1
Monday 21 Jan 2019 20:14

عطائی ڈاکٹر موت کے سوداگر

عطائی ڈاکٹر موت کے سوداگر
رپورٹ: ایس علی حیدر

2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ مرکز میں بھی اقتدار میں آئی تو عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے قوم سے وعدہ کیا کہ دیگر شعبوں سے کرپشن کے خاتمے کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے پر بھی بھرپور توجہ دی جائے گی اور اس شعبے سے کالی بھیڑوں کو نکال باہر کیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد ظاہر ہے کہ صحت سے متعلقہ اداروں نے کمر کس لی اور گذشتہ دور حکومت میں بھی شعبہ صحت میں مختلف اصلاحات متعارف کرائی گئیں، تاہم صحت کے شعبے میں سوشل میڈیا پر ترقی تو دیکھنے میں آئی، تاہم عملی طور پر سرکاری ہسپتالوں کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جا رہی ہے، جہاں غریب مریض اب بھی رلتے رہتے ہیں، جبکہ وی آئی پیز کو سرکاری ہسپتالوں میں بھی وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے۔ جس کا کوئی نہیں ہوتا وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے اور جو صاحب حیثیت ہوتا ہے، وہ وسائل رکھنے کے باوجود مفت کی سرکاری سہولیات سے بھرپور طریقے سے مستفید ہوتا ہے۔ دوسری جانب عطائیت کا بازار گرم ہے، بعض نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی لوٹ مار کے باعث عام بیماری کے علاج کیلئے آنے والے مریضوں کو بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔

نجی کلینکس میں ڈاکٹروں کی فیسوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب عطائی ڈاکٹروں نے لوٹ مار کا الگ بازار گرم کر رکھا ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبہ بھر میں عطائیت عروج پر ہے اور غیر مستند افراد مسیحا بن کر قیمتی انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں، جن کیلئے حکومت نے ہیلتھ کیئر کمیشن سمیت بعض دیگر ادارے بھی قائم کر رکھے ہیں اور ان اداروں پر قومی خزانے سے سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں، تاہم جعلی ڈاکڑوں اور کلینکس کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر روز جعلی کلینکس میں لوٹے جانے والے مریضوں کی داستانیں منظر عام پر آرہی ہیں۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی گئی ہے، جو عطائی ڈاکٹروں کے ہاتھوں لٹنے والے ایک مریض نے دائر کی ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس قیصر رشید اور جسٹس قلندر علی خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے رٹ پٹیشن کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران فاضل بنچ نے محکمہ صحت کی کارکردگی پر عدم تسلی اور برہمی کا اظہار کیا۔ پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس قیصر رشید نے کہا کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے عناصر اور عطائیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر صوبہ گیر آپریشن کیا جائے۔

ایف آئی اے کی موجودگی کے باوجود ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ بعض افراد نے اس جرم کو پیسے بٹورنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے، مگر ایسے افراد کے خلاف ایف آئی اے ایکشن کیوں نہیں لے رہی؟ صوبائی حکومت نے میڈیکل ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی بنائی ہے، مگر اس کے نتائج نظر نہیں آرہے۔ صحت اہم شعبہ ہے، جس پر توجہ دیں۔ فاضل جسٹس نے یہ ریمارکس غیر قانونی پیوندکاری سے متعلق کیس کے دوران دیئے۔ کیس کی سماعت جسٹس قیصر رشید اور جسٹس قلندر علی خان پر مشتل دو رکنی بنچ نے کی۔ ایف آئی اے افسران نے عدالت کو بتایا کہ شکایات پر کارروائیاں جاری ہیں، جہاں سے بھی شکایت ملتی ہے، کارروائی کرتے ہیں، جس پر قیصر رشید نے کہا کہ صرف ایک جگہ پر فوکس کرنے کی بجائے پورے صوبے میں گردوں کی پیوند کاری میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریں، ایسے لوگ انسانیت کے دشمن ہیں۔ دوران سماعت ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر آذر سردار نے عدالت کو بتایا کہ عوام میں شعور اجاگر کرنے کیلئے اخبارات میں اشتہارات جبکہ کیبل آپریٹر کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں صوبہ بھر میں پوسٹرز آویزاں کئے جا رہے ہیں اور سیمینار کا انعقاد ہو رہا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ 2 ہزار سے زائد لیبارٹریاں اور پرائیوٹ سینٹر بند کر دیئے گئے ہیں، جو صحت کے معیار کے مطابق نہیں تھے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے پیوندکاری سے متعلق ریگولیٹری اتھارٹی بنائی ہے، جس کا اپنا سربراہ ہے۔ ایچ سی سی ہسپتالوں میں سہولیات اور عطائیوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی جا رہی ہیں اور عوام میں آگاہی مہم کے بعد اور بھی تیزی آجائے گی۔ ہیلتھ کئیر کمیشن، ایف آئی اے اور ایم ٹی آر اے نے عدالتی احکامات پر باقاعدہ اجلاس منعقد کئے ہیں، جس میں اس حوالے سے لائحہ عمل بھی تیار کیا گیا ہے۔ ٹی آر اے کے سربراہ ڈاکٹر آصف نے عدالت کو بتایا کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے ابھی اس اتھارٹی نے فعال کام شروع نہیں کیا ہے، کیونکہ فنڈز کمی کا سامنا ہے، عملہ بھی بھرتی کرنا ہے، جس پر عدالت نے ایڈیشنل سیکرٹری صحت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کو ریلیف دیں، فنڈز کی کمی کو پورا کریں، ہم نہیں چاہتے کہ عوام متاثر ہوں۔ ڈاکٹر آصف نے عدالت کو بتایا کہ عوام میں شعور نہ ہونا ایسے واقعات کا بڑا سبب ہے، ہم ٹرانسپلانٹیشن ڈے بھی منا رہے ہیں۔ جسٹس قیصر رشید خان کا کہنا تھا کہ نجی ہسپتالوں سے قصاب خانے بنے ہوئے ہیں اور مسیحاؤں کے روپ میں قصابوں کو انسانی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ان انسان دشمنوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہوچکی ہے، صرف کلینک اور ہسپتال سربمہر کرنے سے کام نہیں چلے گا، مسئلہ تب حل ہوگا، جب انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں۔ یہ سنجیدہ مسئلہ ہے، اس پر آنکھیں بن نہیں کرسکتے، کسی بھی انسانی جاں کے ضیاع سے قبل کارروائی ہونی چاہیئے۔

جسٹس قلندر علی خان نے کہا ہے کہ افسوس کا مقام ہے کہ صحت سے متعلق اتنے ادارے ہیں، اس کے باوجود لوگ انصاف کیلئے عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ جسٹس قیصر رشید نے کہا کہ ایف آئی اے ایسے عناصر کو بےنقاب کرے، ایف آئی اے اور صحت کے شعبے سے متعلق ادارے کیا کر رہے ہیں، ان کے سامنے سب کچھ ہو رہا ہے اور انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ لوگ غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اس موقع پر سیکرٹری صحت، ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور ایف آئی اے سے جامع رپورٹ بھی طلب کی گئی۔ قبل ازیں رٹ کی سماعت شروع ہوئی تو اس موقع پر سیکرٹری صحت ڈاکٹر فاروق چیف ایگزیکٹو آفیسر آذر سردار اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ درخواست گزار کے چچا حبیب الله خان ساکن ڈیرہ اسماعیل خان کی پشاور کے نجی میڈیکل سینٹر میں گردے کی پیوند کاری کی گئی، تاہم لاکھوں روپے لینے کے باوجود مریض جانبر نہ ہوسکا، لہٰذا ملوث اہلکاروں اور ڈاکٹروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ چیف ایگزیکٹو ہیلتھ کیئر کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ عطائی مافیا کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور اب تک 2 ہزار سے زائد اَن رجسٹر کلینکس اور نجی ہسپتال سربمہر کئے ہیں، جس ہسپتال میں یہ آپریشن ہوا ہے ہہ 2018ء کے بعد سے مکمل بند ہے اور ہائیکورٹ کے احکامات کے بعد مزید 32 نجی آپریشن تھیٹرز کو سربمہر کیا گیا ہے، جن کے پاس مطلوبہ سہولیات نہیں تھیں۔

علاوہ ازیں کروڑوں روپے جرمانہ بھی ان ہسپتالوں سے قومی خزانے میں جمع کرایا گیا ہے، تاکہ انہیں اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے طور پر تمام قانونی ضابطے مکمل کرکے ہسپتالوں کو چلائیں۔ انہوں نے عدالت کو بھی بتایا کہ پورے صوبے میں ایسے اداروں اور عطائیوں کے خلاف کارروائی جاری ہے، جبکہ مختلف طریقوں سے ہیلتھ کیئر کمیشن کو مزید بہتر بنایا جا رہا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ مذکورہ کیس میں دو ملزموں کو گرفتار کرچکے ہیں اور مزید ملزموں کی گرفتاریوں کیلئے کارروائی جاری ہے۔ جسٹس قلندر علی خان نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ انسانی صحت سے متعلق ایک شکایات سیل قائم کیا جائے، افسوس کا مقام ہے کہ صحت سے متعلق اتنے ادارے ہیں اس کے باوجود لوگ انصاف کیلئے عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سکندر نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں، جس پر جسٹس قیصر رشید نے کہا کہ ہمیں آپ لوگوں کی کارکردگی کا پتہ ہے، احتساب کمیشن کی کارکردگی پوری قوم دیکھ چکی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے تمام فریقین کو 25 جنوری تک رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی اور چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا سیکرٹری فنانس کو فنڈز کی کمی دور کرنے کی ہدایت کے ساتھ ہی عدالت نے ہیلتھ کیئر کمیشن کو حکم دیا کہ وہ عطائیوں کے خلاف کریک ڈاون میں تیزی لائیں، کیس کی ساعت 25 جنوری تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔
خبر کا کوڈ : 773309
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش