2
0
Friday 9 Nov 2018 16:40

یمن، ثالث جانبدار نہیں ہوتا

یمن، ثالث جانبدار نہیں ہوتا
تحریر: ثاقب اکبر
 
تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے پہلے بھی یمن کے مسئلے پر غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ سعودی عرب نے 2015ء میں جب یمن پر متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقائی حواریوں کے ساتھ مل کر چڑھائی شروع کی تو اس نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ میدان جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ دے۔ چنانچہ اس نے پاکستان سے فوجی امداد طلب کی۔ یہ موضوع تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں نے پارلیمنٹ میں اٹھایا اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو عام طور پر پارلیمنٹ کے اجلاسوں سے غیر حاضر رہتے تھے، خاص طور پر اس اجلاس میں شریک ہوئے اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھا کہ میں اجلاس میں اس لئے شریک ہوا ہوں کہ پاکستان پھر کوئی غلط فیصلہ کرکے اپنے آپ کو نئی مشکلات میں نہ ڈال لے۔ پارلیمنٹ نے مشترکہ طور پر یمن کے مسئلے پر غیر جانبدار رہنے کی قرارداد منظور کی اور قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان اسلامی ممالک کے مابین ثالثی کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا۔
 
25 جولائی 2018ء کو قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھرنے کے بعد اگلے روز عمران خان نے پارٹی لیڈر کی حیثیت سے وکٹری سپیچ کی۔ اس میں بھی انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں پاکستان فریق بننے کے بجائے ثالث کا کردار ادا کرے گا۔ بعدازاں انھوں نے یہی نقطہ نظر اس وقت اختیار کیا جب سعودی سفیر نے ان سے ملاقات کی اور سعودی راہنماﺅں کی طرف سے انہیں مبارکباد کے پیغامات ملے۔ پاکستان کی مالیاتی اور اقتصادی مشکلات کے حل کے لئے جب وزیراعظم عمران خان نے کوششیں شروع کیں تو انہوں نے سب سے پہلے پے درپے سعودی عرب کے دو دورے کئے۔ ان دوروں کے نتیجے میں سعودی عرب نے پاکستان کے لئے ایک قابل قدر امدادی پیکیج کا اعلان کیا۔ اس کے بارے میں وزیراعظم اور وزیر خارجہ کی طرف سے یہ کہا گیا کہ یہ پیکیج غیر مشروط ہے۔ ایک موقع پر وزیر خارجہ نے کہا کہ ”سوال کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کو کیا دے کر آئے ہیں؟ سعودی عرب سے کوئی وعدہ نہیں کیا، تعاون غیر مشروط ہے۔“
 
ایک معاصر خبری ویب سائٹ نے بھی لکھا ہے کہ ”تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وزیراعظم نے کسی بڑی ڈیل کے تحت سعودی عرب سے یہ رعایتیں حاصل کی ہیں۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ شاید پاکستان اپنی خود مختاری کا سودا کرکے یمن جنگ میں حصہ بننے کی شرط پر سعودی عرب سے یہ تمام رعایتیں حاصل کر رہا ہے۔ تاہم اس حوالے سے وزیراعظم نے دورہ سعودی عرب کے بعد اپنے پہلے خطاب میں تمام خدشات کو غلط ثابت کر دیا۔“ سائٹ نے مزید لکھا کہ ”وزیراعظم نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے یمن جنگ کے حوالے سے اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں یہ بات واضح کر دوں کہ پاکستان یمن جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ سعودی یمن جنگ کی وجہ سے امت مسلمہ شدید تکلیف میں ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس جنگ میں ثالث بن کر اس جنگ کو ختم کروائیں گے۔"
 
اس تمام پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ 7 نومبر 2018ء کو پاکستان کے وزیراعظم نے سعودی عرب کی سرپرستی میں قائم یمنی گروہ کے سفیر محمد مطہر العشبی سے ملاقات کے موقع پر جو مجموعی نقطہ ¿ نظر اختیار کیا، اس نے پاکستان کی یمن مسئلے پر غیر جانبداری کو مشکوک بنا دیا ہے، کیونکہ اس ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ منصور ہادی کی حکومت کی بحالی کے لئے ہم حمایت جاری رکھیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان یو این قرارداد کے مطابق یمن مسئلے کا حل چاہتا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ پاکستان منصور ہادی کی حکومت کی بحالی کا حامی ہے۔
 
جو لوگ یمن کے تنازع پر نظر رکھتے ہیں، وہ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان سے بہت اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنا وزن سعودی پلڑے میں ڈال دیا ہے، کیونکہ یمنی دارالحکومت صنعا پر انصار اللہ اور ان کے ساتھیوں کا کنٹرول ہے اور یمن کے بیشتر علاقوں پر آج بھی ان کی حکومت قائم ہے۔ منصور ہادی 2015ء میں باقاعدہ استعفیٰ دے کر ایوان صدر سے نکل آئے تھے، بعدازاں سعودی عرب نے ان سے رابطہ کرکے انہیں ریاض میں بلایا اور پھر انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ آپ اس استعفیٰ سے دستبردار ہو جائیں، ہم آپ کی بحالی کے لئے یمن پر حملہ کریں گے۔ چنانچہ اس کے بعد ایک فوجی اتحاد تشکیل دے کر سعودی عرب نے یمن پر فضائی اور زمینی حملوں کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں سب سے آسان ہدف انہوں نے عدن کی بندرگاہ کو سمجھا۔ اس وقت سے اب تک عدن اور اس کے مضافات کا کچھ حصہ متحدہ عرب امارات اور اس کے حامیوں کے کنٹرول میں ہے۔ کچھ علاقہ القاعدہ کے قبضے میں ہے۔
 
چند ماہ قبل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے یمن کی ایک اور بندرگاہ الحدیدہ پر چڑھائی شروع کر دی۔ یاد رہے کہ الحدیدہ ہی وہ واحد بندرگاہ رہ گئی تھی، جس کے ذریعے سے یمنی عوام تک خوراک اور دوائیوں کی ترسیل کا سلسلہ جاری تھا، ورنہ یمن کے چاروں طرف سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ زمینی حصہ پر تو خود سعودی افواج موجود ہیں اور سمندروں میں ہر آنے جانے والی کشتی کو سعودی فوجی اتحاد کے سپاہی چیک کرتے ہیں۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی مسلسل گولہ باری اور بمباری سے اس وقت تک یمن میں تقریباً پندرہ ہزار سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں اور تقریباً چوبیس ہزار زخمی ہیں، ان میں سے زیادہ تر عام شہری ہیں۔ ہوائی اڈے، بندرگاہیں، پل، سڑکیں، برقی تنصیبات، گرڈ اسٹیشنز، پانی کے ذخائر، سرکاری ادارے، مسجدیں، ہسپتال، سکول، یونیورسٹیاں غرض ہر چیز بہت بری طرح سے تباہ و برباد ہوچکی ہے۔ عوام میں سے بیشتر کے پاس ایک وقت کی بھی خوراک نہیں ہے، بھوک سے بچے بلک رہے ہیں، ان کی تصویریں دیکھی نہیں جاتیں، اس کے باوجود سعودی عرب اور اس کے حواری اس مسلط کردہ جنگ کو روکنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔
 
رہی یہ بات کہ پاکستان یمن کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت کرتا ہے تو کیا پاکستان تمام امور میں اس اصول کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے؟ تو کیا پاکستان اسرائیل کو بھی ایک جائز ریاست تسلیم کرتا ہے؟ کیونکہ اقوام متحدہ کے نزدیک تو اسرائیل ایک جائز ریاست ہے۔ اقوام متحدہ کے حوالے سے دیگر بہت سارے سوالات بھی ہیں، ابھی تک اقوام متحدہ نے پاکستان کی جوہری طاقت کو بھی جائز تسلیم نہیں کیا۔ اقوام متحدہ تو بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے، نہ کہ مظلوم قوموں کے مفادات کا۔ اس میں کس کو شک ہے کہ اقوام متحدہ بڑی طاقتوں کا آلہ کار ہے۔ اس کی تمام قراردادوں کو مقدس قرار دے کر پاکستان اپنے مفادات کا بھی تحفظ نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ کسی کے مفادات کی بات کی جائے۔
 
یمن کے اندر اگر یمنیوں ہی کے مابین اختلاف ہوگیا ہے تو فریقین یمنی ہی ہیں، سعودی عرب کی جارحیت کو ختم کرکے یمنیوں کے مابین بیٹھ کر بات کی جائے تو پھر کہا جائے گا کہ ہم ثالثی کروانے کے لئے آئے ہیں۔ اس مقام پر غیر جانبدار ہونے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کے نقطہ نظر کو سپورٹ کرکے آپ اپنے آپ کو ثالث نہیں کہہ سکتے۔ اس کے بعد اپنے آپ کو ثالث کہنا، اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے یا دوسروں کو، حقائق کو جاننے والے یہ دھوکہ نہیں کھا سکتے، یہ جانبداری ہے ثالثی نہیں۔ اس بات کو ایک مثال کے ذریعے ہم واضح کرتے ہیں کہ اگر افغانیوں کے دو گروہوں میں اختلاف ہو اور ان میں سے ایک گروہ کابل پر حکمران بن جائے تو کیا پاکستان کو دوسرے گروہ کی حمایت میں افغانستان پر زمینی اور فضائی حملہ کر دینا چاہیے؟ کیونکہ یمن کے مسئلے پر سعودی عرب نے امریکی سرپرستی میں یہی کیا ہے، کیا اس طرح سے پاکستان کے اقدام کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے اور کیا پھر سعودی عرب پاکستان کی اور پاکستان کے حمایت یافتہ گروہ کی حمایت کرکے ثالث قرار پا سکتا ہے۔؟ قرآن کہتا ہے:"فَاَی ±نَ تَذ ±ہَبُو ±نَ(تکویر:۶۲) تم کدھر کو جا رہے ہو۔"
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
(حسرت موہانی)
خبر کا کوڈ : 760201
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Greece
آج کل اسلام ٹائمز کے خلاف کوئی خاص گروہ متحرک ہے جو چھپ کر خنجر گھونپنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لہذا کسی کے منفی کمنٹس معیار نہیں ہیں بلکہ اب اللہ کے فضل و کرم سے اسلام ٹائمز خود ایک معیار کا نام ہے۔
منافقین کی عاقبت ذلت و رسوائی ہی ہے۔ان شاء اللہ اس حربے میں بھی ذلیل و رسوا ہونگے۔
احسن شبیر
Poland
محترم ثاقب اکبر صاحب سمیت اسلام ٹائمز کے تجزیہ نگاروں کی اکثریت اپنے شعبے کے ماہرین یا کافی حد تک منجھے ہوئے افراد پر مشتمل ہے اور اس فورم پر ان سے حسن استفادہ لائق تحسین ہے، لیکن ایک محترم مولوی صاحب کی تحریروں پر بعض سوالات کے بعد محترم لکھاریوں پر بلاوجہ کے فقرے کسے گئے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ محترم ثاقب اکبر صاحب کی تحریر پر ایسا کوئی شاہی حکم صادر نہیں ہوا۔ یمن سمیت مستضعفین جہان کے کسی بھی ایشو پر جتنا لکھا جائے کم ہے، بلکہ ہم تو محترم ثاقب صاحب سے درخواست کریں گے کہ بحرین اور نائیجیریا کے مستضعفین، برما کے روہنگیا مظلوموں سمیت ہر مظلوم کے حق میں لکھیں۔ ہم بھی دیکھتے ہیں کہ کون روکتا ہے۔
ہماری پیشکش