0
Monday 24 Sep 2018 23:04

پنجاب کے مدارس میں اصلاحات کا فیصلہ

پنجاب کے مدارس میں اصلاحات کا فیصلہ
رپورٹ: سید شاہریز علی
 
پاکستان وہ ملک ہے، جہاں طلباء و طالبات کی ایک بڑی تعداد دینی مدارس سے استفادہ کرتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ایک مخصوص سخت گیر رجحان رکھنے والے طبقہ کی وجہ سے پاکستان بھر میں دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مدارس کو بھی مشکلات کا سامنا رہا ہے، اسی شدت پسند فکر کیوجہ سے مدارس کو اکثر شدت پسندی، دہشتگردی کی تربیت اور بچوں کو گمراہ کے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت بنانے کے بعد حکومت نے پنجاب کے دینی مدارس میں اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے مطابق پنجاب حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبے بھر میں قائم دینی مدارس میں زیر تعلیم ملکی و غیر ملکی طلباء و طالبات کی از سر نو جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا ہے۔ طلباء اور ان کے والدین سے بیان حلفی لیا جائے گا کہ ان کا یا ان کے بچوں کا کسی بھی کالعدم مذہبی جماعت یا تنظیم سے نا تو کوئی تعلق رہا، نہ ہے اور نہ ہوگا۔ بیان حلفی نہ دینے والے طلباء و طالبات کو مدراس سے فارغ کر دیا جائے۔
 
علاوہ ازیں پنجاب حکومت نے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے ایسے غیر ملکی طلباء و طالبات کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے، جن کے ویزوں کی معیاد ختم ہوچکی ہے یا ہونے والی ہے۔ حکومتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاہور میں 375 سے زائد غیر ملکی طلباء کے ویزے کی معیاد ختم ہوچکی ہے، گجرات میں 47، راولپنڈی میں 50، چکوال میں 29، ساہیوال میں 21، قصور میں 33، گوجرانوالہ میں 75، اٹک میں 67، فیصل آباد میں 55، بھکر میں 39، ڈیرہ غازی خان میں 75 اور راجن پور میں 39 غیر ملکی طلباء کے ویزوں کی معیاد ختم ہوچکی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں افغانستان سمیت مختلف ممالک کے طلاب قانونی یا غیر قانونی طور پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پنجاب میں رجسٹرڈ دینی مدارس کی تعداد کے اعتبار سے ضلع ملتان 1145 مدارس کے ساتھ پہلے، ضلع لاہور 1110 رجسٹرڈ دینی مدارس کے ساتھ دوسرے، ضلع مظفر گڑھ 898 مدارس کے ساتھ تیسرے، ضلع رحیم یار خان 711 رجسٹرڈ مدارس کے ساتھ بالترتیب پانچویں نمبر پر ہے۔ پنجاب بھر میں اب تک 14 ہزار سے زائد دینی مدارس موجود ہیں۔
 
ملکی آبادی کی ایک بڑی تعداد بریلوی مکتبہ فکر سے وابستہ ہے، لیکن حیران کن طور پر مدارس میں سب سے بڑی تعداد دیوبندی مکتبہ فکر کے اداروں کی ہے۔ اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مدارس کی تنظیم کا نام وفاق المدارس العربیہ ہے۔ حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق دیوبندی رجسٹرڈ مدارس کی تعداد اس وقت 19491 ہے، جن میں ایک لاکھ 40 ہزار 525 اساتذہ 25 لاکھ کے قریب طلباء و طالبات کو تعلیم دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان سمیت مختلف کالعدم اور دہشتگرد تنظیموں کا تعلق بھی دیوبندی مکتبہ فکر سے ہے۔ اس کے علاوہ بریلوی (جس مکتبہ فکر کی ملک میں سب سے زیادہ آبادی ہے) مدارس کی تنظیم کا نام تنظیم المدارس اہلسنت ہے، جس کے تحت 9000 سے زائد مدارس چل رہے ہیں۔ اہلحدیث مکتبہ فکر کے تحت 1485 مدارس چلائے جا رہے ہیں، جن میں 41000 کے قریب طلبہ پڑھتے ہیں۔ اہل تشیع مکتبہ فکر کے پاکستان میں کل 470 مدارس ہیں۔ ان مدارس میں 19 ہزار تک طلباء زیر تعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف مذہبی جماعتوں جن میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، منہاج القرآن، جماعۃ الدعوۃ شامل ہیں، کے زیراہتمام بھی کئی مدارس چل رہے ہیں۔
 
پنجاب بھر میں سب سے زیادہ دینی مدارس کی تعداد جنوبی اضلاع میں بتائی جاتی ہے، یہاں موجود مدارس میں دیوبندی اور اہلحدیث اداروں کو ماضی قریب میں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا رہا ہے، کیونکہ ان میں بعض مدارس ایسے بھی پائے گئے، جن کا دہشتگردی، انتہاء پسندی اور فرقہ واریت سے کسی نہ کسی طرح تعلق رہا ہے۔ 2015ء میں پنجاب میں دہشتگردوں کو تربیت دینے والے 13 مدارس کا سراغ لگایا گیا تھا، جن میں اکثریت کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا۔ دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث ان مدرسوں کیخلاف مصدقہ شواہد حاصل کئے گئے تھے اور ان مدارس کے منتظمین کے قبائلی علاقہ جات میں براہ راست رابطوں کا بھی انکشاف ہوا تھا۔ سابق آئی جی پنجاب پولیس طارق سلیم ڈوگر نے بھی کہا تھا کہ جنوبی پنجاب کے بعض مدارس میں دہشتگردی کی تربیت دی جا رہی ہے، جنوبی پنجاب کے اضلاع میں دینی مدارس کی تعداد بہت زیادہ ہے، ان میں سے چند مدارس میں دہشت گردی کی تربیت دیئے جانے کی اطلاعات ہیں۔
 
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں موجود مدارس کو سب سے زیادہ فنڈنگ سعودی عرب سے ہوتی ہے، علاوہ ازیں متحدہ عرب امارات اور ترکی بھی پاکستان کے کئی مدارس کو سپورٹ کرتے ہیں۔ 2011ء میں وکی لیکس کے تحت جاری ہونے والی معلومات میں بتایا گیا تھا کہ جنوبی پنجاب میں اہلحدیث اور دیوبندی مکتب فکر کے مدارس و علماء کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے سالانہ تقریباً 10 کروڑ ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے، جو زیادہ تر پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہاں جہادیوں کی بھرتی کا سلسلہ منظم طریقہ سے جاری ہے، اس مقصد کے لئے بہاولپور میں دو اور ڈیرہ غازی خان میں ایک باقاعدہ مرکز بھی قائم ہے، جنوبی پنجاب میں دیوبند علماء کو بیرونی امداد ملتی رہتی ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے مدارس سسٹم میں اصلاحات خوش آئند ہیں، تاہم مدارس کی بیرونی فنڈنگ، تربیت اور نصاب کو بھی مانیٹر کرنا ہوگا، تاکہ دینی مدارس کے نظام کو بہتر بنایا جائے اور مدارس ہمارے بچوں کو دہشتگرد اور فرقہ پرست کی بجائے ملک اور اسلام کا حقیقی خادم و مجاہد بنا سکیں۔
خبر کا کوڈ : 751962
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش