0
Thursday 14 Mar 2019 10:43

کالعدم جماعتیں، اس حمام میں سب ننگے ہیں؟

کالعدم جماعتیں، اس حمام میں سب ننگے ہیں؟
تحریر:  تصور حسین شہزاد

پاکستان میں کالعدم جماعتوں کی تعداد 70 سے تجاوز کرچکی ہے۔ یہ جماعتیں کیسے بنیں، کس نے بنائیں اور کیوں بنائیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ اس جرم کی پاداش میں سابق جنرل ضیاء الحق کو آج تک گالیاں دی جاتی ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ جنرل ضیاء الحق نے جہاں ان جہادی اور شدت پسند تنظیموں کی بنیاد رکھی، وہیں پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ کیا جانیوالا سلوک بھی ان کے ماتھے کا کلنک بن گیا اور یہ کلنک بھی تاریخ قیامت تک اپنے دامن میں محفوظ رکھے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ "مظلوم" بھٹو کی اولاد آج "ظالم" ضیاء کی اولاد کیساتھ ہاتھ ملا چکی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے اس "اتحاد" سے نظریئے کی موت واقع ہوچکی ہے۔ اب ایسے لگتا ہے کہ پاکستان میں نظریاتی سیاست کی بجائے "نظر آتی" سیاست ہی ہو رہی ہے۔ جس میں سب سے مقدم صرف اور صرف اقتدار کا حصول اور ذاتی مفاد ہے۔

جہاں تک جہادی تنظیموں کی بات ہے تو انہیں افغانستان میں جہاد کیلئے امریکہ کی ایماء پر ہی "قائم" کیا گیا اور ان کا اسٹرکچر اس انداز میں بنایا گیا کہ محاذ پر لڑنے والی جماعت اور ہوگی، اس کی پشت پر اسے مالی امداد دینے والی جماعت اور ہوگی اور ان دونوں جماعتوں کیلئے افرادی قوت پیدا کرنیوالی جماعت اور ہوگی۔ یوں تین سے چار مربوط جماعتوں کا اسٹرکچر تیار کیا گیا تھا۔ یہ حقیقت اب عیاں ہوچکی ہے کہ ریاست (ضیاءالحق) نے ہی ان جہادی تنظیموں کو وجود بخشا، اس جرم کا سارا ملبہ ضیاءالحق پر بھی نہیں ڈالا جا سکتا، بلکہ ضیاءالحق بھی ایک مہرہ تھا، اس کی پشت پر امریکہ بہادر تھا۔ یعنی پاکستان کو دہشتگردی اور شدت پسند کا یہ "تحفہ" براہ راست امریکہ نے فراہم کیا تھا۔ امریکی خوشنودی کیلئے ان جہادی تنظیموں کو اس لئے بھی بخوشی ہماری ریاست نے قبول کیا کہ افغانستان سے فارغ ہوکر ان کے ذریعے ہی ہم بھارت سے کشمیر بھی واپس لے لیں گے۔ لیکن فرد واحد (ضیاءالحق) کے اس فیصلے نے افغان محاذ کی بجائے پورے ملک کو ہی میدانِ جنگ میں تبدیل کر دیا۔

راقم کو یقین ہے کہ اگر اس وقت پارلیمنٹ ہوتی تو وہ کبھی امریکہ کے اس فیصلے کو تسلیم نہ کرتی۔ مگر چونکہ فیصلے کا اختیار فردِ واحد کے پاس تھا، اسے اس کی عقل کے مطابق جو درست لگا، اُس نے وہی کیا۔ اس فردِ واحد کی نالائقی کا خمیازہ پوری پاکستانی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ جہادیوں کے اسٹرکچر کے مطابق ان کی جو معاون تنظیمیں بنائیں گئی تھیں، انہیں بھی مالی مدد ریاست (ضیاءالحق) کی جانب سے مل رہی تھی۔ ضیاء کے بعد بھی یہ سلسلہ منقطع نہیں ہوا، بلکہ بعد میں آنیوالی حکومت نے بھی اس معاہدے کو زندہ رکھا، ظاہر ہے امریکہ بہادر کا یہ معاہدہ ضیاء الحق کیساتھ نہیں، ریاست کیساتھ تھا، تو جو بھی حکمران بعد میں آیا، اس نے اس سلسلے کو قائم و دائم رکھا۔ جہادیوں کو افرادی قوت فراہم کرنے کیلئے جو اسٹرکچر مرتب کیا گیا، اس نے سرکاری پیسے سے دو کام کئے۔ ایک تو نوجوان کو جہاد کی جانب مائل کیا، انہیں تربیت دلوائی اور نام نہاد جہاد پر بھیج دیا، دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ اسی سرکاری امداد سے مخالف فرقے کیخلاف تکفیریت کا سلسلہ شروع کر دیا۔

امریکہ کی اس سلسلہ میں بھی انہیں مکمل حمایت حاصل تھی۔ امریکہ کی جانب سے ریاست اور ان جہادیوں کو یہ کہا گیا کہ روس کے بعد خطے میں سب سے بڑا خطرہ انقلابِ اسلامی ایران ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کو "شیعی انقلاب" کہہ کر پاکستان کے سنیوں اور دیوبندیوں کو ڈرایا گیا۔ یہ کہا گیا کہ ایران اپنا انقلاب پوری دنیا میں پھیلانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ اس کیلئے دلیل کے طور پر امام خمینی کے اس نعرے کی غلط تاویل پیش کی گئی "لاشرقیہ، لاغربیہ الاسلامیہ، الاسلامیہ"، یہاں یہ کہا گیا کہ امام خمینی شرق و غرب میں "اپنا اسلام" پھیلانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے دیوبندیوں کو بالخصوص اس انقلاب سے خوفزدہ کیا گیا۔ (بالکل ایسے ہی جیسے اب امریکہ جھوٹی رپورٹس بنا کر سعودی عرب کو ایران سے خوفزدہ کرکے اپنا اسلحہ فروخت کر رہا ہے)۔ پاکستان میں امریکہ نے انتہائی چالاکی کیساتھ یہ کھیل کھیلا اور پاکستان میں ان تمام افراد کو نشانہ بنایا گیا، جو انقلاب اسلامی ایران کی حمایت کر رہے تھے۔ اس میں بالخصوص ملت جعفریہ پاکستان نشانہ بنی۔ تکفیریت کو فروغ ملا اور ملک ٹارگٹ کلنگ کی ایسی لپیٹ میں آیا کہ یہ سلسلہ آج 25 سال بعد بھی جاری ہے۔

امریکی ڈالروں سے یہ تکفیری اور جہادی اتنے مضبوط ہوئے کہ جہاں انہوں نے مدارس کی شکل میں بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کر لیں، وہیں انہوں نے عوامی حلقوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ  بنا لیا۔ بعض مبصرین کے مطابق انہوں نے عوام میں یہ اثر و رسوخ اپنے کردار کے باعث نہیں بنایا بلکہ عوام نے خوفزدہ ہوکر ان کا ساتھ دیا کہ اگر ان کا ساتھ نہ دیا تو کہیں انہیں بھی قتل نہ کر دیا جائے۔ عوام تو عوام، سیاسی جماعتیں بھی ان کے "شر" سے  محفوظ نہ رہیں۔ ہر دور میں ہر جماعت نے ان کالعدم جماعتوں سے فائدہ اٹھایا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت ہمیشہ سے ان کیخلاف بولتی رہی، مگر اسی پیپلز پارٹی کے متعدد ارکان اسمبلی ان کالعدم جماعتوں کی حمایت اور سرپرستی کرتے رہے اور ان کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ پیپلز پارٹی کے بعد پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت (ن) لیگ ہے۔ نون لیگ کی قیادت نے بھی ان سے مراسم رکھے اور سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے کالعدم سپاہ صحابہ کیساتھ رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، بلکہ آج بھی گوگل پر وہ تصاویر موجود ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رانا ثناء اللہ تکفیریوں کے سربراہ کے ساتھ ریلی میں شریک ہیں۔ رانا ثناء اللہ کیساتھ ساتھ چودھری نثار علی خان نے بھی ان تکفیریوں کیساتھ اپنے تعلقات بہتر رکھنے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ یوں نون لیگ نے بھی ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

سپاہ صحابہ نے تو پیپلز پارٹی سمیت ان سے فائدہ اٹھانے والے تمام سیاستدانوں کی فہرست بھی جاری کی تھی، جو آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے بعد پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی قوت تحریک انصاف ہے۔ جو اس وقت پاکستان میں حکومت کر رہی ہے۔ اسے بھی تخت تک پہنچنے کیلئے کالعدم سپاہ صحابہ ہی کا سہارا لینا پڑا اور انہوں نے بھی کالعدم سپاہ صحابہ کے امیدوار مولانا معاویہ اعظم طارق کیساتھ ہاتھ ملا لیا۔ اس مقصد کیلئے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو ٹاسک دیا گیا، جنہوں نے ان سے ملاقات کرکے ان کی حمایت حاصل کی۔ اس حمایت کے بدلے میں کیا کچھ دیا گیا، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اب بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے 3 وزراء کے بھی کالعدم جماعتوں کیساتھ تعلقات ہیں، عمران خان ان وزراء کو بھی فارغ کریں۔ ان وزراء میں وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر ریلوے شیخ رشید اور وزیر داخلہ شہریار آفریدی کا نام لیا جا رہا ہے۔ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی جانب سے الزامات اور عالمی دباو کے بعد موجودہ حکومت نے کالعدم تنظیموں کیخلاف ایک بار پھر کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ متعدد مدارس اور املاک کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔

کچھ حلقے ماضی کے تجربات کی روشنی میں ابھی بھی کالعدم تنظیموں کیخلاف اس کارروائی کو محض "ڈرامہ" قرار دے رہے ہیں۔ ان حلقوں کو کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ایسی کارروائیاں کی گئیں، مگر چونکہ حکومتوں کے اپنے مفادات ان لوگوں سے وابستہ ہیں، اس لئے ان کیخلاف ہونیوالی کارروائی حقیقی نہیں ہوتی، کیونکہ اس حمام میں تمام سیاسی جماعتیں ننگی ہیں۔ اب بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ ان کالعدم تنظیموں کیخلاف حقیقی کارروائی ہوگی، کیونکہ پہلی بار حکومت اور ریاستی ادارے ایک پیج پر ہیں۔ ماضی میں اگر نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوا تو اس کی ایک بنیادی وجہ حکومت اور فوج کا الگ الگ رخ بھی تھا، مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اور دونوں یکسو ہیں کہ کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی ہر صورت میں کی جائے گی اور نیشنل ایکشن پلان پر بھی اس کی روح کے مطابق عمل ہوگا۔ امید پر دنیا قائم ہے، جہاں اتنے تجربات دیکھے ہیں، چلیں اب بھی دیکھ لیتے ہیں کہ موجودہ حکومت نیشنل ایکشن پلان کا یہ اونٹ کس کروٹ بٹھاتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 783214
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش