرتے تھے، وہ اب چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ اسی لیے تو  سیرت نگاروں نے لکھا آپؐ وادی مکہ سے نکلتے ہوئے یہ فرما رہے تھے کہ اے مکہ زمین پر موجود تمام وادیوں میں تو مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے، مگر کیا کروں تیرے بیٹے مجھے تجھ میں رہنے نہیں دیتے۔ وطن سے یہ محبت اور پیار ہر مسلمان کو بطور سنت سرکارِ مدینہ سے ملا ہے۔

مشہد کا ذکر چلا تو مشہد سے جشن آزادی کی خبروں نے دل باغ باغ کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے حکم سے پاکستان کا جشن آزادی انتہائی اہتمام سے منایا جا رہا ہے۔ مشہد کی میٹرو ٹرین، سپر سٹورز اور تمام بڑے چوراہوں پر ہر تین منٹ بعد قائداعظم اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی تصاویر ظاہر ہوتی ہیں اور جشن آزادی کی مبارکباد کا پیغام لکھا ہوتا ہے۔ ابھی ایک خبر دیکھی کہ تہران کی میٹرو ٹرین میں بھی بڑے پیمانے پر یہ پیغامات دکھائے جا رہے ہیں۔ پاکستانی پرچم کو عزت ملتی دیکھ کر انسان کا خون دگنا ہو جاتا ہے۔ ایران پاکستان دوستی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے، ہر مشکل موقع پر ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ ایران پاکستان بارڈر ابھی بھی پرامن بارڈروں  میں شمار کیا جاتا ہے۔ میں پاکستان کرونیکل یا پرانے ڈان کی کاپی دیکھ رہا تھا، اس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ قائداعظم کے طیارے نے دلی سے کراچی کے لیے اڑان بھری اور حالات کی وجہ سے یہ فلائیٹ خفیہ رکھی گئی تھی، مگر  اس خفیہ فلائیٹ کے وقت بھی دلی ائرپورٹ پر جو لوگ قائد اعظم کو رخصت کرنے کے لیے تشریف لائے، ان میں سے ایک ایران کے دلی میں موجود ہائی کمشنر تھے، جنہوں نے نیک خواہشات کے ساتھ قائد کو دلی سے رخصت کیا تھا۔ ایران کی موجودہ قیادت ہر موقع پر پاکستان کی حمایت میں کھڑی ہوئی ہے۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف رہبر معظم سید علی خامنہ ای براہ راست کئی بار بیانات جاری کر چکے ہیں، جس میں قابض افواج کی مذمت اور کشمیروں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی گئی ہے۔

پوری قوم پورے شوق و ذوق سے جشن آزادی مناتی ہے۔ سکولوں، کالجوں اور جامعات میں بڑے پیمانے پر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ دینی مدارس کے طلبا بھی جشن آزادی مناتے تھے، لیکن یہ جشن آزادی الگ شناخت کے ساتھ  منعکس نہیں ہوپاتا تھا۔ پچھلے دو سال سے مدارس نے بڑے پیمانے پر جشن آزادی منانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس میں باقاعدہ تقریری مقابلہ کرائے جاتے ہیں، جس میں پوزیشنز لینے والوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ ملی نغمے پڑھے جاتے ہیں اور چودہ اگست کی صبح پرچم کشائی بھی کی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک تقریب جسے میڈیا پر بھرپور پذیرائی ملی، اسلام آباد کے قلب میں واقع جامعۃ الکوثر میں منعقد ہوئی۔ جامعہ نے عظیم الشان جشن کا اہتمام کیا تھا، اس میں جامعہ کے طالب علموں اور اساتذہ کے علاوہ باہر سے بھی بڑی تعداد میں معززین نے شرکت کی۔ شیخ الجامعہ، مفسرقرآن شیخ محسن علی نجفی نے بڑے پتے کی بات کہ ہمیں پاکستان اور اہل پاکستان کی قدر کرنا ہوگی، کیونکہ پاکستان ایک منفرد اور پیارا ملک ہے اور اہل پاکستان محبت کرنے والے اور پیار کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ حقیقت تو کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان جیسا خطہ دنیا کے بہت کم ممالک کے پاس ہے، جہاں چار موسم ہیں، صحرا اور میدان ہیں، برف پوش پہاڑ ہیں، سرسبز و شاداب وادیاں ہیں، ہڑپہ اور موہنجو دوڑو جیسی ہزاروں سال پرانی تہذیبیں ہیں، بدھ ازم کا مرکز اور سکھ ازم کی بنیاد اس جگہ رکھی گئی ہے۔ جامعۃ المنتظر،جامعہ امام خمینیؒ ماڑی انڈس اور دیگر کئی شہروں میں واقع مدارس امامیہ میں جشن کی پروقار تقاریب منعقد کی گئی۔

انسان کی عزت تب ہوتی ہے، جب وہ خود کو صاحب عزت سمجھتا ہے، ہیں ہمیں فخر کے ساتھ بطور پاکستانی اپنا تعارف کرانا چاہیے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے، جس سے وطن کی توہین ہو۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان کا نام دہشتگردی سے جوڑ دیا گیا ہے، لوگ پاکستان کو ایک ایسی ریاست کے طور پر دیکھنے لگیں، جہاں انتہا پسندوں کا غلبہ ہے اور ہر طرف دہشتگردی ہے۔ اس منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے ہمیں پاکستان کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ دشمن ممالک اور اپنی صفوں میں چھپے دوست نما دشمنوں نے ہر اس خبر کو بین الاقوامی خبر بنوایا، جس سے وطن کی بے توقیری ہو سکتی تھی۔ اب ضروری ہے کہ ہم ان کامیابیوں کا تذکرہ کریں، جو اس قوم نے بڑی محنت اور جدو جہد کے ذریعے حاصل کی ہیں۔ میرے خیال میں شیعہ مدارس نے اپنے حصے کے کام کا آغاز کر دیا ہے، وہاں پر سبزہلالی پرچم پوری آب و تاب سے لہرا رہا ہے، وہاں ملی نغموں کے مقابلے ہو رہے ہیں، وہاں حصول پاکستان کی جدو جہد سے لیکر تعمیر پاکستان پر تقریری مقابلے ہو رہے ہیں، نسل نو کی تربیت وطن کی محبت کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب اس سبز ہلالی پرچم کی عظمت بلند سے بلند تر ہو گی، احمد ندیم قاسمی صاحب کے ان اشعار پر ختم کرنا چاہوں گا۔

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
 
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
 
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
 
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
 
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
 
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
 
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

 
خبر کا کوڈ : 744789
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش