0
Thursday 13 Sep 2018 10:50

ایران کا مختصر دورہ، مشاہدات اور محسوسات

ایران کا مختصر دورہ، مشاہدات اور محسوسات
تحریر: مفتی خورشید احمد قانونگو
صدر جموں و کشمیر انجمن حمایت الاسلام


راقم الحروف کو ہندوستان میں ایران کے مذہبی سفیر آیت اللہ مہدوی پور نے ایران کلچر دہلی کی وساطت سے بذریعہ حیدر رضا ضابط سفر ایران کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ میں نے دعوت نامے کو نیک شگون لیا، کیونکہ محسن کشمیر حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی (رہ) اسی خطہ کے شہر ہمدان سے تعلق رکھتے تھے۔ 13 جولائی کو راقم سفر دس افراد پر مشتمل وفد کے ہمراہ ایران روانہ ہوا۔ میں کشمیر سے واحد مدعو تھا جبکہ مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی حیدر آباد کے دو اسکالر ڈاکٹر حلیم اشرف جالیسی اور ڈاکٹر سید محمد حسیب الدین چستی، درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے خواجہ سید محمد نظامی، سید محمد رضوان پاشا حیدر آباد، علامہ شبیر وارثی، سید بابر اشرف صدر صوفی فیڈریشن آف انڈیا، سید سمیع اللہ حسینی از خاندان گیسوئے درازؒ، مولانا احمد نقشبندی مبلغ حیدر آباد، مولانا حسیب حسینی، صدر منہاج القرآن بنگلور بھی وفد میں شامل تھے۔

حکومت ایران نے مختلف وفود کو مملکت ایران کی سیاحت و مشاہدات کرانے کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے، تاکہ مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا نہ ہوں۔ اگرچہ صفوی حکمرانوں کے دور میں مسلمانوں کو کافی مصائب کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ایرانی انقلاب کے بعد حالات میں ایک غیر معمولی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت ایران کی کل آبادی آٹھ کروڑ ہے، جس میں سنی مسلمانوں کی آبادی اسی 80 لاکھ ہے، بقیہ شیعہ مسلمان ہیں۔ ملک میں 70 ہزار مساجد موجود ہیں، جن میں پانچ ہزار مساجد سنی اوقاف کی تحویل میں ہیں۔ پانچ ہزار دینی مدارس کے علاوہ چوبیس طباعتی مراکز یہاں قائم ہیں، جہاں سنی عقیدے کے تحت کتابوں کی اشاعت ہوتی ہے۔ یہ سب آیت اللہ خمینی (رہ) کی کوششوں سے ظہور پذیر ہوا، شاید وہ آخر پر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق سب سے بڑی کامیابی ہے اور ان کے درمیان خلیج پیدا کرنا دشمنان اسلام کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

تہران پہنچتے ہی ہمیں ایک ہزار کلو میٹر دوری پر واقع شہر مشہد بذریعہ ہوائی جہاز لے جایا گیا، جہاں حضرت امام علی رضا (ع) کا مزار ہے۔ یہ ایران میں سب سے بڑی مرجع الخلایق زیارت گاہ ہے، جو ایک سو چالیس ایکٹر پر مشتمل ہے۔ یہ زیارت فن تعمیر کے لحاظ سے بہت دیدہ زیب ہے۔ تربت امام رضا (ع) سے ملحق مسجد گرہر شاد واقع ہے۔ امیر تیمور کی بہو کے ہاتھوں تعمیر یہ جامع مسجد فن کے لحاظ سے عجائبات عالم میں سے ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس زیارت گاہ پر روزانہ ایک لاکھ لوگوں کی حاضری ہوتی ہے۔ پچاس ہزار لوگوں پر مشتمل رضاکار یہاں زائرین کی رہنمائی کے لئے مامور ہیں، یہ سب افراد بڑے تجار اور سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ خراسان کی حکومت اس زیارت گاہ کے وقف ادارے سے قرضہ حسنہ لیتی ہے، اس کے تحت چار یونیورسٹیاں دو بڑے ہسپتال، سینکڑوں مروجہ دینی تعلیم کے مدارس چلتے ہیں۔ ادارے کے صرف پانچ ہزار ملازمین تنخواہ پر ہیں، باقی سب رضاکارانہ طور کام کرتے ہیں۔

سب سے پہلے خراساں کے مفتی اعظم شیخ فاضل حسینی سے ہماری ملاقات ہوئی، جو امام جمعہ اہل سنت و الجماعت اور مسلک حنفیہ پر قائم ہیں۔ یہ ادارہ رابطہ اسلامی کا خاص رُکن ہے۔ اس کی نگہداشت میں 25 دینی و مروجہ تعلیم کے مدارس ہیں، جن کی حکومتِ ایران معاونت کرتی ہے۔ اس ادارے کے ناظم اعلٰی ڈاکٹر شیخ الاسلام سے ملاقات ہوئی، جو حکومت ایران میں ڈپٹی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ اُن کے افراد خانہ میں سے ایرانی انقلاب کے دوران چار لوگ جان بحق ہوئے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے ایرانی انقلاب کے سبق آموز واقعات سے ہمیں روشناس کرایا۔ قابل ذکر ہے کہ انقلاب ایران کے دوران فن تعمیر، ثقافتی مراکز، تہذیب و تمدن کے آثار محفوظ رہے، یہاں تک کہ رضا شاہ پہلوی کے دو شاہی محل بھی اس وقت محفوظ ہیں اور انہیں میوزیم کا درجہ دیا گیا۔

مشہد میں دنیا کی سب سے بڑی لائبریری واقع ہے، جہاں ساٹھ لاکھ سے اوپر کتابیں، مخطوطات، نوادرات موجود ہیں، اس کے علاوہ یہاں 14 ہزار قدیم قرآنی نسخے بھی موجود ہیں۔ آیت اللہ تستری کے دفتر پر عالم اسلام میں مسلمانوں کے درمیان خلیج و رسہ کشی کی وجوہات اور ان کے سدباب پر طویل مباحثہ ہوا۔ یہاں سابقہ ایرانی صدر احمدی نژاد کے دور حکومت میں وزیر خارجہ رہنے والے ڈاکٹر متقی نے ہمیں دشمنان اسلام بالخصوص امریکہ، اسرائیل کی سازشوں سے باخبر کیا کہ کس طرح ہماری صفوں میں گھس کر وہ مسلک و عقائد پر ہمیں آپس میں لڑوا رہے ہیں۔ اس قسم کے عناصر دونوں جانب کی صفوں میں موجود ہیں، جن کی لگام کسنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تربت جام:
عالم اسلام کا معروف صوفی بزرگ و شاعر حضرت شیخ احمد جام کی زیارت گاہ پر حاضری نصیب ہوئی۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمایوں نے شیر شاہ سوری سے ہار کر پناہ لی اور یہیں سے از سر نو اپنی فوج کو تیار کرکے ہندوستان پر قابض ہوا۔ یہاں وہ خانقاہ موجود ہے جو حضرت نے خود اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی ہے۔ اس خانقاہ کے شیخ شرف الدین احمد جام سے ملاقات کرکے قدیم مشیخت یاد آئی۔ اس خانقاہ کے اندر پست قامت کوٹھریاں برائے عبادت و ریاضت آج بھی اسی انداز میں محفوظ ہیں اور قدیم قرآنی نسخے اور نوادرات بھی ان کے اندر موجود ہیں۔ صاحب زیارت کی تصانیف میں سے میں سے چند ایک ہمیں عطیہ کے طور دی گئیں، اس خانقاہ کے ساتھ نو سو سالہ قدیم درسگاہ کی عمارت از سر نو مرمت کرکے اپنی حالت پر کھڑی کی گئی ہے۔ یہاں آج بھی اہل سنت و الجماعت کے بچے علم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔

شہر قم:
یہاں ہر طرف دینی مدارس کے علاوہ زیارت حضرت فاطمہ معصومہ (س) ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہاں کے مدارس میں عالم اسلام کے بیش تر ممالک سے وابستہ ڈیڑھ لاکھ طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پورے ایران میں ایک سو دس یونیورسٹیاں اس وقت موجود ہیں۔ گرگان سدومہ میں چار ہزار طلباء ہر مسلک سے وابستہ طلبہ علم حاصل کر رہے ہیں۔ چنار، اخروٹ، ناشپاتی، بیر، مسواک کے درختوں کی کثرت دیکھ کر مجھے محسن کشمیر حضرت شاہ ہمدان (رہ) کے فیوضات ذہن میں آئے کہ آں جناب (رہ) نے کشمیر کو دین، تہذیب، علم صنعت و ثقافت کے ساتھ ساتھ ان پیڑ پودوں کی سرزمین کشمیر پر تخم ریزی کے ہمیں خوش حالی دی، مگر افسوس کہ ہم انہیں محفوظ نہ رکھ سکے۔ پھلوں اور زرعی پیداوار کے لحاظ سے ایران خود کفیل ہے۔ ایک اور نشست درمیان مشیر اعلیٰ صدر ایران ڈاکٹر روحانی حجۃ الاسلام آیت اللہ ہادی یونسی سے ہوئی، جس میں ڈاکٹر ذوالفقار نے عربی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ تہران کی مرکزی دانشگاہ میں حضرت امام شافعی (رہ) کی فقہ اور قانون کو پڑھایا جاتا ہے۔ اس موقعے پر تصوف پر بحث ہوئی۔

میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ تصوف خانقاہوں کی بحالی سے میسر نہیں ہوگی، جب تک اپنے ہی وجود کے اندر انقلاب برپا نہ ہو۔ آیت اللہ محسن قمی سے بھی ملاقات ہوئی، جنہوں نے واضح کیا کہ اگر ہم مسلک کے نام پر اپنے آپ کو پیش کریں گے تو وہ دن دور نہیں جب دشمنان اسلام ہم پر سوار ہوں گے۔ دونوں جانب ایسے افراد موجود ہیں، جو دین کے بجائے مسلک کو پیش کرتے ہیں۔ میں نے اس موقع پر برملا کہا کہ ایران میں زیادہ مسلک ہی غالب ہے بلکہ بعض زیارت گاہوں پر منتخب دعاؤں کے آخری اوراق میں قابل اعتراض عبارتیں موجود ہیں، جو مسلمانوں کے درمیان قدیم خلیج و خلفشار کو بڑھاوا دینے کا باعث بن رہی ہیں۔ اگر ان چیزوں سے اجتناب نہ کیا گیا تو مسلمانوں کے درمیان اتحاد ناممکن ہے۔ ہمارے لئے وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ماضیٔ قدیم کی رنجشوں کو بھلا کر ہم تعمیری کردار پر کھڑے ہوں۔ میں نے بر محل صاف کیا کہ ان اعتراضات کی نشاندہی کے لئے الگ سے ایک خط آیت اللہ خامنہ ای صاحب کے نام ارسال کروں گا۔ اس کے علاوہ ہم نے چیئرمین رابطہ اسلامی تہذیب سازماں، ڈاکٹر ابراہیم ترکمانی، آیت اللہ اراکی سے ملاقات کرکے اتحاد بین المسلمین کے مختلف گوشوں پر گفت و شنید کی۔

شہر گیلان:
تہران سے تین سو کلو میٹر کی دوری پر یہ شہر ولادت گاہ حضرت محبوب سبحانی شیخ سید عبدالقادر جیلانی (رہ) واقع ہے۔ یہاں اُن کی والدہ ماجدہ کی تربت کی زیارت نصیب ہوئی۔ اس زیارت میں اردن کے شیخ محمود قادری کے افاد میں سے سکونت کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بر سر موقع سوانح حضرت پیر (رہ) بیان کی اور ہمیں زیارت تک پہنچایا۔ حضرت پیر کے والد محترم شیخ موسیٰ صالح جنگی دوست کی زیارت اور حضرت پیر کے نانا سید عبداللہ صومعی کے مرقد پر حاضری دینے میں انہوں نے ہماری رہنمائی کی۔ اس زیارت گاہ پر والدہ محترمہ حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی (رہ) پر ایک برقعہ پوش عورت مجاورہ تھی، جس نے ہماری بہت مہمان نوازی کی۔

خطۂ گیلان میں اس جگہ کو صومعہ سرا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جب ہم نے اپنے میزبان ساتھی ڈاکٹر رضا ضابط سے اس کے معنی پوچھے تو انہوں نے کہا کہ اس کا   صعومہ سرا فارسی میں ’’خانقاہوں کا شہر‘‘ کہلاتا ہے۔ ہم نے یہیں پر نماز جمعہ ادا کی۔ کشمیر کی حسین وادیوں سے ملتی جلتی اس وادی کے بیچ میں یہاں پانی کشمیر کی ندیوں کی طرح بہتا ہے، دونوں اطراف زیتون، انار اور چائے کے سر سبز باغات موجود پائے۔ اس پانی کے بہاؤ پر چل رہے پن بجلی پروجیکٹوں سے ایران کے دیگر علاقے بھی برقی رو سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ راستے میں ایک علاقہ رود بار کے نام سے ہے۔ یہ سلسلہ کبروی کے صوفی بزرگ جن کا نام شیخ علی رودباری ہے، سے منسوب ہے۔ ایران کا کوئی شہر ایسا نہیں ہے کہ جس کی نسبت سے یہاں کے کسی ولی کامل سے نہ ہو۔

سمنان:
یہ تہران سے تین سو کلو میٹر دوری پر ہے، جو حضرت شاہ ہمدان (رہ) کا ننہال ہے۔ یہاں سید شیخ علاوالدولہ سمنانی (رہ) کا صوفیہ آباد ہے، مزار شریف موجود ہے، قدیم عمارت کے درمیان اُن کی مرقد ہے، جس پر سنگ سفید جڑا ہے۔ اس بارے میں مولانا مناظر حسن گیلانی فرماتے ہیں کہ حضرت سمنانی نے کم از کم ساڑھے تین سو تصانیف قلمبند کی ہیں۔ آپ سلسلہ کبرویہ میں سب سے بڑے مصنف گزرے ہیں۔ حضرت شاہ ہمدان (رہ) نے ان سے ہی علمی استفادہ کیا۔ خود حضرت شاہ ہمدان نے دو سو ستر (270) چھوٹی بڑی تصانیف قلمبند کی ہیں۔ اس زیارت پر چند ایک اہل سمنان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ شہر طوس میں مقبرہ امام محمد غزالی واقع ہے، اس سے ملحق قدیم خانقاہ بھی موجود ہے۔ البتہ مدرسہ فتنۂ تاتار میں یہ منہدم ہوچکا ہے۔ اس کے آثار حکومت نے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے موقع کی مناسبت سے حکومتی اکابرین کو امام غزالیؒ کی تربت محفوظ رکھنے کی استدعا کی، جنہوں نے اس کی تعمیر و مرمت کا وعدہ کیا۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ایران اور کشمیر کے درمیان فارسی زبان قدیم زمانے سے رابطے کی زبان رہی ہے۔ سفر ایران کے اختتام پر میزبانوں سے رخصت ہوتے ہوئے ہمیں دیوان حافظؔ اور زعفرانِ ایران سے بطور تحفہ نوازا گیا۔ یوں 22 جولائی کو اس یادگار سفر سے چند روحانی فیوضات اور علمی یادیں لے کر ہم وطن واپس لوٹے، لیکن شہر اصفہان، ہمدان، مازندران، گرگان، یسطام، (زیارت حضرت بایزید بسطامی) خرقان، زیارت حضرت ابوالحسن خرقانی نیشاپور (زیارت شیخ فریدالدین عطار) کی زیارات کی تشنگی باقی رہی۔ البتہ ان زیارت گاہوں پر فتوحات اسلامیہ یاد آگئیں۔ الغرض اہل ایران کے اس قابل داد پہلو سے ہم متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے کہ وہ اپنے ملک کی تہذیب و تمدن، ثقافت و ماحولیات بالخصوص مادری زبان کے شعور کی گہرائیوں کے ساتھ محافظ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 749516
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش