0
Wednesday 15 Aug 2018 14:19

آزادی ہند میں مسلمانوں کی قربانیاں

آزادی ہند میں مسلمانوں کی قربانیاں
تحریر: عظمت علی
ریسرچ اسکالر آف جامعۃ المصطفٰی

بھارت غلامی کے ایسے دلدل میں پھنس گیا تھا جہاں سے نجات مشکل نظر آرہی تھی، روح فرسا محنت کوئی کرتا اور فائدہ کسی کو ہوتا۔ گویا نفع ان کے حصہ میں اور خسارا ہمارے نصیب میں۔ ایک صدی تک ہمیں غلامی کی زنجیر میں جکڑا گیا تھا۔ اس طویل عرصہ میں انہوں نے ہم پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے۔ ایسا گھٹن کا ماحول بنا دیا تھا کہ آواز حق بلند کرنا نقارخانے میں صدائے طوطی! جب کوئی ہندوستانی اپنے پامال شدہ حقوق کا مطالبہ کرنا چاہتا تھا تو اسے زنجیروں میں جکڑ دینے کی سزا سے ڈرایا دھمکایا جاتا۔ لہٰذا،منادی حق ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے دریغ کرتے جو کسی بھی عنوان سے ان کے خلاف ہو۔ مظالم کا سلسلہ جاری و ساری رہا لیکن کب تک اذیت ناک زندگی پر گزارہ ہوتا۔ اب تو صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا تھا۔ کہاوت ہے کہ چیونٹی بھی دبنے پر کاٹ لیتی۔ ہندوستانیوں نے آواز حق بلند کی اور اپنے حق کے لئے قیام کیا۔

انگریزوں کی شیطانی چالیں:
انہوں نے  24 ستمبر 1599ء کو ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی۔ جس میں لندن کے دو سو سے زیادہ تاجر اور امراء شریک کار تھے۔ 1612ء میں انہوں نے سورت نامی مقام پر باقاعدہ اپنے کاروبار کا آغاز کردیا۔ ہندوستانی فرمانرواؤں نے خارجی تاجروں کے ساتھ دریا دلی سے کام لیا لیکن بعد کے ایام میں ان کے حق میں خیراندیشی خود امراء ہند کے لئے ناعاقبت اندیشی ثابت ہوئی۔ انگریز تو رفتہ رفتہ  اپنے پائوں  پھیلا ہی رہے تھے لیکن اورنگزیب کی حکومت ان کے آڑے آ رہی تھی، اس لئے انہیں باقاعدہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ مگر جب دہلی کا مرکز کمزور پڑگیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے بال و پر پھیلانا شروع کئے جس کے باعث 1757ء میں پلاسی کا افسوسناک سانحہ پیش آیا اور نواب سراج الدولہ کی افواج کو اپنوں کی درپردہ سازشوں کا شکار ہوکر مٹھی بھر خارجی فوجوں سے شکست کھانی پڑی۔ اب صرف ٹیپو سلطان کی حکومت ان کے لئے وبال جان بنی ہوئی تھی اور وہ اسے راستہ کا پتھر سمجھ کر  ہر ممکنہ صورت میں ہٹانا چاہ رہے تھے۔ ٹیپو کو تو اس بات کا علم ہو ہی چلا تھا کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھاتا ہے، لہٰذا اب ان سے کسی بھی طرح کی نرمی روا رکھنا خطرہ سے خالی نہیں تھا۔

حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چار جنگیں لڑیں۔ ٹیپو سلطان 1782ء میں حکمراں ہوا اور  1783ء میں دشمنوں سے پہلی جنگ لڑی۔ جس میں مقابل کو منھ کی کھانی پڑی۔ انگریز کو ٹیپو سلطان سے بہت بڑا خطرہ درپیش تھا۔ اس لئے کہ وہ ان کے سارے غلط منصبوں کو نقش برآب کرنے پر ہمہ تن آمادہ ہو چکے تھے اور کسی بھی قیمت پر ان کی اسیری اوران کے رحم و کرم پر زندگی گزارنا گیڈر کی زندگی سمجھا۔ جیسا کہ خود ان کا مشہور قول ہے کہ "شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی صد سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے"۔ جب جرنل ہارس کو سلطان کی خبر شہادت ملی تو اس نے ان کی نعش پر یہ جملہ کہا "آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔" 1857ء میں پہلی جنگ آزادی جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا تھا اور اس عنوان پر ایک فلم بھی ریلیز ہو چکی ہے۔ عموما اس کے دو اہم اسباب بتائے جاتے ہیں:

اول: ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے صوبوں اور کئی ریاستوں کو یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا جس کے باعث عوام الناس نے اس کے کالی کرتوتوں کو بھانپ لیا۔
دوم: فوجیوں کو جو کارتوس دیئے جاتے وہ سور اورگائے کی چربی سے آلودہ ہوتے اور انہیں بندوق میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا، جس کے چلتے مسلمان اور ہندو افواج نے اس کو استعمال کرنے سے منع کردیا۔ اس لئے انہوں نے ان حضرات کو ان کے معزز عہدے سے بے دخل کردیا۔ یہ واقعہ سب سے پہلے بنگال میں ڈمڈم اور بارک پور میں رونما ہوا اور پھر یہی سانحہ لکھنو میں بھی پیش آیا۔ برخاست شدہ فوجی ملک میں متعدد مقامات پر پھیل گئے اور لوگوں کو اس غلط کام کے خلاف آواز حق بلند کرنے کے لئے ابھارنا شروع کردیا۔ اس کام میں تمام لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور متضاد عناصر، مشترکہ دشمن کے خلاف یکجا تو ہوگئے لیکن آداب جنگ اور کسی بابصیرت قیادت کی عدم موجودگی کے سبب اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔

دہلی پر قابض ہو جانے کے بعد انگریز فوجوں نے اہل وطن کا بے دریغ قتل و خوں کرنا شروع کردیا۔ سینکڑوں کو پھانسی پر لٹکایا۔ ہزاروں نفوس گولیوں سے اڑا دیئے گئے۔ بے شمار لوگوں کو قیدی بنا کر ان کے جسموں میں طوق و سلاسل پہنا دیئے گئے اور مسلمانوں کو چن چن کر شہید کرنے لگے لیکن کسی بھی محبان وطن نے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا اور کسی بھی صورت میدان جنگ سے راہ فرار اختیار نہیں کی بلکہ عزم و ارادہ کے دھنی، ہمت کے پہاڑ اور ہندوستان سے بےلوث محبت کرنے والے مسلمانوں نے اپنے سرخ لہو سے اس چمن کو تروتازگی بخشی اور سیاہ فام غداروں کو ہندوستان سے مار بھگایا۔ 1857ء میں شاہ ولی اللہ، عبدالعزیز دہلوی اوردیگر محبان وطن کی محبت رنگ لائی جس کے باعث مولانا فضل حق خیرآبادی نے دشمنوں کے خلاف جہاد کا فتوٰی صادر کیا اور دہلی کے تمام علماء کے دستخظ بھی لئے۔ یہ کشت و کشتار کا سلسلہ روں دواں رہا۔ وقت گزرتا گیا لوگ آتے گئے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے درجہ شہادت پر فائز ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ تاریخ نے لکھا ہے کہ دہلی جامع مسجد سے  پشاور تک درختوں پر ان کی گردنیں لٹکی ہوئی تھیں۔

1919ء میں تحریک خلافت وجود میں آئی، جس میں محمد جوہر، گاندھی جی اور دیگر جیالوں نے تمام لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا۔ 1920ء میں گاندھی اور مولانا ابو الکلام آزاد نے غیر ملکی اموال کا بائیکاٹ اور نان کوآپریشن (Boycott and non-co-operation) کی تجویز پر عمل درآمد کیا جو دشمنوں کے خلاف بہت کارگر اسلحہ ثابت ہوئی اور اسی وقت ان کو احساس ہوا کہ اب ہمارا بیڑا غرق ہونے کو ہے۔ 1921ء میں موپلا بغاوت 1922ء میں  چوراچوری میں پولیس فائرنگ، 1930ء میں تحریک سول نافرمانی اور نمک آندولن۔ 1942ء میں ہندوستان چھوڑو تحریک (Quit India movement)۔ 1946ء میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں پولیس فائرنگ کے دوران ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔ انگریزوں کی قید و بند جھیلنے اور ان کی گولیوں کا نشانہ بننے والوں کی تعداد کا صحیح شمار محال نہ سہی مشکل ضرور ہے۔ لیکن علماء کی تعداد بیس سے پچاس ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ جن میں قائدانہ صلاحیتوں کے مالک افراد کے اسماء آب زر سے تحریر کرنے کے قابل ہیں اور وہ مندرجہ ذیل ہیں:

مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، بہادر شاہ ظفر، بیگم حضرت محل، نواب سراج الدولہ، مولانا حسرت موہانی، مولانا فضل حق خیرآباد ی وغیرہ۔ ایک صدی سے زائد برسوں تک مسلسل جانفشانیوں اور قربانیوں کے بعد 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب کو ہمارا سارے جہاں سے اچھا وطن انگریزوں کی تمام تر قید و بند اور طوق و سلاسل سے آزاد ہوا۔ رنگ و روپ اور نسل و قوم کی تمام تر اونچ نیچ کو بالائے طاق رکھ کر ہندو، مسلم، سیکھ، عیسائی اور تمام محبان وطن کے باہمی اتحاد اور بے پناہ قربانیوں کے سبب اس عزیز ملک ہندوستاں کو حیات نو عطا ہوئی۔ مسلمانوں نے عقابی نگاہوں سے فرنگی کی شاطرانہ چال کو نقش برآب کردیا اور تن کے گورے دل کے کالے انگریزوں کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہمارے بزرگوں نے اپنے قیمتی خون سے اس گلستاں کی آبیاری کی ہے جس کی فتح و ظفر کی گواہی آج بھی سرخی آفتاب پر نمایاں نظر آتی ہے۔ لہٰذا! ہمیں چاہیئے کہ اختلافات کی دیوار کو گرا کر ہندوستان کی ترقی میں شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں اور ہر شرپسند عناصر کو دندان شکن جواب دے کر اپنے ملکی اتحاد کا ثبوت فراہم کریں۔
خبر کا کوڈ : 745561
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش