0
Sunday 25 Nov 2018 23:27

پاک امریکہ تعلقات کا نیا دور، گمان یا حقیقت

پاک امریکہ تعلقات کا نیا دور، گمان یا حقیقت
 رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پاک امریکہ تعلقات کی گہرائی اور وسعت کو سمجھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بارے میں حتمی رائے قبل از وقت ہوگی، البتہ امریکی صدر ٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں احمقانہ ٹویٹ کے جواب میں عمران خان کا دلیرانہ قومی غیرت و حمیت پر مبنی بیان پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ میں یادگار رہے گا۔ وزیراعظم کے قومی موقف کو اپوزیشن کی جماعتوں نے بھی سراہا ہے۔ جو قابل ستائش رویہ ہے۔ صدر ٹرمپ کا حالیہ بیان دہشت گردی کیخلاف جنگ کے میں پاکستان اور امریکہ کے اشتراک اور تعاون پر سوالیہ نشان ہے۔ جنرل ایوب اور جنرل ضیاء الحق روس کیخلاف جاسوسی اور جنگوں میں امریکہ کے حلیف رہے، جنرل مشرف امریکہ کی سرپرستی میں بنائے گئے مجاہدین جب دہشت گرد قرار دیئے گئے تو ان کے خاتمے کی جنگ میں اتحادی رہے۔ امریکہ نے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کیلئے فوجی حکومتوں کو تحفظ فراہم کیا لیکن غیر یقینی کے سائے ہمیشہ منڈلاتے رہے۔ صرف ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان جیسے سول حکمرانوں نے امریکہ سے شکوے کیے اور جواب دیئے۔

نواز شریف کی پارٹی نے حالنکہ فوج کی کھوکھ سے جنم لیا تھا کہ لیکن انہوں نے صرف اپنی افواج کو ٹوئیٹر پر جواب دیئے اور جواب میں سخت ٹوئیٹ پائے۔ موجودہ وزیراعظم کے بیان کے بعد پینٹاگون نے ڈیمج کنٹرول کے لئے مفاہمانہ بیان جاری کرکے پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے متوازن تحریری بیان جاری کیا، جس میں امریکی صدر کے موقف کی تائید کرتے ہوئے پاکستان سے دوستانہ تعلقات جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ وزارت خارجہ نے امریکی سفیر کو طلب کرکے موثر اور جامع الفاظ میں رد عمل کا اظہار کیا۔ پاک فوج کے سپہ سالار نے باجوہ ڈاکٹرئن کے مطابق دو ٹوک بیان جاری کیا۔ پاکستان کے ریاستی ادارے اور عوام پہلی بار ایک پیج پر نظر آئے۔ اگر عمران خان کے اثاثے پاکستان سے باہر ہوتے تو ان کے لئے ریاست کی آزادی اور خود مختاری کا دفاع آسان نہ ہوتا۔ پاکستان کا وزارت خارجہ سیکرٹریٹ اہلیت اور مہارت کے اعتبار سے پوری دنیا میں اپنا وقار رکھتا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران بوجوہ اسے مفلوج بنادیا گیا۔

خارجہ امور کی حساسیت اور قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ فارن آفس کو بائی پاس نہ کیا جائے وزیراعظم اور کابینہ کے وزراء فارن آفس کی مشاورت کے بعد خارجہ امور پر بیانات جاری کریں۔ امریکہ آج بھی دنیا کی سپرپاور ہے۔ پاکستان جیسا مقروض اور غریب ملک امریکہ کی دشمنی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سفارت کاری کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک متوازن خارجہ پالیسی تشکیل دینے میں کامیاب رہیں گے۔ ہرملک کی خارجہ پالیسی اس کی داخلہ پالیسی کا چہرہ ہوتی ہے۔ اندرونی استحکام ہی کامیاب خارجہ پالیسی کا ضامن بن سکتا ہے۔ میاں نواز شریف نے امریکی دبائو کے باوجود ایٹمی دھماکہ کیا اور کارگل مہم جوئی کے بعد پاکستان سلامتی کے بحران سے باہر نکالا، میاں صاحب امریکہ کے پسندیدہ لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں امریکی صدر کلنٹن نے مشرف دور میں ان کی جان بچانے کے لئے خصوصی دلچسپی لی۔ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد امریکی نائب سیکرٹری دفاع آرمیٹج کی ایک فون کال پر امریکہ کی سات شرائط مان کر پاکستان کو امریکی جنگ میں جھونک دیا۔

امریکی انتظامیہ کے قریبی صحافی باب وڈ نے اپنی کتاب بش ایٹ وار میں تحریر کیا کہ جب صدر بش کو بتایا گیا کہ پاکستان کے کمانڈو صدر جنرل مشرف نے امریکہ کی سات شرائط تسلیم کر لی ہیں تو بش نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ پاکستان امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کپڑے اتروا لے گا، تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار پرست آمر جرنیلوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ آصف زرداری نے امریکہ سے خصوصی ذاتی تعلقات استوار کیے۔ کیری لوگر بل اور میمو گیٹ ان کے دور کی یادگار ہیں۔ بے نظیر بھٹو شہید نے مشکلات کے باوجود اپنے عظیم والد کی پالیسی اور مشن کو آگے بڑھایا اور پاکستان کے دفاع کو ایٹمی میزائل سے مسلح کیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل نے راقم کو بتایا کہ امریکی اہل کاروں نے ان سے بے نظیر کے بارے میں کہا کہ LADY HAS LET US DOWN یعنی خاتون نے ہمیں زچ کیا ہے۔ معروف صحافی زاہد حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بے نظیر اکثر کہتی تھیں کہ نارتھ کوریا کے ساتھ میزائل ڈیل کی وجہ سے امریکہ نے ان کی دوسری حکومت ختم کرنے کے لئے سازش کی۔

جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کے لئے پاکستان کو امریکی کالونی بنا دیا۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کرتے۔ رچرڈ ریوس نے اپنی کتاب میں تحریر کیا کہ امریکہ کو فرنٹ لائن سٹیٹ کی ضرورت تھی اور ضیاء حکومت کو نہ صرف امریکی ڈالر اور مہارت کی ضرورت تھی بلکہ اسے اقتدار کے لئے اخلاقی جواز بھی چاہئے تھا۔ ضیاء الحق نے نفرت، تشدد اور انتہا پسندی کے جو بیج بوئے پاکستانی قوم اس کی فصل آج بھی کاٹ رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سوشلسٹ اور نیشنلسٹ لیڈر تھے۔ انہوں نے وزیر خارجہ کی حیثیت میں پاکستان چین دوستی کو مستحکم بنایا تھا۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو آزاد اور خودمختار بنانے کی کوشش کی۔ کامیاب اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد اور ایٹمی صلاحیت ان کے دو بڑے یادگار کارنامے ہیں۔ ہنری کسنجر نے بھٹو شہید کو عبرتناک مثال بنانے کی دھمکی دی مگر وہ قومی مئوقف پر ڈٹے رہے۔ امریکہ نے عاقبت نااندیش اور اقتدار پرست جرنیلوں کے ذریعے بھٹو شہید کو سیاسی منظر سے ہٹا دیا۔

جنرل یحییٰ خان نے جنرل ایوب خان کے انتباہ کے باوجود امریکہ پر انحصار کیا اورامریکہ و چین میں دوستی کرا دی ہنری کسنجر نے اپنی کتاب میں تحریر کیا کہ پاکستان نے امریکہ چین تعلقات کی بنیاد رکھی اور کوئی معاوضہ بھی طلب نہ کیا (کسنجر: WHITE HOUSE YEARS)۔ پاک بھارت جنگ 1971ء کے دوران امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان سے بے وفائی کی اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ جنرل ایوب خان پاک امریکہ تعلقات کے بانی تھے۔ انہوں نے امریکہ روس سرد جنگ کے دوران کھل کر امریکہ کا ساتھ دیا یہاں تک کہ بڈبیر پشاور میں امریکہ کو فوجی اڈہ بنانے کی اجازت دے دی۔ جنرل ایوب خان نے 1953ء میں آرمی چیف کی حیثیت میں امریکہ کا دورہ کیا ا ور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ آفیسر سے کہا  کہ حضرت عیسیٰؑ کے لئے میں یہاں فوجی بیرکیں دیکھنے کے لئے نہیں آیا اگر آپ چاہیں ہماری فوج آپ کی فوج ہو سکتی ہے بشرطیکہ ہم کوئی فیصلہ کر لیں۔ جنرل ایوب خان نے امریکی صدور سے ذاتی تعلقات قائم کیے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکی چہرہ بے نقاب ہوا اور جنرل ایوب خان نے اپنی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں امریکہ کو دھوکے باز قراردیا اور اپنی ڈائری میں فروری 1967ء کو امریکہ کے بارے میں سیاسی فتویٰ تحریر کر دیا کہ امریکہ اور برطانیہ نے جمہوریت کو جمہوریت کے نام پر نقصان پہنچایا۔

انہوں نے ہمیں پاکستانی نظام تشکیل نہ دینے دیا۔ دونوں بددیانت ہیں اور نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے۔ 1952ء میں پاکستان کی غذائی قلت کے موقع پر ایک لاکھ ٹن گندم فراہم کی جب گندم کراچی پہنچی تو ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال ہونے والے اونٹوں کی گردنوں پر تھینک یو امریکہ کے کتبے لٹکائے گئے۔ سکندر مرزا کی امریکہ سے قربت اس قدر بڑھ گئی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی امریکی سفیر کی بیٹی سے کر دی۔ لیاقت علی خان نے روس کے دورے کی دعوت مسترد کر کے مئی 1950ء میں امریکہ کا دورہ کیا اور واشنگٹن میں ایک رپورٹر کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر آپ کا ملک ہماری سرحدوں کی حفاظت کی ضمانت دے توپاکستان فوج ہی نہیں رکھے گا۔ امریکہ پاکستان کی فوجی امداد سے گریز کرتا رہا۔ امریکہ کے صدر ہلیری ٹرومین نے 15اگست 1947ء کو گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم کے نام ایک تہنیتی پیغام میں تحریر کیا ’’امریکی حکومت ا ور عوام آپ کے ملک کے ساتھ قریبی اور خوشگوار تعلقات کی توقع رکھتے ہیں۔ قائداعظم نے اپنے جوابی پیغام میں تحریر کیا کہ ہم آپ کی جانب سے دوستی اور خیرسگالی کے جذبات کی قدر کرتے ہیں میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان طویل قریبی اور خوشگوار تعلقات کا آغاز ہے۔

قائداعظم نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے تاریخی جملہ کہا کہ شیطان امریکہ جسے ہم جانتے ہیں اس شیطان روس سے بہتر ہے جسے ہم نہیں جانتے۔ قیام پاکستان کے بعد نئی ریاست شدید مالی مشکلات کا شکار تھی، بھارت نے پاکستان کے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے روک رکھے تھے۔ حکومت پاکستان نے امریکہ سے مالی تعاون کی درخواست کی امریکہ نے دوستی کے دعوئوں کے باوجود تعاون نہ کیا۔ قیام پاکستان کے وقت بھارتی لیڈروں نے امریکہ اور برطانیہ کو باور کرا رکھا تھا کہ پاکستان بہت جلد بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا اور ہندوستان کے ساتھ مل جائے گا۔ قائداعظم اور لیاقت خان نے بھارتی عزائم کو پورا نہ ہونے دیا۔ بھارت نے جارحیت کرتے ہوئے کشمیر میں اپنی فوج داخل کردی۔ امریکہ نے پاکستان سے تعاون کرنے کی بجائے بھارت اور پاکستان دونوں پر فوجی امداد کی ترسیل پر پابندی عائد کر دی جو 29 مارچ 1948ء تک جاری رہی۔ بھارت آج تک کشمیریوں پہ ظلم ڈھا رہا ہے، امریکہ نے ایک بار پھر امداد بند کر دی ہے۔ موجودہ حکومت کے متعلق ایک خوش گمانی فی الحال موجود ہے کہ یہ نئے اور آزاد پاکستان کی بنیاد رکھیں گے، عمران خان کے ٹوئیٹ کی روشنی میں پاک امریکہ تعلقات کو بھی اس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ عمران خان کو مخالفین پاکستانی ٹرمپ کہتے ہیں، اگر یہ نیا موڑ پاکستان کیلئے نیا دور شمار ہوگا تو امریکہ کو بھی نئے اتحادی تلاش کرنا پڑیں گے۔
خبر کا کوڈ : 763153
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش