0
Thursday 7 Feb 2019 12:51

سود کیا ہے؟

سود کیا ہے؟
تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

سود کا تعلق تجارتی معاملات سے ہے۔ تجارتی معاملات ایک لحاظ سے دو اقسام کے ہوتے ہیں:
1۔ نقد
2۔ ادھار
سود کا تعلق دونوں قسم کے معاملات سے ہے۔ اسلئے ہم ان کو جدا جدا زیر بحث لاتے ہیں۔

1۔ نقد معاملات:
جب لین دین ایک ہی وقت ہو، جیسے ایک گاہک نے پیسے دیئے اور دکاندار نے سامان دیا، تو ایسے معاملے کو نقد معاملہ کہا جاتا ہے، لیکن اگر طرفین میں سے کوئی ایک اپنی چیز تو ابھی دے، لیکن قیمت میں کوئی چیز کچھ وقت کے بعد لے تو اسے ادھار کہتے ہیں۔
نقد معاملے میں سود ہونے کیلئے تین شرائط:
الف: لین دین میں جنس ایک ہی ہو۔ جیسے گندم کے بدلے گندم یا سونے کے بدلے میں سونا۔ اگر جنس بدل جائے جیسے پیسے دے کر گندم لینا تو ایسے معاملے میں سود نہیں ہوگا۔
ب: جنس ایسی ہو جس کا لین دین ناپ یا تول کر ہو۔ جیسے دودھ لیٹر کے حساب سے یا گندم کلو کے حساب سے بیچی جاتی ہے۔ جو چیز گن کر بیچی جاتی ہو جیسے پاکستان میں کیلے تو اس میں سود نہیں ہوگا۔
ت: اضافہ معاملے میں شرط ہو۔ اگر اضافہ معاملے میں شرط نہ تو اور کوئی فریق اپنی طرف سے اضافہ دے تو یہ بھی سود نہیں ہوگا۔
اسلئے اگر کوئی انسان ایک من گندم ڈیڑھ من گندم کے عوض بیچے گا تو یہ سود ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں عام طور پر نقد معاملے میں سود دو مقامات پر ہوتا ہے:

1: برتن بیچنے والے آتے ہیں اور ٹوٹے ہوئے برتن لے کر بنے ہوئے برتن کم تول کے دیتے ہیں، جیسے دو کلوجست کے ٹوٹے ہوئے برتن لے کر مثال ایک کلو جست کے نئے برتن دیتا ہے، یہ سود ہے۔ 
2: اسی طرح سنار کرتا ہے کہ ٹوٹے ہوئے سونے کے مثال بیس گرام لے کر دس گرام بنے ہوئے سونے کے زیور دیتا ہے، یہ سود ہے۔
 اس کا حل یہ ہے کہ پہلے اپنی ٹوٹی ہوئی چیز پیسوں کے بدلے بیچی جائے پھر پیسوں کے بدلے نئے برتن یا زیور لئے جائیں۔
لیکن اگر جست کے بدلے میں اسٹیل کے برتن دینا یا سونے کے عوض چاندی کے زیور دینا اور اس میں اضافہ لینا سود نہیں ہے، کیونکہ اس میں جنس بدلی ہوئی ہے۔ اسی طرح دس کیلے کے بدلے 15 کیلے لینا سود نہیں، کیونکہ پاکستان میں ان کا لین دین گن کر ہوتا ہے۔ اسی طرح پرانے نوٹ ایک ہزار کے دے کر نئے نوٹ آٹھ سو کے دینا سود نہیں ہے۔ البتہ جس معاشرے میں کیلے تول کر بیچے جاتے ہیں وہاں اس پر اضافہ سود ہوگا۔ مثال ایک کلو کیلے لے کر دو کلو کیلے لینا سود ہوگا۔


تجارت میں ایک سودا ادھار کا ہوتا ہے۔ یعنی طرفین میں سے ایک جنس دیتا ہے اور واپسی میں کچھ عرصے کے بعد جنس لیتا ہے۔ اس میں بھی سود ہو سکتا ہے۔ ادھار میں سود ہونے کے لئے دو شرائط ہیں:
جنس ایک ہی ہو۔ جیسے گندم دے کر گندم لینا یا پیسے دے کر پیسے لینا، لیکن اگر جنس مختلف ہو جیسے پیسے دے کر گندم لینا تو اس میں سود نہیں ہوگا کیونکہ یہی تجارت ہے۔ اگر مجبور انسان سے حد سے زیادہ منافع لے تو یہ معاملہ ظلم میں جائے گا سود نہیں ہوگا۔
اضافہ معاملہ کرنے کے لئے شرط ہو۔ اگر اضافہ شرط نہ ہو اور جس کو قرض دیا ہے وہ اپنی طرف سے اضافہ دے تو یہ سود نہیں ہوگا۔
ادھار میں سود ہونے کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ جنس ناپ یا تول کر دی جاتی ہو، اگر ادھار میں جو جنس گن کر دی جاتی ہے وہ بھی قرض دے کے اس پر اضافہ لےگا تو بھی سود ہوگا۔
اضافہ چاہے کسی بھی صورت میں ہو سود ہوگا مثال: ایک ہزار روپے قرض پر دے کر ایک ہزار ایک سو روپے لینا سود ہے، اسی طرح ایک ہزار قرض دے کر ایک ہزار روپے اور ایک رومال لینا بھی سود ہے اور ایک ہزار قرض دے کر ایک ہزار روپیہ لینا اور اس کے ساتھ قرضدار سے کوئی خدمت لینا بھی سود ہے۔
اس طرح کے سود میں ہمارے معاشرے میں اکثر پیسے قرض دے کر سود لیا جاتا ہے۔
جس نے سود لیا ہے اس کے پاس جو سود کی رقم ہے وہ اس کی ملکیت نہیں بنے گی بلکہ اصل مالک کی ملکیت ہے اور اسے واپس کرنا پڑے گی۔
کچھ ایسے معاملات ہیں جو سود نہیں ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں اسے سود سمجھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 776797
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش