0
Saturday 10 Nov 2018 19:30

حکمرانو، احتیاط راہ نجات ہے

حکمرانو، احتیاط راہ نجات ہے
تحریر: محمد حسن جمالی
 
 احتیاطی تدبیر ہر مشکل کو آسان بنا دیتی ہےـ ہماری سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، فردی اور اجتماعی زندگی کی اکثر مشکلات و مسائل عدم احتیاط کی پیداوار ہوتے ہیں، جیسے بہت سارے لوگ احتیاط کا دامن چھوڑنے کے سبب جسمی و روحی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ان کو کینسر جیسا خطرناک جان لیوا مرض لاحق ہو جاتا ہے، اسی طرح کبھی ملک کے حکام اور ذمہ داروں کی بے احتیاطی کے باعث ناقابل جبران خسارہ قوم کے حصے میں آتا ہے، اسی لئے عقلمند لوگ اپنی زندگی کے تمام ادوار میں احتیاط کو بڑی سنجیدگی سے اہمیت دیتے ہیں، کیونکہ وہ اس حقیقت پر باور قلبی رکھتے ہیں کہ احتیاط راہ نجات ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدم احتیاط کا سبب کیا ہے؟ جواب واضح ہے کہ اس کا سبب غفلت و لاپرواہی ہےـ غفلت، انسان، ملک اور قوموں کی ترقی و پیشرفت کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتی ہےـ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو مفلوج کر دیتی ہےـ یہ ایک ایسی خطرناک شئے ہے، جو قوموں کو تباہ اور مملکت کا شیرازہ بکھیر دیتی ہےـ  غافل لوگ تحرک کے بجائے جمود و رکود کا شکار ہو جاتے ہیںـ اس بری صفت کے حامل افراد کسی کام کے نہیں ہوتے، ان سے کسی چیز کی توقع رکھنا عبث و لغو ہے، ایسے لوگ دوسروں کو نقصان تو پہنچائیں گے مگر وہ نفع نہیں پہنچا سکتے۔

ماضی میں پاکستان کے غافل حکمرانوں کی بے احتیاطی اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک اور قوم کا بہت نقصان ہوا ہے، جس کی مثال جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں نمایاں طور پر دیکھی جاسکتی ہےـ اس سلسلے میں نیوز ایکسپریس کے کالم نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان  کے 10 نومبر 2018ء کو شائع ہونے والے کالم کے درمیانی حصے پر توجہ کرنا کافی ہوگاـ وہ لکھتے ہیں: "جنرل ضیاء الحق نے جب ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو پھانسی دی تھی تو پاکستان پوری دنیا میں تنہا رہ گیا تھا۔ امریکہ کی خفیہ تنظیم سی آئی اے نے افغانستان میں نور محمد تراکئی کی کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کا پروجیکٹ شروع کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی۔ جنرل ضیاء الحق نے اس پروجیکٹ میں شرکت کے لئے بعض مذہبی جماعتوں کو شامل کیا۔ سی آئی اے کے تھنک ٹینک نے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے جہاد کو برآمد کرنے کی حکمت عملی تیار کی، یوں افغانستان میں یہ پروپیگنڈا زور و شور سے ہوا کہ افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے قیام سے مسلمانوں کو خطرہ ہے۔

اس صورتحال میں بااثر وار لارڈز کو افغانستان چھوڑنے پر آمادہ کیا گیا، یوں ان وار لارڈز کے ساتھ ان کے قبیلے کے افراد بھی ہجرت کرکے پاکستان میں داخل ہوئے۔ مسلمان ممالک میں مذہبی انتہاء پسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا اور انہیں جہاد کے لئے افغانستان بھیجا جانے لگا، اسامہ بن لادن سمیت بہت سے جنگجو پشاور، اسلام آباد و کوئٹہ میں آباد اور افغانستان منتقل ہوئے۔ حکومت نے مذہبی انتہاء پسندی کو نسل در نسل منتقل کرنے کے لئے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلیاں کیں اور سائنس، سماجی سائنس، تجارت غرضیکہ ہر شعبے میں انتہاء پسند داخل ہوئے۔ مدارس کا پورے ملک میں جال بچھا دیا گیا۔ اربوں ڈالر کی امداد نے مدرسوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا۔ افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی اور پھر سوویت یونین کے عالمی نقشے سے غائب ہونے کے بعد اب جہاد کا رخ امریکہ کی طرف ہوا۔ افغانستان میں ملا عمر کی خلافت قائم ہوئی اور اسامہ بن لادن، ملا عمر کے اتالیق مقرر ہوئے، افغانستان میں بھیانک طرز حکومت کا تجربہ ہوا۔

نائن الیون کے بعد ان مذہبی انتہاء پسندوں نے پاکستان میں کمین گاہیں قائم کیں۔ جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کا ساتھ دینے کا فیصلے کیا تو یہ انتہاء پسند ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ یہی وجہ تھی کہ مذہبی دہشت گردی شہر شہر پھیل گئی، مگر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں ان مذہبی انتہاء پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ شروع ہوا، پاکستان سے ہجرت کرنے والے ایک عالم کینیڈا سے واپس آئے اور اسلام آباد میں پہلا دھرنا ہوا۔ تحریک انصاف والے اس دھرنے کے سب سے زیادہ حمایتی بنے۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ملک بھر میں جنون اور خوف کی فضا بنی۔ دائیں بازو کی جماعتیں بشمول مذہبی تنظیمیں اس فضا کو تقویت دیتی رہیں۔ پنجاب انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی سے ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ہوا، مگر ڈاکٹر طاہر القادری انتہاء پسند قوتوں کی ہر مسئلے پر نکل کر حمایت نہیں کرتے تھے، اس بناء پر معاملہ بہت زیادہ اجاگر نہ ہوا۔
 
تحریک انصاف کی موجودہ حکومت میں بھی جنرل ضیاءالحق کی خارجہ غلط پالیسی تکرار ہونے کے واضح اشارے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ سعودی عرب کے دوسرے دورے سے پہلے تک عمران خان جگہ جگہ یہ اعلان کرتے رہے کہ ہم یمن کے مسئلے پر غیر جانبدار رہیں گے، مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں ہم شریک نہیں ہوں گےـ چنانچہ انہوں نے اپنے اس طرح کے اعلانات اور نیا پاکستان بنانے کا قوم سے وعدہ کرکے عوام کو اعتماد میں لیا اور بالآخر انہیں کی حمایت اور ووٹ کے ذریعے وہ اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئےـ ملک کا وزیراعظم بننے کے بعد بھی مسئلہ یمن کے حوالے سے وہ اپنے سابقہ عزم پر ڈٹے رہنے کا مختلف جگہوں پر، جلسوں میں اظہار و اعلان کرتے رہے، لیکن وزیراعظم صاحب نے جب سعودی عرب کا دوسرا دورہ کیا ہے اور اس سے قرضے کی مد میں خطیر رقوم وصول کی، تب سے یمن جنگ کے بارے میں ان کا ارادہ یکسر طور پر بدلتا دکھائی دے رہا ہےـ ہمیں سعودی ریال کے برے اثرات مشاہدہ کرنے کو مل رہے ہیں۔

عمران خان نے سعودی سفیر محمد مطہر العشبی سے ملاقات کے دوران دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا کہ منصور ہادی کو دوبارہ برسراقتدار لانے کے لئے سعودی عرب جو کوشش کر رہا ہے، ہم اس کی بھرپور تائید کرتے ہیں اور پاکستان اس حوالے سے پوری طرح اپنی حمایت جاری رکھے گاـ اس کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہتا ہے کہ یمن جنگ میں ثالثی کردار ادا کرنے کا برملا اظہار کرنے والے عمران خان سعودی عرب کی جانبداری کرکے ایک بار پھر خارجہ پالیسی میں پاکستان کی ناکامی کا منہ دنیا کو دکھانے کے درپے ہیں۔ یاد رہے کہ یمن کے مظلوم عوام پر سعودی عرب فقط اسرائیل کی خشنودی حاصل کرنے کے لئے ناجائز طور پر مظالم کے پہاڑ گر رہا ہےـ سعودی عرب کی حمایت کرنا ظالم کی حمایت ہے، جو ظالم کی حمایت کرتا ہے، وہ بھی ظالم کی صف میں شامل ہوتا ہے۔
 
 اگر تین سال سے سعودی عرب اہل یمن کے غریبوں کے خون ناحق کو سمندر میں غرق کر رہا ہے تو ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ظلم سے بے خبر ہے بلکہ مختلف آیات قرآنی کے مطابق اللہ ظالموں کو مہلت دیتا ہے۔  سورہ ابراہیم  آیت 41 میں خدا فرماتا ہے: ولا تحسبن الله غافلا عما یعمل الظالمون انما یؤخرھم لیوم تشخص فیہ الابصارـ "خبردار خدا کو ظالمین کے اعمال سے غافل نہ سمجھ لینا کہ وہ انہیں اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے، جس دن آنکھیں خوف سے پتھرا جائیں گی۔" سورہ ہود آیت 113 میں فرمایا: ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ومالکم من دون الله من اولیاء ثم لا تنصرون "اور خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاؤ اختیار نہ کرو، تاکہ جہنم کی آگ تمہیں چھولے گی اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی سرپرست نہیں ہوگا اور تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی۔"

ہمارے خیال میں تحریک انصاف کی حکومت کو آنکھیں کھول کر اس غلط فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیئے اور جنرل ضیاء الحق سمیت ماضی کے حکمرانوں کی غلط خارجہ پالیسیوں کے نتیجے میں قوم و ملک کو پہنچے ہوئے خسارے اور نقصانات سے درس عبرت لیتے ہوئے ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیاں مرتب کرنے میں احتیاطی تدبیر اختیار کرنا چاہیں۔ یمن جنگ جیسے حساس مسئلے میں جارح سعودی عرب کی حمایت کرنا کسی بھی صورت میں پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، پاکستانی قوم ظالم کی حمایت کرنے کو جمہوریت کا جنازہ نکالنے کا مترادف سمجھتی ہےـ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو کم از کم اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے انصاف سے مسائل اور معاملات کو نمٹانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور یمن جنگ کے حوالے سے بالکل غیر جانبدار رہ کر ثالثی کردار ادا کرتے ہوئے یمن جنگ کی آگ بجھانے میں بھرپور تعاون کرنا چاہیئےـ بس ہم اپنے حکمرانوں سے اتنا عرض کریں گے کہ حکمرانو، احتیاط راہ نجات ہے۔
 
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
اس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی
ظالم کی کوئی ذات نہ مذہب نہ کوئی قوم
ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے
پھلتی نہیں ہے شاخ ستم اس زمین پر
تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے
کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی
یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے (ساحر لدھیانوی)
مسئلہ یمن پر ہمارے اہل قلم کچھ لکھیں یا نہ لکھیں، ہم تو اس موضوع پر قلم اٹھانے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
خبر کا کوڈ : 760397
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش